اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ دنیا میں طاقتور ترین کون ہے تو آپ کا جواب کیاہوگا؟ اپنے آؤٹ آف آرڈر دماغ کو تکلیف مت دیجیے، ہم بتائے دیتے ہیں بلکہ ہم بھی کیا بتائیں گے، ایک پشتو کہاوت میں پہلے ہی بتا دیاگیا ہے کہ "دنیا زورآوروں " کی ہے یا پھر بے شرموں کی۔ صحیح الفاظ یہ ہیں کہ دنیا دو لوگوں نے کھائی ہے۔
ایک طاقتوروں نے اور دوسرے بے شرموں نے۔ لیکن ہم نے دونوں کو غور کے حوض میں غوطے دیے تو زورآور بھی ڈوب گئے، صرف بے شرم ہی باقی رہ گئے جس طرح سوویت یونین کے انہدام کے بعد صرف امریکا ہی واحد سپر پاور باقی رہ گیا ہے۔
ویسے طاقتور اور زورآور بھی بے شرموں کے آگے چیں بول گئے کیونکہ زورآور بھی وہی بنتے ہیں جوبے شرمی میں ٹاپ کر لیتے ہیں۔ بیچارے شرم دار، حیا داراور خوددار تو سامنے طاقت کا یا کسی بھی چیز کا پہاڑ بھی پڑا ہو تو مارے شرم و حیا اور خودداری کے اسے ہاتھ بھی نہ لگائیں۔ مرشد نے بھی اس کی تصدیق کی ہے:
بندگی میں بھی وہ آزاد وخود بیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درکعبہ اگر وانہ ہوا
لیکن بے شرم، بے حیا بن پوچھے، بن بلائے، آگے بڑھ کر اپنی جھولی بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اردو میں بھی محاورہ ہے کہ" جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم ـ" اس لیے صرف بے شرم ہی دنیا کے واحد سپر پاور ہیں، تھے اور رہیں گے۔
نہ یہ چاند ہوگا نہ تارے رہیں گے
مگر ان کے وارے نیارے رہیں گے
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کسی خاص قسم کے بے شرموں کو نشانہ بنانے کے لیے بندوق لوڈ کر رہے ہیں تو غلط سمجھ رہے ہیں کیونکہ بے شرموں کی نہ اقسام ہوتی ہیں نہ کٹیگریاں، بے شرم صرف بے شرم ہوتے ہیں یعنی نام ہی میں سب کچھ رکھا ہوا ہے بلکہ نام ہی ان کے پہچان ہے۔
بے شرم چھوٹا ہو یا بڑا یہاں ہو یا وہاں کسی بھی ملک کسی بھی پارٹی اور کسی بھی کمیونٹی میں ہوں۔ صرف بے شرم ہوتے ہیں اور شرموں کے سوا کچھ نہیں ہوتے
بے شرمیاں سمٹ کے سارے جہا ں کی
جب کچھ نہ بن سکا تو بے شرم بنا دیا
بے شرم بھی پرانی بنیان پہنے لنگر کی روٹی کھاتے ہوئے جھلنگی چارپائی پر بیٹھ کر بھی مونچھیں بھی نہ ہونے کے باوجود مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہیں گے یعنی ہم تو صرف اچھا کھانے، اچھا پینے اور اچھا کہنے کے قائل ہیں۔ پیسے ہیں، بنگلہ ہے لیکن پھر بھی عزت ہے لہٰذا اور کیا چاہیے نظر یا ویژن کے لیے۔ اور یہ ہم سنی سنائی نہیں کہہ رہے ہیں، اپنا چشم دید چشمہ دیدہ بیان کر رہے ہیں۔
ہمارے کھیتوں والے مکان میں کوئی کوہستانی اجڈ گھرانا مقیم تھا۔ جو ہمارے کارپرداز نے ڈالا ہوا تھا۔ ہم کئی بار وہاں گئے اور آئے لیکن اس گھرانے میں بچوں کے علاوہ اور کسی کو بھی نہیں دیکھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بچوں کے ماں باپ صبح سویرے بھیک مانگنے کے لیے نکل جاتے ہیں۔ باپ بازاروں میں بھیک مانگتا ہے اور ماں گھروں میں پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اور روایتی لاٹھی لے کر مانگتی پھرتی ہے۔
ان دنوں افغان مہاجروں کا زور تھا۔ ہمارے ہاں بھی مہاجر کیمپ تھے۔ کچھ مہاجر ہمارے کھیتوں میں کام کرنے یا آگ جلانے کے لیے ایندھن لینے آجاتے تھے۔ ایک دن ایک مہاجر ہمارے پاس بیٹھا تھا کہ اتفاق سے اس بھکاری گھرانے کی عورت لدی پھندی آگئی۔ افغان مہاجر نے دیکھا تو بولا، یہ عورت تو ہمارے کیمپ میں بھی جب راشن تقسیم ہوتا تب وہاں آتی ہے۔
افغان مہاجر جب مفت کا راشن لے لیتے ہیں تو یہ ان سے بھیک مانگتی ہے یہاں تک کہ گھی کے لیے برتن بھی ساتھ لاتی ہے یعنی جو افغان مہاجر خود ہماری خیرات پر پل رہے تھے، وہ عورت ان سے بھی بھیک مانگتی تھی، آفرین ہے، خیرات میں راشن لینے والوں پر بھی کہ وہ اسے آگے دان کرکے ثواب دارین بھی کماتے تھے۔ اسے کہتے ہیں بھکاری سے بھیک یا بھکاری کا دوسرے بھکاری کو بھیک دینا۔ یہ تو خیر بھیک کی بات ہو گئی جو دنیا کا سب سے بڑا منافع بخش پیشہ ہی نہیں کاروبار اور روزگار بھی ہے جو بے شرمی کے سکوں سے چلتی ہے یا چلتا ہے۔
حیرت اس وقت ہوئی جب یونہی گزرتے ہوئے ہم نے ان کے کوڑے کے ڈھیر پر خربوزے کے چھلکے دیکھے۔ سیزن کے نئے خربوزے بازار میں آئے تھے۔ کل ہی ہم نے نرخ پوچھا جو ہماری استطاعت سے باہر تھا۔ لیکن وہ بھکاری کھا چکے تھے، چھلکے بتا رہے تھے کہ پیٹ بھر کر کھائے ہیں۔ اب اس کو آپ کیا کہیں گے؟ زورآور؟ جی نہیں۔ زورآوروں کی پہنچ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن بے شرمی کی کوئی حد نہیں ہوتی، کہیں بھی ہر وقت پہنچ سکتی ہے اور پہنچ جاتی ہے۔
پڑوسی ملک میں ایک کہاوت ہے جہاں نہ پہنچے "روی" وہاں پہنچے "کوی"(شاعر) ہمیں کرنا صرف یہ ہے کہ کوی کی جگہ بھکاری کیے دیتے ہیں جہاں نہ پہنچے شکار وہاں پہنچے بھکاری اور بے شرم۔ شاہوں کے خزانے ختم ہو جائیں گے لیکن بے شرموں کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوں گے۔