ہم نے مصمم ارادہ کرلیاہے کہ کسی ناپسندیدہ بندے کو قتل کرکے "جنت" پہنچ جائیں، جنت کے نام پرچونکیے نہیں، جنت کی نشانی کیا ہے، جہاں سب کچھ میسرہوکوئی غم نہ ہو یعنی۔
بہشت آں جاکہ آزادے نہ باشد
کسے را باکسے کارے نہ باشد
وہ اوپر والی جنت تو ہم نے دیکھی نہیں ہے لیکن برسرزمین اگر کوئی مقام ایسا ہے تو وہ "جیل"ہے اور ہمارا بھی اسی جنت میں جانے کا ارادہ ہے جہاں نہ نرخ ہوتے ہیں، نہ مہنگائی نہ ستائی نہ بیروزگاری۔ آٹا چاہے ہزار روپے کلوہوجائے حکومت ہمیں کہیں سے بھی لاکرکھلائے گی، ٹھیک روٹی میں کچھ کنکرپتھربھی ہوں گے کیوں کہ سرکاری "مقامات" سے گزرکر آتا ہے، دال میں پانی زیادہ ہوگا مگر پانی بھی توایک ضروری چیزہے جو مہنگائی کاشکار ہے یوں اس دال میں کھانے اورپینے کی دونوں خوبیاں ہوں گی۔ مطلب یہ کہ روٹی کپڑامکان۔ یہی تو انسان کی اصل ضروریات ہیں باقی تو خواہش، عیاشیاں اورلگژریاں ہیں جن کے بغیر بھی انسان جی سکتاہے۔
آپ بھی اگرغورکریں توعافیت کی صرف وہی ایک جگہ بچی، مہنگائی اورنرخوں سے ہی نہیں، زخم پر نمک چھڑکنے والے بیانات بھی نہیں ہوں گے، جھوٹے اینکر تھنکر بھی نہیں ہوں گے۔ دل کو چھلنی چھلنی کرنے والی خوش خبریاں بھی نہیں ہوں گی، مطلب یہ کہ عافیت ہی عافیت راحت ہی راحت۔ ٹھیک ہے گوشت پلاؤ نہیں ہوگا لیکن وہ تو یہاں بھی اب؟ ایک پشتو ٹپہ سنئے۔۔
پتنگہ خاورے دے پہ سر شہ
شمے لہ جوڑ شول پہ شیشو کے مکانونہ
یعنی اے پروالے تو خاک بسر ہوگیا کہ اب شمع کے لیے شیشے کے محل بنائے جاتے ہیں۔
باہررہ کربھوکامرنے سے توجیل کی بری بھلی بدرجہا اچھی ہے، سوچ لیجیے، موازنہ کیجیے اورجھوٹ کے اس سیلاب کودیکھ کر فیصلہ لیجیے کہ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کوکھانا شروع کر دیں۔ کہتے ہیں معاشرے میں کرپشن، منشیات اوربے راہرویاں بڑھ رہی ہیں جب حکومت ہی ان چیزوں کی ڈسٹری بیوٹرہوتو لوگ کیاکریں گے کہاں جائیں۔ سو ہم نے ارادہ کرلیاہے کہ کسی کاخون کرکے اس برسرزمین "جنت" میں پہنچنے کی سیبل کریں۔
میں چلاہوں قید خانے جہاں کوئی غم نہیں ہے
جسے دیکھنی ہو جنت میرے ساتھ ساتھ آئے
لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ کس کوجنت رسید کرکے خود جنت رسید ہوجائیں۔ فیصلہ کرنا مشکل اس لیے ہے کہ سامنے بہت سارے لوگ ہیں جو خود کو واجب القتل بناچکے ہیں، بنارہے ہیں۔
ہربازار کا ہردکاندار اس کا مستحق ہے کہ اسے کیفرکردار تک پہنچایا جائے کیوں کہ وہاں جب ایک روپیہ بڑھتا تو یہ دس بڑھا دیتے ہیں "سرکاریوں " میں تو انتخاب کرنامشکل ہے کہ پہلے کسے یہ سعادت بخشی جائے۔ اورہاں یہ "منتخب"جو روزانہ بلکہ صبح دوپہر شام کو "میرے سر پرسو سو درے مارتے ہیں "۔
ایک کہانی یادآرہی ہے اجازت ہوتو گوش گزارکریں، ہوایوں کہ ایک وی آئی پی کی لگژری گاڑی کے سامنے ایک آدمی بے ہوش سڑک پر پڑا تھا، وی آئی پی ڈرائیور اور دوسرے لوگوں کی مدد سے اسے اسپتال لے گیا، معاملہ وی آئی پی کاتھا اس لیے سارے ڈاکٹرفوراً پہنچ گئے، مریض کے معائنے ہونے لگے، ٹیسٹ لیے گئے، ایکسرے نکالے گئے لیکن مریض کی بیماری کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ دل کے ڈاکٹر نے دل کواوکے قراردیا۔ جسم پرکوئی زخم یانشان بھی نہ تھا، دماغی ڈاکٹرنے دماغ کوصحیح قرار دیا۔ میٹنگیں ہوئیں لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ مریض کو عارضہ کیاہے؟ اورپھر اچانک ایک وارڈ بوائے نے مریض کاعلاج کرکے بھلاچنگاکردیا کیوں کہ وہ اس بیماری سے واقف تھا وہ مریض کو دوا پلارہاتھا کہ مریض نے چمچے کو منہ میں پکڑ لیا اور چبانے لگا۔ وارڈ بوائے سمجھ گیاکہ اسے کوئی بیماری نہیں بھوک کامارا ہواہے، پھر اسے دودھ پلایا تو مریض بھلاچنگا ہوکراٹھ بیٹھا۔
ہمارے انصاف دارمعالج بھی مریض کامرض سمجھنے میں ناکام اس لیے ہیں کہ ان کواس جان لیوا بیماری سے آشنائی نہیں ہے بقول ایک پشتو کہاوت کہ۔
ان کی روزی تودریا سے ہے وہ کیاجانے کہ روزی کیسے چلتی ہے۔
بہرحال ہمارا ارادہ کسی خدمت گارکوشہید کرکے اخروی جنت۔ اور خود کو غازی بناکر زمینی جنت تک پہنچانے کاہے صرف انتخاب کامرحلہ ذرا طے ہو جائے۔