یہ ضروری نہیں کہ ہرزوج کے ٹوٹنے کی آوازبھی ہو یا تباہی مادی شکل میں ہو، ایک مشہوربات ہے کہ خداکی لاٹھی بے آوازہوتی ہے۔
زندگی کا سازبھی کیا سازہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
ان دوٹوٹے ہوئے ازواج میں ایک زوج تومرد اورعورت کاہے جب کہ دوسرا حکومت اور عوام کا ہے، مردوعورت یانرومادہ کے "ملن"سے جواولادپیدا ہوتی ہے، اس کے پالن پوسن اور انسان بنانے کاکام بھی اس جوڑے کے اشتراک پرہے۔ مردکی ذمے داری اس بچے کی جسمانی تعمیر ہے، جسم کی نشوونماکے لیے جوکچھ بچے کو چاہیے ہوتاہے، اسے فراہم کرنا مردکاکام اورفرض ہے، جب کہ عورت کی ذمے داری اس سے بھی زیادہ نازک اوربڑی ہے۔
وہ ہے اس بچے کی اندرونی تعمیر، اس کے اندرانسان پیداکرنا، وہ جب پیدا ہوتاہے تو صرف ایک حیوانی بچہ ہوتاہے، گیلی مٹی کا ٹکڑا ہوتاہے اوراس حیوان کو انسان بنانا عورت کی ذمے داری ہے اوراس ذمے داری کا ثبوت قدرت نے خود عورت کی ساخت میں رکھاہوا ہے۔ بچے کی خوراک کاذریعہ پہلے ماں کے پیٹ میں ہوتاہے اوردنیا میں آنے پر بھی ماں کے وجود میں ہوتا ہے چنانچہ پیدائش سے لے کر ہی وہ اسے اپنے آغوش میں رکھتی ہے، اسے کھلاتی پلاتی ہے، لپیٹنا، بیٹھنا، چلنا، بولنا، سب کچھ، کہ اسی دورمیں بچے کی اصل تعمیرہوتی ہے، اس کے اندرانسان بنتاہے۔
گویا ایک کیڑے کوانسان کے درجے پر پہنچانا اس کی ذمے داری ہے اوریہ اس ذمے داری سے زیادہ بڑی، زیادہ بھاری اورزیادہ اہم ہے جومردکی ہے، یعنی ان دونوں کی جسمانی اورمادی ضروریات پوری کرنا، لیکن یہاں قدرت کے ایک اوراصول کوبھی ذہن میں لائیے اوروہ ہے، استعمال اور عدم استعمال کااصول جسے عام طورپر ڈارون اور لامارک سے منسوب کیاجاتاہے لیکن اصل میں ایک قدرتی، فطری اورالٰہی اصول ہے، ڈارون اورلامارک نے اسے صرف دریافت کیا ہے۔
اس اصول کے مطابق جو چیزیا وجود یا عضو زیادہ استعمال ہوتا ہے، وہ مضبوط اورسخت ہوتا جاتا ہے اورہمارے سامنے ہورہا ہے کہ سخت کام کرنے والے سخت جاں اورنرم کام کرنے والے نرم ونازک ہوجاتے ہیں۔ پہلوان، باڈی بلڈرز، کھلاڑی، مزدوراوردیہاتی کسان سخت اورشہ زور ہوتے ہیں، جب کہ لکھت پڑھت، تجارت، دکانداری اور دفتروں میں آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر کام کرنے والے کمزوراورنازک ہوتے ہیں۔
عورت بھی صدیوں سے، اس وقت سے جب سے انسان نے خاندان بنانا شروع کیے، اپنی جسمانی ساخت، کام اورذمے داری کے باعث "گھر" ہی کے محدود مسائل کے ساتھ محدود رہی ہے جب کہ مرد اپنی ذمے داری کے مطابق کھلے ماحول اورطرح طرح کی مقابلہ بازی میں جسمانی اورذہنی طورپرزیادہ مضبوط ہوتاگیا، جس میں ایک بڑی اورخطرناک چیزعیاری چالاکی اوخودغرضی بھی ہے، چنانچہ اس نے عورت کونہایت چالاکی سے آزادی نسواں کا نعرہ دیا کہ عورت مرد سے کمزورنہیں وہ مرد کے برابرہے وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو مرد کر سکتاہے۔
میرا تو یہ ماننا ہے کہ عورت، اس نعرے میں پوشیدہ یہ سازش نہ سمجھ سکی کہ چالاک مرد اپنی ذمے داری بھی اس پرڈالنا چاہتاہے، اسے آزادی کا سبزباغ دکھاکرکمائی کاذریعہ بنانا چاہتاہے، یوں مرد نے اپنی ذمے داریاں بھی عورت پر ڈال دیں اوریہیں پر، جوڑا ٹوٹ گیا، جوڑے کے ایک رکن کواپنا اہم ترین کام چھوڑکر دنیاداری کے دوسرے کام میں ڈال دیا۔
مردکے بنائے ہوئے اشرافیائی علوم اور نعروں نے اوربھی کام آسان کردیا اور عورت مردکی برابری کے چکر میں آگئی۔ اب خواتیں، مرد کے کاموں میں اسے مدد تو دے رہی ہے لیکن اس کا اپنا اصل کام اولاد کی تربیتکون کرے گا، اس کے لیے اس نے نوکر رکھنا شروع کیے بلکہ ابتداء دودھ سے کی کہ اپنے دودھ کے بجائے اسے ڈبیکے دودھ پر رکھ لیا۔
آزادی کے جوش میں فیشن ایبل طریقہ پرورش کے مطابق اسے الگ بستر، الگ کمرے کے حوالے کردیا، کیوں کہ زوج ٹوٹنے پروہ زندگی کا اصل مقصدصرف کمائی رہ گیاہے چنانچہ اب بچے پیداہوتے ہیں، پلتے بڑھتے بھی ہیں لیکن ان کے اندرایک خلاہوتاہے جسے وہ ماں باپ اوردنیاوی درسگاہوں سے توپرنہیں کرسکتا، اس لیے وہ بھی صرف ایک جسم اورکمائی کی مشین بن گیا اور معاشرے میں اب انسان کے بجائے کمائی کی مشین چل رہی ہے۔