Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Khud Ko Khud Hi Saza Dene Wale

Khud Ko Khud Hi Saza Dene Wale

آپ نے کبھی ان بڑے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی زندگیوں پرغورکیاہے، یہ جوپہلے سے بھی بڑے بڑے ہوتے ہیں اورمزید بڑابڑا ہونے کے لیے بہت بڑا بڑا کام کرتے ہیں جن کی اخباروں میں بڑی بڑی سرخیاں، زردیاں اورپیلیاں لگتی ہیں، جن کی ٹی وی اسکرینوں پر بڑی بڑی بریکنگ، ٹریکنگ اوربیکنگ نیوزلگتی چلتی ہیں۔

آپ کا توپتہ نہیں، کیوں کہ آپ ان جیسے بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں اگر کوئی ساری دنیا بھی دیدے تو ان کی جیسی زندگی قبول نہیں کریں گے کہ

خواب نہ خورنہ آرام

ہروقت دوڑ دوڑ ہنگامہ

ہنگامہ، جھگڑے، خرچے، مقدمے، الزامات، رسوائیاں، پیٹھ پیچھے گالیاں، کوسنے اوربد دعائیں۔

خداہم کوایسی خدائی نہ دے

کہ اپنے سواکچھ دکھائی نہ دے

صفائیاں دیتے دیتے گندے ہوجاتے ہیں لیکن دنیا انھیں خطاوار ہی سمجھتی ہے، مجال ہے کبھی کسی کے منہ سے کوئی کلمہ خیر ان کے لیے نکلے، ان کے بھی جوان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے اس پر بہت سوچا بلکہ پشتو زبان کے نامور شاعر رحمان بابا بہت پہلے سوچ بھی چکے ہیں اورکہہ بھی چکے ہیں، نہایت ہی سادہ سی بات میں انھوں نے دنیا جہان کی عبرتیں جمع کی ہیں۔

ہر جوندے چہ دمردہ پہ قبر تیرشی

دومرہ بس دے نصیحت پہ دادنیا

یعنی ہر "زندہ" جب کسی مردے کی قبرکے پاس سے گزرتاہے تواس سے بڑی نصیحت اورعبرت کوئی نہیں۔ ہزار کتابیں ایک طرف اورایک قبردوسری طرف، اگر کوئی عبرت پکڑنے والادل ہوتو۔ ورنہ یہ جودوڑ رہے ہیں، بھاگ رہے ہیں، بک بکا رہے ہیں، چیخ رہے ہیں، چلارہے ہیں، ان کے سامنے ایک نہیں بے شمار قبریں ہیں۔ ایوب خان نے کونسے مینارے کھڑے کیے، جنرل یحیٰ قزلباش نے سوائے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے کونسی فتوحات کیں، جنرل اے اے کے نیازی نے سوائے ہتھیار ڈالنے کے کونسا کارنامہ انجام دیا۔ بھٹونے سوائے ادھر تم ادھر ہم کے کونسے جھنڈے لہرائے، ضیاء الحق نے کتنے پرچم اڑائے، بینظیر، مشرف … اور۔ اوراور…

کہتے ہیں، ہر سپیراکہتا ہے کہ مجھے سانپ نہیں ڈسے گا کیوں کہ میں دوسروں سے زیادہ ہوشیار، زیادہ تجربہ کار اورزیادہ جانکار ہوں لیکن اکثر سانپ کے زہر سے ہی مرتے ہیں۔

ہم نے بہت سوچا، بہت سوچا، کیایہ لوگ پاگل ہوتے ہیں کہ خدانے اتنا کچھ دے رکھا ہوتاہے لیکن یہ پھربھی آرام سکون اورفراغت کی زندگی چھوڑ کر اس کوئے ملامت میں بے چین اورسرگرداں رہتے ہیں۔ کیچڑ کی جنگ میں خود کو لتھڑاتے ہیں، خلق خداکی زبانوں پر ان کانام بصورت گالی پڑا ہوتاہے بلکہ بعد ازمرگ بھی کوسے جاتے ہیں، لعنت ملامت کیے جاتے ہیں۔

پھراچانک ہمیں پتہ چلا کہ خدائے عظیم وبرتر نے یہ کارخانہ بنایا ہی ایساکمال کاہے کہ اس میں سب کچھ "خودکار" اورآٹو میٹک طریقے پرہوتاہے، ہرعمل کاایک ردعمل ہوتاہے اورہرگناہ کی سزاملتی ہے جو اکثر اسی دنیا میں مل جاتی ہے لیکن لوگ سمجھتے نہیں اوراس "سزا" کو ایک الگ چیز سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، بظاہر وہ کوئی الگ آفت، اتفاقی چیزیں ہوتی ہیں لیکن کسی نہ کسی برے عمل کانتیجہ ہوتی ہے۔ چنانچہ جن لوگوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔

ان لوگوں نے ناجائزاورحرام مال جمع کیا ہوتا ہے، انسانوں کاخون پسینہ نچوڑ کرسرمایہ بنایاہوتاہے، کسی نہ کسی قسم کی غداری، بے ایمانی اورظلم کے ذریعے جائیدادیں، جاگیریں اوراملاک بنائی ہوتی ہیں اورپھر خدا کی بے آوازلاٹھی برستی ہے اور اسی سرمائے، جائیدادوں اوراملاک کوان کے لیے "سزا" بنادیتا ہے یایوں کہیے کہ خودکوخود ہی سزا دینے لگتے ہیں، طرح طرح کے مسائل اپنے لیے پیدا کرتے رہتے ہیں، طرح طرح کی بیماریاں، رسوائیاں اوربے چینیاں، بے آرامیاں، خود مول لیتے رہتے ہیں۔"اموال اوراولاد" ان کے لیے فتنے بن جاتے ہیں، اتنے ہی بے آرام اور رسواہوتے جاتے ہیں۔"اموالکم واولادکم فتنہ۔"

یہ سب اورکچھ نہیں ہے بلکہ گزشتہ اعمال کی سزا "خود" کو خود دینے کاعمل ہے۔ ایک واقعہ یاد آرہاہے، کابل میں ایک امن کانفرنس کسی بین الاقوامی این جی او نے منعقد کی تھی، ہوٹل کے کمرے میں ہمارا ایک بہت بڑا سرمایہ دار ساجھی ہوگیاتھاجو خاندانی امیر، بے پناہ جائیداد اوربہت بڑی سیاسی پوزیشن رکھتاتھا، اکثر ایم این اے اورسینیٹر بھی رہتاتھا۔ ایک مرتبہ صوبائی وزیر بھی بناتھا۔

صبح ہم باتھ روم گئے اوردس پندرہ منٹ بعد فارغ ہوکرنکلے تو وہ حیران ہوکر پوچھنے لگا، بس ہوگیا؟ ہم نے کہا، ہاں۔ بولا، اتنی جلدی؟ کمال ہے کیاخوش قمست ہو۔ میں تو جب باتھ روم میں بیٹھتا ہوں تو تھک جاتا ہوں، پسینے پیسنے ہو جاتاہوں لیکن پھربھی فراغت نہیں ہوتی، ہزار اقسام کی دوائیں پھانکتاہوں، تب کچھ گزارہ ہوجاتاہے، نیند بھی تب آتی ہے جب کمرے میں کوئی آوازیاروشنی نہ ہو، وہ بھی خواب آورگولیاں کھا کر۔

پھر کھانے اورناشتے کے وقت پتہ چلا کہ وہ نمک حرام بھی ہے، شکرحرام بھی، روغن حرام بھی ہے اورگوشت حرام بھی۔

یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں، بڑے بڑے بہت بڑے بڑے یہ دراصل بہت بڑے بڑے عذابوں میں مبتلا اورخود کوخود سزادینے میں مصروف ہیں۔ ورنہ انسان کی اصل ضرورتیں توبہت کم ہیں، باقی ساری خود نمائی صرف سزا ہے کیوں کہ جس طرح گرمیوں میں پانی کا ہوکا لگ جاتا ہے، جتنا پانی پیتاجاتاہے، پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے، پیٹ پھول کر مشک بن جاتاہے لیکن پیاس کبھی نہیں بجھتی۔ ایسے میں پیاس اگربجھتی ہے تو دوگھونٹ صبر اورقناعت کے گرم پانی ہی سے بجھتی ہے۔