ہم نے وعدہ کیا تھا کہ لفظ "برہمن" کا تعاقب بھی کریں گے کیوں کہ یہ بھی چیزوں کی وہ چیز ہے جس نے بہت ساری چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیا ہے۔ نہ صرف آریاؤں کے دشمنوں کو آریا بنا ڈالا ہے بلکہ وسطی ایشیا یا کسی اور جگہ جو بھی خاص واقعہ ہوا ہے یا کوئی خاص شخصیت پیدا ہوئی ہے، اسے کھینچ کر بھارت میں پہنچایا ہے، مثلاً "ایودھیا" یا اودھ، جس پر آج کل سیاست ہو رہی ہے۔
نہ تو یہ مقام ایودھیا تھا اور نہ ہی رام چندرکی جنم بھومی یہی ہے بلکہ رام چندر نہ کبھی ہوا ہے کیوں کہ یہی رام اور رامائن کی کہانی ایران میں بہرام اور گل اندام کی کہانی ہے اور یونان میں ہیلین آف ٹرائے کی کہانی ہے، تینوں میں بیاہتا عورت سیتا، گل اندام اور ہیلین کو ئی حقیقی عورت نہیں ہے بلکہ جائز اور حقیقی مالک کی سلطنت ہے۔
خیر یہ الگ موضوعات ہیں لیکن "اودیانا" وادی سوات کا قدیم نام ہے جسکے معنی ہیں "خطہ امن"، "یدھ" کا مطلب ہے جنگ اور "ا…یدھ" کے معنی ہیں بے جنگ لیکن ہم اپنے موضوع برہمن پر آتے ہیں۔ پارسی یا زرتشی مذہب کی کتاب "ژنداوویستا" کا ایک باب ودیودات یا ویدیداد ہے جسے انگریزی میں "ویڈویڈ" کہا جاتا ہے۔ اس زراتوشتر (زرتشت) خدائے خیر آہور مزدا (ہرمز، یزداں) سے پوچھتا ہے کہ مجھ سے پہلے آپ کا کوئی مقرب اور پسندیدہ بندہ گزرا ہے۔ آہور مزدا اسے بتاتا ہے کہ " ہاں! قدیم زمانوں میں ہمارا ایک پسندیدہ بندہ "یم" یا "یما" تھا۔ اس کے باپ نے سوم رس ایجاد کیا تھا جس کے بدلے میں، میں نے اسے "یما" جیسا ہونہار اور لائق فائق فرزند عطا کیا تھا"
یہ "یما" بعد میں جم… جمشید ہوگیا، ہندی دھرم میں یہی "یم" موت کا دیوتا یم راج ہے۔ جمشید کی صفات بیان کرنے کے بعد آہور فردا کہتا ہے، میں نے یما سے کہا تمہاری آبادی "یہاں " بہت بڑھ گئی ہے، کچھ دنوں بعد اتنی بھی جگہ نہیں ملے گی جہاں بھیڑ کا بچہ اپنے پاؤں ٹکا سکے، اس لیے تم یہاں سے منتخب بندے، پرندے، جانور اور بیج لے کر نیچے ہموار علاقے میں جاکر "نیاوارہ" بنالو۔ اور یہی لفظ "وارہ" یا وہارہ ہند یورپی زبانوں میں بہت سارے الفاظ کی بنیاد ہے جو خود بھی اس آر، آرہ سے ہرا، پھر وہرا اور وہارہ تک پہنچا ہے۔
تمام ماہرین تاریخ اور لسانیات کا اس پر اتفاق ہے کہ آریاؤں کے اجداد "وروس" تھے۔ جرمنی کا بھی یہی دعویٰ کہ ہم اصلی "وروس" کی اصلی اولاد ہیں۔ لفظ "وروس" سے اگر یونانی اور انگریزی صیغہ خاص (س) ہٹا دیا جائے تو "ورو" رہ جاتا ہے۔"ورو" جو وارہ کے رہنے والے تھے یا جہاں "ورو" رہتے تھے وہ وارہ تھا۔ یہ لفظ سنسکرت میں ویر ہے۔
فارسی میں "ورا" جرمن میں "ائر" اورآئرش زبانوں میں فر ہے۔ قدیم اوویستائی میں بھی یہ "فر" تھا، وہ مقام جہاں آریاؤں کے اجداد "ورو" رہتے تھے جو ہند یورپی زبان بولتے تھے۔ جمشید کے "نیاوارہ" سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس سے پہلے جہاں یہ لوگ رہتے تھے وہ بھی "وارہ"ہی تھا اور جمشید کا وارہ نیا وارہ تھا۔ اس لفظ سے وہارہ، بھارہ، نو بھارہ کے الفاظ بنتے ہیں۔ آتش کدہ نوبہار اسلامی عہد تک بلخ میں موجود تھا۔
اسی وارہ یا وہارہ، ورہا، برہا، برہم، برھمک اور برمک کے الفاظ بھی بنتے ہیں اور ویہڑہ، وہاڑہ، باڑہ، باڑی، کھیتی باڑی، باڑ جیسے الفاظ بھی بنتے ہیں۔"ویہڑہ" کا مطلب "احاطہ" ہوتا ہے، بھارت کا صوبہ "بہار" اور بہار کے علاوہ پنجاب میں بھیڑہ، بھیرہ تو ہے لیکن بھیرہ کے قریب ایک انٹرچینج کا نام بھی "برھمہ باہتر" ہے۔ لفظ بلخ و باختر بھی وارہ سے بنتے ہیں۔ وارہ بہارہ، نجد، نجدیم بلیہکا، بلخ باختر یہ سارے الفاظ اوویستا اور قدیم پارسی نوشتوں میں آئے ہیں، مطلب یہ کہ جہاں جہاں ورو یا وروس یا وارے وہارے والوں کی اولادیں گئی ہیں، اس لفظ وارہ کو ساتھ لے کر استعمال کرتی رہی ہیں، "احاطے " یا بستی یا مرکز کے مفہوم ہیں۔ بدھ لوگ بھی اپنے مرکز کو وبہارہ کہتے ہیں۔
اب ایک مرتبہ ژنداوویستا باب ونداد میں آہور مزدا کے وارے کا ذکر کرتے ہیں۔
میں نے یاما سے کہا کہ تم پیروں سے مٹی گوندھ کر ایک احاطہ بناؤ جس کا ایک بازو گھوڑے کی ایک تاخت کے برابر ہو۔ پھر اس میں تین قسم کے احاطے بناؤ۔ بڑا جس میں نو سو آدمیوں کی گنجائش ہو، دوسرا جس میں چھ سو آدمیوں کی گنجائش ہو اور تیسرے چھوٹے میں تیس سو کی اور اس حاطے کا نقشہ بھی اب تک آریائی اقوام میں موجود ہے جسے سواستکا کہا جاتا ہے۔