گاؤں کی فضااچانک بے تحاشا فائرنگ سے گونج اٹھی، ہمارادل دھڑکاکہ شاید پھر کہیں دوفریقوں میں ٹھن گئی ہے جو آٹھ دس جانوں کانذرانہ لے کر رہے گی، فائرنگ کی آوازوں سے ہتھیاروں کی اقسام کااندازہ ہوجاتا تھا اوران آوازوں سے یہ پتہ چلانا بھی مشکل نہیں تھا کہ لوگ طرح طرح کے کون سے جدید ہتھیار استعمال کررہے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد باہرنکل کرپتہ کیا تو پہاڑ کھودنے پر جو "چوہیا"نکلی تھی، وہ بھی مری ہوئی اورگلی سڑی تھی۔ پتہ یہ چلا کہ دورکہیں کسی ملک میں پاکستان کی ٹیم نے بھارت کی ٹیم سے کرکٹ میچ جیتاتھا۔
حیرت ہوئی کہ صدیوں کے عدم استعمال سے تقریباً "صفر" ہونے والے دماغوں میں کیاکیا فتورپیدا ہوجاتے ہیں۔ کیااس میچ کی جیت سے عوام کالانعام کوکچھ فائدہ ہوا، مہنگائی کم ہوگئی، آٹا دال، چینی، گیس، پٹرولیم، بجلی کے نرخ کم ہوئے، قوم کی گردن سے دوچاروزیر، مشیراورمعاون خصوصی اترگئے، آئی ایم ایف نے قرضہ معاف کردیا، بیروزگاری کے ہاتھوں بھکاری، مجرم اورنشئی بننے والے کم ہوجائیں گے، کالانعاموں کو کتنے نوافل کا ثواب مل جائے گا؟
یہ کوئی آج کل کی بات نہیں ہے اورنہ محض مذاہب کی حد تک بات ہے کہ ایران کاکوئی عام شہری بغیردیکھے، سنے یاجان پہچان کے کسی دوردرازکے یونان اور یونانی کا دشمن بن جاتا ہے، عرب ایرانی کادشمن ہوجاتا ہے، مصری ترک کا بدخوا ہوجاتا ہے حالاں کہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں ہوتے لیکن اشرافیہ جس کادماغ شیطان سے بھی زیادہ تیزہوتاہے، اس نے عامیوں کو بتایاہوتاہے کہ فلاں تیرادشمن ہے اور اس کے عدم استعمال کاشکاردماغ ان نعروں، ترانوں اورگیتوں سے گرم ہوکربے قابوہوجاتا ہے۔
ایک ملک، قوم یامذہب کا پیرو کار عام انسان جو کوسوں دورکسی گاؤں میں اسی کی طرح بھوک اوراشرافیہ کے ظلم، مکرو فریب کاشکار ہے، آخر کیوں اس کادشمن ہوجاتا ہے؟ کیوں کہ "اشرافیہ شریف" اورحکمرانیہ مبارک نے کہا ہوتاہے، پرپیگنڈا کیا ہوتا، اس لیے عام آدمی اس کا شکار ہوجاتا اور اپنے جیسے اس عام آدمی کو اور اس کے ملک کو اپنا جانی اور ازلی دشمن سمجھتا ہے۔ ہندوستان پاکستان کی دشمنی یاکشمیرکامعاملہ تو بے شمار لوگوں کے لیے دودھیل گائے ہے، بھلاکوئی دودھیل گائے بھی ذبح کرتاہے۔
دنیا میں کتنے بڑے بڑے لوگ ہیں، طاقتورممالک ہیں، ادارے ہیں جوبڑے سے بڑا مسئلہ چٹکیوں میں حل کرسکتے ہیں اورجہاں چاہیں حل بھی کر دیتے ہیں۔ عرب ایرانی دشمنی پیداکربھی سکتے ہیں اورعرب اسرائیل کودوست بھی بناسکتے ہیں لیکن کشمیرکامسلہ حل تو کرسکتے ہیں مگرکیوں کریں؟ اسلحہ والے اسلحہ کہاں بیچیں گے، قرض دارکسے بنائیں، کتنے بیروزگارچندے کے روزگارسے لگے ہوئے اوربھی بہت سارے دھندے اورپھندے اس سے وابستہ ہیں، اگرمسلہ حل ہوگیا تویہ سب کیاکریں گے بچارے۔
بحرساکن ہوتو تم کوکوئی پوچھے بھی نہیں
ناخدا خیر منا بحر میں طوفانوں کی
ہم نے کہیں ان کالموں میں بتایاہے کہ ایک زمانے میں ہم پر بھی گاؤں کامشراورجرگہ نشین ہونے کا بھوت سوارہوگیا اورچند ہی دنوں میں ہم نے گاؤں کی کئی دشمنیاں ختم کرادیں۔ اس پر ایک پرانے گھاگ اورخاندانی جرگہ نشین نے ہم سے کہا، یہ تم کیا کررہے ہو کیوں ہماری روزی روٹی کولات مارہے ہو، دشمنیاں ختم ہوجائیں گی توہم تھانہ کچہری کس کے ساتھ جائیں گے، ہوٹلوں میں پلاؤ، تکے کیسے اڑائیں گے، جرگوں میں دنبے کن سے ذبح کروائیں گے، باز آجاؤ۔ ہم بازنہیں آئے توہمیں جھوٹے الزاموں میں اتنا بدنام کیاگیاکہ خودکوبچانے کے لالے پڑ گئے، قادیانی، مرزائی، یہودی، دہریہ اورنجانے کیا کیاٹھپے ہم پر لگ گئے۔
دنیا کی ساری "اشرفیائیں " آپس میں ایک بلکہ سگی بہنیں ہوتی ہیں اورسب کادشمن بھی ایک ہوتا ہے یعنی اپنی اپنی عوامیہ یااپنی اپنی دودھیل گائے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ کتوں کی آپس میں گلی گلی کوچہ کوچہ دشمنی ہوتی ہے لیکن "فقیر"کے خلاف سارے ایک ہوجاتے ہیں اورایک ہی صف میں اس پرحملہ آورہوجاتے ہیں جب تک اسے گاؤں سے نکال نہیں دیتے۔ بہت زیادہ تفصیل میں ہم نہیں جائیں گے کیوں کہ ابھی ہمارا سراپنے کندھوں پر بھاری نہیں ہواہے لیکن ندا فاضلی کے چند شعرآپ کو ضرورسناسکتے ہیں۔
دیواریں اٹھانا ہرایک کی سیاست ہے
یہ دنیا جہاں تک ہے انسان کی وراثت ہے
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی
ہندوبھی مزے میں ہے مسلماں بھی مزے میں
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی
خونخواردرندوں کے فقط نام الگ ہیں
شہروں میں بیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی
اٹھتاہے دل وجاں سے دھواں ہرطرف ہی
یہ میرکادیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
وصل، علیحدگی اورنفرت کی جب ابتداہوتی ہے تو پھر وہ مذہب تک محدود نہیں رہتے، فرقوں، زبانوں، نسلوں یہاں تک کہ ذات برادریوں میں بھی سرایت کرجاتے ہیں۔