Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Samrat Aana Shuru Ho Gaye

Samrat Aana Shuru Ho Gaye

خبرباوثوق ہے بلکہ خوش خبری کہئے کیوں کہ ذریعہ سرکاری ہے اوردرباری بھی۔ اورسرکاری درباری ذریعہ ہمشہ اعتباری ہی ہوتاہے کیوں کہ پاکستان کی تاریخ جوتھوڑی تاریک بھی ہے، باریک بھی اورخبریک، شکریک بھی۔ لیکن آج تک سرکاری، درباری، اعتباری، اخباری، گفتاری، ذرایع نے کبھی جھوٹ نہیں بولاہے جب بھی بولے ہیں سچ ہی بولے ہیں۔

تواس خبر یاخوشی کاذریعہ بھی نہایت اعتباری، سرکاری اوردرباری ہے، صوبہ خیرپخیرعرف کے پی کے میں سب سے بڑے سرکاری ذریعے نے یہ اخباری خبرجاری کی ہے کہ … ضم اضلاع میں حکومت نے عوامی سہولیات کے لیے جو ٹھوس اقدامات کیے ہیں ان کے نتائج اورثمرات آنا شروع ہوگئے ہیں۔

اب یہ تفصیل تو فی الحال جاری نہیں ہوئی ہے کہ یہ "ثمرات" کس ذریعے طریقے سے آناشروع ہوگئے، کریٹوں کی شکل میں آرہے ہیں، بوریوں کی صورت میں یاٹوکریوں میں ڈال کر۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ "ثمرات"کس حالت میں ہیں کیوں کہ آج کل پھلوں کی آمدورفت کے کئی طریقے نکلے ہیں۔

اگلے زمانوں میں تو جب "پھل" پک جاتے تھے تو درخت سے توڑ کر یہاں وہاں مارکیٹوں میں بھیجے جاتے لیکن جدیدطریقہ یہ ہے کہ پھل پکنے سے پہلے کچی حالت میں کریٹوں، پیٹیوں وغیرہ میں پیک کردیے جاتے ہیں اورچھوٹی چھوٹی پڑیوں میں کاربیٹ رکھ دی جاتی ہے اورپھر چند روزقرنطینہ میں رکھ کر پکائے جاتے ہیں اورپھرمارکیٹ پہنچادیے جاتے ہیں۔

آج کل آموں، کیلوں، الوچوں، خوبانیوں اورآڑوؤں کے ساتھ یہی کیاجاتاہے۔ مطلب مارکیٹ میں قبل ازوقت پہنچانا اوراونچی کمائی کرناہوتا ہے لیکن یہ بڑاہی نازک اور ماہرانہ کام ہے اگرکاربیٹ کی مقدار زیادہ ہوگئی یانقل و حمل میں کچھ دیرسویرہوجاتی ہے تو سارامال سڑاہوا نکلتا ہے اورہمارا تجربہ ہمیں بتاتاہے کہ موجودہ حکومت یا یوں کہیے کہ ثمرات کے تاجر کچھ زیادہ جلد باز واقع ہوئے ہیں۔

مارکیٹ میں پہنچنے کی جلدی سے اکثر نقصان اٹھا لیتی ہے، ابھی باغ لگایا ہی ہوتا ہے کہ اسے مصنوعی طریقوں سے بارآورکرکے کچے پھل توڑنا شروع کردیتی ہے، اوپرسے "کاربیٹ"کا استعمال بھی اناڑیوں کے ہاتھ میں ہے، اس لیے اکثر "ثمرات" نقل وحمل یعنی اخباری بیانات ہی میں گل سڑ کرخسارے کا باعث بن جاتے ہیں جس کے قرضے پھرسود، مطلب ہے…نہ آمد نہ رفت نہ بود۔

اس موقع پربیک وقت دولطیفوں نے دم ہلانا شروع کردی ہے اب انھیں بھی "ان وژن" نہیں کر سکتے۔ پہلالطیفہ تو جوں کا توں ہے، ایک شخص نے جوتے خریدے جوکچھ تنگ تھے چنانچہ پاؤں زخمی ہوگئے اورجوتا اتارکرہاتھ میں لیے اورلنگڑاتے ہوئے چلنے لگا۔ ایک خواہ مخواہ شخص نے پوچھا۔ اس نے جوتوں کی بات کی اور خاموش ہو گیا، لیکن خواہ مخواہ تو پورا اخباری نمایندہ تھا۔ پوچھنے میں لگا رہا، جوتے کتنے میں خریدے، کہاں سے خریدے، کب خریدے، جوتوں والایوں بھی جلاہواتھا، طیش میں آکر بولا، ایک درخت سے توڑے ہیں اس پروہ دوسرابولا۔ کچے توڑے، کچھ دن رک کر توڑتے تو اچھاتھا۔

لیکن اس سے ہرگزیہ مطلب مت نکالیے گا۔ کہ "ضم" اضلاع میں حکومت نے جوباغ لگائے ہیں ان کے ثمرات بھی کچے توڑے گئے ہوں گے۔ بے شک حکومت کواپنے وژن کے ثمرات بازارمیں لانے کی جلدی ہے لیکن اس کے ساتھ "وژن" بھی تو ہے۔

میرے اوپر اسی کا سایہ ہے

جس کے قدموں میں سرجھکایا ہے

دوسرا لطیفہ ایک پرانی پاکستانی پنجابی فلم کاہے، اس میں دو کیریکٹر تجارت کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، ایک کے پاس پانچ روپے ہیں اوردوسرے کے پاس چونی ہے لیکن پھربھی برابرکی پارٹنرشپ کرلیتے ہیں، پانچ روپے کے امرسے خریدکر ایک تھال میں رکھ لیتے ہیں اوربازارمیں بیٹھ کر امرسے لے لو، امرسے لے لو، کی آوازیں لگانے لگتے ہیں۔

کافی دیرتک کوئی گاہک نہیں آتا توجس کے پاس چونی بچی ہوئی تھی وہ دوسرے سے کہتاہے یارکوئی گاہک توآنہیں رہاہے چلومیں ہی "بونی"کردیتا ہوں، یہ لواس چونی کے امرسے دے دو۔ دوسرارومال سے ڈھکے ہوئے تھال میں سے چارآنے کے امرسے نکال کردے دیتاہے اورچونی لے لیتاہے، دوسرا امرسے کھاتاجاتا ہے اورتعریف بھی کرتاجاتاہے، دوسرے شریک کارکے منہ میں بھی پانی بھر آتاہے وہ چونی اٹھاکردوسرے کو دیتا ہے کہ یارمجھے بھی چونی کے امرسے دے دو۔

اس طرح باری باری وہ اس ایک چونی کے امرسے ایک دوسرے کودینے لگتے ہیں، کافی دیربعد ایک گاہک آکر امرسے مانگتاہے، یہ رومال کے نیچے ٹٹولتے ہیں لیکن ایک بھی امرسہ نہیں بچاہوتا، سارے وہ ایک دوسرے کو فروخت کرچکے ہوتے ہیں اورکمائی میں وہی ایک چونی موجود ہوتی ہے۔ لیکن یہ تو محض ہم نے یونہی ایک لطیفہ سنادیاہے ہمیں یقین ہے کہ وژن کے باغوں سے جوثمرات آرہے ہیں۔

ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ آخر امانت، دیانت، صداقت اوروژن بھی کوئی چیزہے، ہاں تھوڑاسا لفظ "انصاف" کے اصلی معانی سے ڈرلگتاہے لیکن خیرخیرکیجیے اورخدا سے بہتری کی امید رکھئے، ہوسکتاہے بہت جلد یہ جو ثمرات آنے لگے ہیں، مارکیٹ میں بھی دستیاب ہوجائیں۔ پیوستہ رہ شجرسے امید بہار رکھ۔ رحمان بابا نے بھی کہا ہے کہ اگر قسمت تجھے"بلا" کے "منہ" میں بھی دے دے تو بلا کے منہ میں خیرمانگو۔ ویسے ہم اس کے علاوہ اورکربھی کیاسکتے ہیں؟ ثمرات زندہ باد، کریٹ پایندہ باد اور وژن آیندہ باد۔ گڑ۔ گڑ۔ گڑ… بولا کرو۔ منہ میٹھا ہوجائے گا۔