جرمن زبان کے سواستیکا میں نقطے نہیں ہیں۔ ہمارے علاقوں میں پرانے مٹی کے مکانوں میں ایک مخصوص نشان مٹی کی مروڑیوں سے اکثربنایاجاتا تھا۔ سطان محمد صابرنے اپنی کتاب "قدیم پشتون قبائل" میں لکھا ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اس کے پیٹ پریہ نشان "نیل" سے بنایاجاتا ہے۔
اس سواستیکا میں جو تھوڑا سا اختلاف ہے، وہ دراصل آریاؤں اوراساکوں کااختلاف ہے، دونوں ہی وروس کی اولاد اوراصل جانشین ہونے کے دعویدار ہیں، اس لیے ایک دوسرے کے دشمن بھی ہیں، وہی پشتونوں میں "تربور" اورپنجاب میں "شریکے "کا سا معاملہ ہے۔
اس "سواستیکا" کابنیادی مادہ "سو" اور"است"ہے، اس سے مجموعی طورپرلفظ سوست یا سواست بنتاہے جس کامطلب ہے اچھا، درست، صحیح، صحت مند یابہتر۔ چنانچہ سنسکرت اورہندی میں "سوست"کامطلب تندرست یا صحت مند ہے۔ بھارت میں یہ لفظ آج بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے، محکمہ صحت کو "سوست" منترالے کہاجاتاہے اور اسی سوست سے "سواد" سورگ، سوئم جیسے الفاظ بھی بنتے ہیں۔
"سواستیکا"کا یہ مادہ سواستو(سوات کاپرانا نام)میں ہے بلکہ اسی سے لیاگیاہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سب کے اجداد "ورو" یا "وروس"کا، جمشیدکے نئے وارے سے پہلے پرانا اورمشترکہ وارہ کہاں تھا، اس کے لیے میں انگریز عالم سربرانڈن اسٹائن کی کتاب"وروس" کاذکرکروں گا، اس نے ہند یورپی زبان کے قدیم الفاظ یعنی لسانی معدومیات کی بنیاد پرلکھا ہے کہ وروس لوگ پہلے پہل ایک ایسے خطے میں مقیم تھے۔
جہاں جنگل نہیں لیکن درختوں کے جھنڈ تھے، وہ دیوداردار، شاہ بلوط اورایک گونددار درخت کو جانتے تھے، جانوروں میں بھیڑ، بکری اورگائے سے واقف تھے، باقی کے جانوروں اورپرندوں کو نہیں
جانتے تھے، گھروں میں کتے، بلی اور چوہے سے واقف تھے، یہ ساری نشانیاں کسی ایسے سرد علاقے کی ہیں جو کم ازکم چھ سے آٹھ ہزارفٹ کی بلندی پرہو۔ سوست، سورگ، سواستیکا، سواستو ہے تو ہمیں کچھ کچھ اس خطے کااندازہ ہوجاتاہے۔ اندر کا "سورگ" بھی سفید براق یا یوں کہیے کہ برف کابنا ہوا ہے جیسے اسپرائیں ناچتی، گاتی ہیں، الپسرکامطلب ہے پانی جیسے سرائے، یہ سب چشموں، دریاؤں اورآبشاروں کے استعارے ہیں۔
اب ہم چترال سے شروع کرتے ہیں، چترالی کبھی اپنے آپ کوچترالی نہیں کہتے بلکہ "کھوار" کہتے ہیں اوراپنی زبان کو بھی "کوہ وار" کھوارمیں "وار" کا مادہ ظاہرہے، اس کے آگے، بروشولوگ اوربروشکی زبان ہے۔ ب، کا و، میں بدلنا عام ہے اس بروشو، وروشواور بروشکی اوروروشکی۔ ورو کالفظ بروکی شکل میں اوویستا میں ایک بڑی جھیل "ورو" کاشا، کاذکر ہے جو اونچے پہاڑوں میں تھی۔"ورو" کاشا، کاش، کش، کس کوہ سیندوکس یا ہندوکش مطلب یہ کہ کش، کاش یا ہندوکش ہی وہ "وارہ" تھا جہاں ورو رہتے تھے اورپھر کثرت آبادی اورقلت خوراک نے ان کو خروج پر مجبورکردیا۔
زرتشت اورآہورمزدا کے مکالمے میں باقی تو سب کچھ اساطیری ہے لیکن کثرت آبادی، قلت خوراک اوریہاں سے ان کاخروج اورہجرت حقیقی ہے جس کی تصدیق طبیعات ارضیات اوربشریات کے علوم بھی کرتے ہیں کہ جب یہ پہاڑی سلسلے اتنے اونچے نہ تھے تو یہ خود بھی وافرخوراک اورسرسبزی کی وجہ سے جنت کانمونہ تھے اوراس کے پیچھے وسطی ایشیا میں بھی جنگل اورچراگاہیں تھیں لیکن پھر چوٹیاں بلند ہوکر برفستانوں میں بدل گئیں اورپیچھے وسطی ایشیا بھی سمندری مرطوب ہواؤں اوربارشوں سے بنجر ہوکر ریگستانوں میں بدل گیا اوریہاں سے ایک ایک ہزار کے وقفے سے انسانوں کے خروج نکل کردنیا میں پھیلنے لگے۔
فلپ نے تاریخ شام میں ایسے پانچ خروجوں کا ذکر کیاہے جن میں چنگیزی منگولوں کی یلغار پانچویں اورآخری تھی جسے تقریباً اتنا ہی عرصہ ہوچلاہے جو خروجوں کے درمیان رہا ہے اورشاید چھٹا خروج بھی چینیوں کی شکل میں شروع ہوچکاہے۔ کل ملاکر اس ساری بحث کاخلاصہ یہ ہوا کہ وہ "وارہ" جہاں "ورو" یا وروس رہتے تھے، یہی سلسلہ کوہ اوراس کی وادیاں ہیں۔ لفظ وارہ ہی بعد میں ہر، غر، گر، بمعنی پہاڑ اور گھر بستی کے پھیلا ہوا ہے جب کہ عربی میں جا کر یہ قر، قرار، اورقریہ بن گیاہے۔
اسی وہارہ سے ورہا، برہا، برہم، برھمک اور برمک کے الفاظ بنے ہیں جو آتش کدے کے متولی کا لقب تھا۔ بغداد کے عباسی عہد کے تین مشہوروزیر "برمک" خاندان سے تھے، خالد برمکی، یحیٰ برمکی اورفضل برمکی، ان پر عتاب بھی اس وجہ سے نازل ہوا کہ حاسدوں نے ان کے خلاف مہم چلائی کہ یہ لوگ اب بھی درپردہ اپنے پرانے "برمکی"عقائد پر قائم ہیں، کچھ سچ یا جھوٹ، برمکی دین کی نشانیاں بھی ان کے گھر سے برآمد ہوئی تھیں۔