ہم بڑے بڑے بین الاقوامی معاملات کے بارے میں توکچھ بھی نہیں جانتے کیوں کہ بقول کے ڈی بھاتک۔۔ جو ہوتاہے وہ دکھتا نہیں اورجو دکھتاہے وہ ہوتا نہیں اوراتنے بڑے دانشورہم ہیں نہیں کہ ہونے اورنہ ہونے یادکھنے نہ دکھنے والے معاملات کو سمجھ سکیں البتہ چھوٹی چھوٹی کھیت کلیانوں اورگلی کوچوں کے بارے میں اچھی خاصی جانکاری رکھتے ہیں چنانچہ بڑے معاملات کو بھی چھوٹا کرکے اپنی سطح پر لے آتے ہیں اب مثال کے طورپر افغانستان، طالبان اوراس سلسلے میں پریشان وحیران بہت سارے"ستان"آج کل بیسٹ سیلرموضوعات ہیں۔
لیکن ہم اسے بھی ویسی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسی ہماری نگاہ ہے، افغانستان میں کیاکچھ ہوا، ہوتارہا، ہورہاہے اورہوتارہے گا یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن اپنی دھقانی یاکاشتکارانہ بصیرت وبصارت کی بنیاد پر ہم اتنا جانتے ہیں کہ افغانستان وہ بدنصیب ملک ہے جہاں ہمیشہ موسم اورآب وہوا کے خلاف کاشت ہوتی رہی ہے، امان اللہ خان یورپ سے لوٹا تو اس نے افغانستان کو بھی ایک دم سے یورپ اور اٹلی بناناچاہا، ظاہرہے کہ کسی اورملک یاآب وہواکاپودا کسی مختلف مٹی میں یاآب وہوا میں لگایاجائے تو یہ ہرگزممکن نہیں ہے۔
امان اللہ خان کے بعد کمیونسٹوں نے انگلینڈ کے لیے وضع کردہ کارل مارکس کانظام افغانستان کے ملائی اورقبائلی آب وہوا میں لگانا چاہا۔ نہیں ہوا۔ امریکا نے بھی جو کچھ لگانا چاہالگالیا۔ اور اب۔۔ اب کے بارے میں ہم صرف ایک کہانی بلکہ بچپن کاایک حقیقی واقعہ آپ کو سناناچاہتے ہیں۔ ہم اپنے گاؤں کی پرائمری اسکول میں تیسری چوتھی کے طالب علم تھے کہ علاقے میں ایک بہت بڑا اورتباہ کن حملہ "ٹڈی دل "کاہوا اورجو موجودہ فصلیں یاسبزہ تھا اسے چٹ کرنے کے بعد ٹڈی دل غائب ہوگیا۔ لوگوں نے اطمینان کی سانس لی کہ رسیدہ بود بلائے ولے بخیرگزشت۔
لیکن کہاں؟ بھلا کبھی کوئی "بلا"بھی بخیر، گزشت ہوئی ہے آپ اپنے پاکستان کودیکھے گزشتہ ستر اکہترسال میں ایسی کوئی "بلا"اس ملک پر نازل ہوئی ہے جو بخیرگزشت ہوئی ہو؟
اپنے ہونے کاثبوت اورنشاں چھوڑتی ہے
راستہ کوئی "ندی "ایسے کہاں چھوڑتی ہے
کچھ دن بعد پتہ چلا کہ وہ کم بخت"ٹڈیاں " زمین کے اندر اپنے انڈے چھوڑ گئی ہیں سارے لوگ ان انڈوں کی تلاش اورتلف کے لیے نکلے ہم اسکول والوں کو بھی کھرپیاں دے کر لگایاگیا ہم زمین میں ایک خاص قسم کاسوراخ ڈھونڈکرجب کھودتے تھے تو نیچے گندم کے سٹے کی طرح انڈوں کاایک گھچامل جاتا، ان انڈوں کو کھود کر ہم اسکول لاتے تھے اوراستاد کی نگرانی میں انھیں دھوپ میں رکھ دیاجاتاتاکہ مرجائیں، کئی روزتک یہ سلسلہ چلتارہالیکن کم بخت ٹڈیوں نے ہرجگہ اپنی دم گھسا کر انڈوں کاگھچا چھوڑاتھا بہت سارے انڈے تلف بھی کردیے گئے لیکن پھراچانک ان انڈوں سے بچے نکلنے لگے جو کالے کالے تقریباً چیونٹیوں سے ذرا بڑے ہوتے تھے۔
اس کے لیے گاؤں کے لوگوں نے یہ تدبیرکی کہ بڑوں کے جوڑے ایک خاص قسم کے بیلچے سے نالے کھودتے تھے اورہم بچے درختوں کی ٹہنیاں لے کر ان بچوں کو اس گڑھے کی طرف پھینک کر گرادیتے جن کے اوپرجلدی سے مٹی ڈال دی جاتی تھی اس طرح گاؤں والوں کی خوش تدبیری اورخاص طورپرہمارے استاد فضل الہیٰ کی ذہانت سے ٹڈی دل کی اگلی نسل پیدا نہیں ہوئی لیکن ہرجگہ تو نہ ایسے خوش تدبیرلوگ ہوتے ہیں اورنہ باہمت عوام، جو گزری ہوئی ٹڈی دلوں "کے انڈے بچے" تلف کردیں اورپھر افغانستان کی سرزمین توویسے بھی قحط الرجال کاشکار ہوچکی ہے۔
وہاں اب صرف لیڈر، سربراہ، سردار، مجاہد اورکمانڈرپیدا ہوتے ہیں عام آدمی بڑی مشکل سے پیداہوتاہے اوراگر ہو بھی جائے تو زندہ کیسے رہ پائے گا، اس لیے کون ڈھونڈے کہ ٹڈیوں نے کہاں کہاں، کتنے کتنے اورکیسے کیسے انڈے بچے دیتے ہیں،
ہمارا ناقص اورغیردانشورانہ دہقانی خیال تویہ کہہ رہاہے کہ افغانستان کو اب ٹڈیوں کی دوسری نسل کاانتظار کرناپڑیگا جو شاید پہلے والے ٹڈی دلوں سے بھی زیادہ تباہ کن ہوکیوں کہ انڈے سارے"دل "دے چکے ہیں۔