جونک سرخ اور سیاہ رنگ کا غیر فقاری جانور یا پانی کا کیڑا ہے جو بدن سے چمٹ کر انسانوں اور دوسرے جانوروں کا خون چوستا ہے۔ جونک پانی یا دلدل میں رہتی ہے اور خون چوسنے میں مشہور ہے۔ عربی زبان کا لفظ علق جو علقہ کی جمع ہے، کے معنی جونک کے ہی ہیں۔ جونکوں کی بے شمار اقسام دنیا کے ہر خطے، ہر نسل اور ہر رنگ میں موجود ہوتی ہیں۔
"طبی جونک" کی تو کئی ممالک میں علاج میں استفادہ کے لیے باقاعدہ پرورش کی جاتی ہے۔ طبی جونک کا اصطلاحی نام "ہیروڈا میڈیسنلیس" (Hiruda medicinalis) ہے۔ اس جونک کا جبڑا سہ طرفہ ہوتا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے تیز دانت ہوتے ہیں۔ سرینگر کے علاقے حضرت بل میں ڈل جھیل کے کنارے نوروز کے موقع پر لوگوں کا ہجوم جونک تھیراپی، کے لیے جمع ہوتا ہے۔
ویسے تو سال بھر روایتی سنیاسی اسے انجام دیتے ہیں لیکن لوگوں کا ماننا ہے کہ نوروز پر جونکیں لگوانا زیادہ شفایاب ہوتا ہے۔ جونکیں عام طور پر جسم کے کسی بھی حصے سے فاسد خون یا پھوڑے پھنسیوں اور زخموں سے غلیظ مواد نکالنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس عمل میں خاصی احتیاط اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدیم جرمن زبان میں لاہی کے معانی ہی فزیشن کے ہیں۔
جونک جوں جوں خون پیتی ہے، اس کا بدن پھولتا جاتا ہے اور سیر ہوتے ہی وہ جلد سے علیحدہ ہو کر گر جاتی ہے۔ جونک اپنے جسم کی ساخت سے پانچ گنا زیادہ خون اپنے "پوٹے" میں ذخیرہ کر سکتی ہے۔ جونک سیر ہو کر خون پی لے تو اسے چھ ماہ تک دوبارہ غذا کی حاجت محسوس نہیں ہوتی۔ جنگل کے جانوروں کا بھی یہ ہی دستور ہے کہ پیٹ بھر جائے تو وہ شکار نہیں کرتے۔ شاید ان کا پیٹ "پاپی" نہیں ہوتا۔ یہ تو انسان ہے جو اپنے "پاپی پیٹ" کی مالا جاپتے جاپتے کتنے ہی کارندوں کو پاپ کی گھٹریاں تھمائے جاتا ہے اور خود ہی جوتے پہن کر شیر کے پنجرے میں کود پڑتا ہے۔ اس طرح کمیٹی سازوں کی جے جے کار ہو جاتی ہے۔ ہمارے پاپی پیٹ جونک سے بڑھ کر ہیں اور اس قدر پھول جاتے ہیں کہ اپنوں کو گلے گلانا بھی مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
زمینی یعنی معاشرتی جونکوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ ان کے پاس دانتوں کے بجائے کینہ پرور دل اور زہریلا دماغ ہوتا ہے۔ جس کی بدبو اور زہر سے یہ آس پاس کے لوگوں کا خون چوستی ہیں۔ ایسی جونکیں اچانک ہی کسی روپ یا رشتے کی صورت نمودار ہو سکتی ہیں۔ انھیں روایتی طریق علاج و اقدار سے واقفیت ہے نہ ہی وہ خود پر روایات و اقدار کا احترام واجب سمجھتی ہیں۔ اس لیے یہ کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی خون پینے لگ جاتی ہیں۔
2014، واشنگٹن میں لبنانی ڈاکٹر فاٹا کو 45 سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ اسے 2013 میں ایسے مریضوں کو کیموتھراپی تجویز کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جو صحت مند تھے یا جن کی حالت کیموتھراپی کی ضمانت نہیں دیتی تھی، اس نے کم از کم چھ سال کی مدت میں میڈیکیئر اور نجی ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کو 34 ملین ڈالر دھوکہ دہی کے الزامات میں جمع کرائے تھے۔ شاید یہ انشورنس کمپنیاں ڈاکٹر فاٹا کا "پوٹا" ہوں۔
ویسے اتنے پیسے تو ہمارے ہاں پیر صاحبان پھونکوں اور زور زور سے سر ہلانے سے یا پھر ایک ایک دھپا مارنے سے ہی جمع کر لیتے ہیں۔ ایسی جونکوں کے "پوٹے" کہاں ہیں۔ یہ تحقیق ابھی جاری ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ زمینی جونکیں زیادہ موذی ہوتی ہیں۔ جسم سے چمٹنے اور خون چوسنے کے عمل میں شکار کو اکثر پتا ہی نہیں چلتا کہ کوئی اس کا خون پی رہا ہے۔
ہمارے ہاں یہ جونکیں ہر جگہ موجود ہیں۔ گھروں میں، خاندانوں میں، بالاخانوں پر، شبستانوں میں، ایوانوں میں کہاں کہاں موجود نہیں۔ یہ جونکیں ہر جگہ قائم مقام ہیں۔ انہیں تھیلے میں بند کر لانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ناصرف خون چوستی ہیں بلکہ نظام تنفس ہی کھا جاتی ہیں۔ محکمے تو ہمیشہ ان جونکوں سے بھرے رہتے ہیں لیکن خاندانوں میں پلنے والے یہ کیڑے کسی کو نظر نہیں آتے۔ ایسی جونکوں کا کیا کرے کوئی؟ جو سالوں اپنے خاندان کے بیٹا یا بیٹی کی پسند کی شادی پر بھوک رکھے ڈنک مارنے کے لیے تیار رہتی ہیں اور ہنستے مسکراتے خاندان کا لہو پی جاتی ہیں۔
ماں باپ اپنی لڑائی میں جونک بن کر اپنے ہی بچوں کا خون پیتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے فاتحانہ نظروں سے سوال کرتے ہیں کہ کون جیتا؟ آفیشل جونکیں اپنے جونیئرز کا خون پی کر فائلز کو پوتر کرتی ہیں۔ ایجوکیشنل جونکیں اپنے شاگردان کا لہو پی کرمقالے پہنتی ہیں۔ سیاسی جونکیں ہر سیاسی گروپ کے ذریعے اپنا "پوٹا" گرماتی ہیں۔ مذہبی ریاکار جونکیں نعرہ تکبیر پڑھ کر حرام و حلال کی وجہ امتیاز کے مابین لکیر پر لہو چھڑکتی ہیں۔
جونکوں کی بعض اقسام اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی، غذا دیتی اور ان کی حفاظت کرتی ہیں۔ لیکن انسانی جونکیں رشتوں، پسند ناپسند اور خاندانی روایات کے نام پر لہو سے بھیگ کر بھی خشک نظر آتی ہیں۔ کہتے ہیں اگر جونک کاٹ لے، تو اس حصہ بدن کو جراثیم کش دوا سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ جلد سے جونک ہٹانے کے لیے اس پر نمک چھڑکا جا سکتا کیونکہ جونک کیچوے سے ملتی ہے اور کیچوے کی طرح نمک اسے بھی گھلا دیتا ہے۔ آگ سے بھی یہ دور بھاگتی ہے۔ پانی میں چوناملا کر ڈالنے سے بھی وہ پیچھا چھوڑ دیتی ہے۔ لیکن معاشرتی جونکوں پر کوئی دھونی اثر نہیں کرتی۔
ان جونکوں کے ڈالے زخم بگڑ کر بہت سے معاشرتی متعدی امراض کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے استفراغ کا کوئی علاج نہیں۔ طبی جونک کے آری جیسے تین جبڑے اور ایک سو دانتوں سے طریق علاج مدد لی جاتی ہے۔ لیکن بتیس دانتوں کی کاٹ پر یہ سوال باقی ہے کہ "کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں" اور جواب میں ہر بار زبان سے نکلتا ہے کہ "فیر ناں ہی سمجھیے" ان معاشرتی جونکوں کا علاج کون کرے۔ جن کو مرہم سے آگ لگتی ہو۔