ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے وہی رویہ ہے جو چوہدرانی کا اپنی نمانی بہو سے تھا۔ یعنی کہ آٹا گن دی ہلدی کیوں اے۔ یہ گائوں کے ایک تگڑے زمیندار کا گھر تھا۔ چوہدرانی بڑے ٹھسے دار تھی، سات بیٹوں کی ماں کا فخر و غرور اس کی بدن بولی سے لے کر اس کے لب و لہجے کے تیوروں میں رچا بسا تھا۔ چھ بیٹوں کی شادیاں آس پڑوس کے تگڑے زمیندار گھرانوں میں کیں اپنی پسند کی چاند کی رات جیسی بہوویں لے کر آئی، ٹرکوں کے ٹرک جہیز ملا۔ اس پر ہر بیٹے کے سسرال کی طرف سے دیہاتی رسم و رواج کے مطابق چوہدرانی کو سونے کی ٹومبیں پہنائی گئیں۔
تگڑے گھرانوں کی چھ بہوئوں کی عزت، سخت گیر چوہدرانی کو بھی کرنی پڑ گئی۔ ان سے بات کرتے ہوئے لب و لہجے کے تیور ڈھیلے پڑنے لگے۔ چوہدرانی کا ساتواں پتر ماں باپ کی ریت و رواجوں کا باغی نکلا۔ گائوں کے غریب گھرانے کی سنہرے رنگ روپ والی لڑکی پر دل آ گیا بس ٹھان لی کہ اسے ہی بیاہ کر لائوں گا۔ چوہدرانی غصے سے غرائی، ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیراں نوں جھپے؟ ایک سے ایک اونچے تگڑے گھر کی بہو لانے والی گائوں کے کمی کی بیٹی کو کیسے قبول کرتی۔ لیکن اڑی لگانے والا بھی آخر چوہدرانی کا پتر تھا۔ لڑکی بیاہ کر لے تو آیا۔ اب وہ گھر کی سب سے نمانی بہو تھی۔ چوہدرانی کی آنکھوں میں کیسے جچتی۔
نہ جہیز کے ٹرک، نہ سونے کی ٹوبیں (دیہاتوں میں ٹھیٹھ پنجابی میں کانوں کے جھمکوں کو کہتے ہیں) بس اب وہ ساس کو ہر بات میں کھٹکتی تھی۔ سنا تھا اس کا کمزور باپ چوہدری کا مقروض بھی تھا، سو مقروض باپ کی بیٹی آٹھوں پہر چوہدرانی کے زہریلے طعنوں کی زد میں رہتی۔ آئے روز چوہدرانی اس پر پابندیوں اور مطالبات کے نئے بوجھ ڈالتی۔ وہ نمانی ان شرطوں پر پورا اترنے کی کوشش میں جت جاتی۔ چولہے چونکے سے لے کر احاطے میں ڈھور ڈنگر سنبھالنے میں ہلکان ہو جاتی مگر مجال ہے کہ چوہدرانی کے متھے پہ پڑے وٹ ڈھیلے پڑ جائیں۔ تگڑے گھروں کی چھ بہوئوں کے سامنے پانی بن کر بہنے والی چوہدرانی مقروض باپ کی نمانی دھی کے سامنے چٹان بن جاتی۔ نمانی بہو اپنی ٹھسے دار ساس کے سامنے اچھی بنتے بنتے پھاوی ہو جاتی مگر چوہدرانی کا اعتراض اپنی جگہ برقرار رہتا تھا۔ جی سیون ملکوں کی ایسوسی ایشن فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا پاکستان سے معاندانہ رویہ بھی ایک جملے میں یہی ہے کہ آٹا گن دی ہلدی کیوں اے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام برقرار رکھ کر پاکستان کو مزید دبائو میں رکھا گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے گائوں کا چودھری اپنے کسی مقروض کمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتا چلا جائے اور وہ مقروض ذلت کے سارے تھپیڑے کھا کر بائی ڈیفالٹ یہ صدائیں لاتا رہے چوہدری صاحب دیاں ستے خیراں بھاگ لگے رہن۔
کار حکومت پر سوال اٹھانا، لکھاری کا شیوہ ہے اہل اقتدار کی تعریفوں کے پل باندھنے کی طرف طبیعت نہیں جاتی یقینی طور پر اچھے کام ہو رہے ہیں مگر صحافی کا قلم محروم طبقے کے حقوق کے لئے اٹھتا رہے، تو بہتر ہے اسی لئے میرے کالموں کا لہجہ اہل اختیار اور اہل اقتدار کے لئے ہمیشہ تلخ ہوتا ہے اور اس تلخ نوائی کے پیچھے بس ایک درد کا رشتہ ہے، جو ہم غریب شہر اور شہر کے عام آدمی سے استوار رکھتے ہیں۔ حکومتوں کے بدلتے ہوئے موسموں کا اس پر چنداں اثر نہیں پڑتا۔ یہ جملہ معترضہ اس لئے آیا کہ اپنے وزیر اعظم کے جرات انکار کی تعریف مقصود ہے۔ HBOٹی وی چینل کے صحافی جوناتھن سوان نے جب پوچھا کہ آپ امریکہ کو پاکستان کی سرزمین اپنے ہوائی آپریشن کے لئے استعمال کرنے دیں گے، تو وزیر اعظم عمران خان نے جرات اظہار سے کام لے کر کہا Absolutely notعالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں جکڑا ہوا غریب ملک پاکستان کے وزیر اعظم سے شاید اتنے سخت اور صاف جواب کی توقع نہ تھی۔ نہیں معلوم بعد میں کیا ہو گا؟ لیکن سردست وزیر اعظم نے پاکستانی قوم کے مجروح وقار کو عالمی منظر نامے پر سربلند ضرور کیا ہے۔ عالمی آقائوں کی ناراضگی بجا ہے۔ ہم عالمی طاقتوں سے قرض لے کر مئے پینے والوں میں سے ہیں، کشکول ہاتھ میں پکڑے ہوئے آقا اور غلام کا تعلق نبھا رہے ہیں۔ امریکہ کو ہوائی اڈے دینے سے انکار کر کے عالمی طاقت کو حیرت کا جو جھٹکا لگایا، ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھ کر اسی جھٹکے کا ہلکا سا جواب دیا ہے۔ گرے لسٹ میں پاکستان کے شامل رہنے کا عالمی سطح پر سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ دنیا پاکستان کو ایک ایسے ملک کی نظر سے دیکھتی رہے گی، جہاں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔ یعنی ایک دہشت گرد ملک اس سے ہماری ایکسپورٹ کم ہوں گی، عالمی ادارے پاکستان کو قرض دینے میں تامل کریں گے کیونکہ گرے لسٹ میں ہونے کا مطلب دنیا یہی لے گی کہ پاکستان میں آنے والا پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہو سکتا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی عائد کردہ 27شرائط میں سے پاکستان 26شرطیں پوری کر چکا ہے مگر اس کے باوجود عالمی آقائوں کی نگاہ میں معتبر نہیں ہو سکا۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو نیا شرائط نامہ تھما دیا ہے کہ اس کے دو بنیادی نکتے ہیں کہ منی لانڈرنگ پر قابو پانا اور اقدامات کرنے اور ثبوت پیش کرنے، کہ پاکستان ٹیررز ازم فنانسنگ میں ملوث نہیں ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی 27شرطوں میں سے 26شرطیں مان کر بھی پاکستان ان کی نظر میں دہشتگردی کو پرموٹ اور فنانس کرنیوالا ملک ٹھہرتا ہے، اس کے برعکس بھارت سے ایف اے ٹی ایف کا رویہ بالکل مختلف ہے، پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارتی سرکار نے لاکھوں کشمیریوں کو وادی میں محصور کر رکھا ہے، ان کی جان و مال اور عزت کو پامال کرنے والی خود بھارتی سرکار ہے، بھارتی سرکار کی سرپرستی میں بدترین دہشتگردی کی ایسی مثال اور کوئی دکھائی نہیں دیتی۔ مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت اور دہشت گردی کے باوجود بھارت کو 2006ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اوبزرور (Observer)بنایا گیا اور اس وقت بھارت 39ملکوں میں سے ایک ہے جو ایف اے ٹی ایف کے ممبر ہیں واہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس تیرے اصول۔ بھارت جیسے عالمی دہشت گرد کو سات خون معاف کر کے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا اور پاکستان کی پیٹھ پر ڈومور کا ہتھوڑا مار کر اس سے غصیلی ساس کا سا معاندانہ رویہ دکھا کر آٹا گن دی ہلدی کیوں اے!