ہر وقت حکومت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے رہنا شریفوں کا شیوا نہیں ہے آخر وہ بھی بے چارے انسان ہیں اور انسان سے غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ ویسے بھی مثبت سوچ کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کو ہر مسئلے میں سے ایک امکان کی خوشخبری سنائی دی اور آپ بلاوجہ جلنے کڑھنے اور حکومت کو کوسنے دینے کے انتہائی منفی عمل سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اس طرح آپ کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلے تو آپ کا بلڈ پریشر کنٹرول میں رہے گا۔ آپ کے چہرے پر ہمہ وقت کے کڑھنے اور مسلسل حالات پر پریشان رہنے سے جو نہایت باریک باریک جھریاں نمودار ہو کر آپ کی اصل عمر کے راز کو افشا کر رہی ہیں وہ بھی قابو میں آ جائیں گی۔ ویسے بھی کسی پاگل نے آپ کو مشورہ دیا ہے کہ آپ قوم کے درد میں کڑھیں اور اپنا خون جلائیں یہ آپ کی قنوطیت پسندی ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو حکومت وقت کے عوام دوست انقلابی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔
حکومت تو دن رات عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ یہ پریس کانفرنسوں پر پریس کانفرنسیں عوام سے خطابات لمبی لمبی میڈیا بریفنگز غور سے سنا کریں کہ کتنے انقلابی اقدامات کے دعوے عوام سے کئے جا رہے ہیں۔ سراسر قصور آپ کا ہے کہ آپ ان وعدوں کے ہجوم ناشناساں میں "عمل" کا کوئی دوست چہرہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ سراسر آپ کی جلد باز طبیعت کا قصور ہے۔ کبھی ہتھیلی پر بھی سرسوں جمائی جاتی ہے۔ ہر کام پہلے خواب اور خیال کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد کہیں جا کر عملی صورت میں ڈھالا جاتا ہے۔ کیا کیا نہیں کیا حکومت نے عوام کی فلاح اور سہولت کی خاطر۔ آپ آپ خود دیکھیں کہ جونہی مارچ میں اس کم بخت کورونا وائرس کے حملے پاکستان میں بڑھنے لگے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش لگنے لگا۔ سفید کوٹ والے مسیحا سپاہیوں کی زندگیاں دائو پر لگنے لگی تو سرکار نے فوری طوور پر ایک انقلابی اعلان کیا کہ خطرے کے ماحول میں کام کرتے ہوئے تمام ہیلتھ پروفیشنلز کو ہر مہینے ان کی بنیادی تنخواہ کے مساوی اضافی تنخواہ ملے گی۔ واہ واہ کیا شاندار اعلان ہے دل خوش ہو گیا۔ اسے کہتے ہیں عوامی حکومت اور درد دل رکھنے والے حکمران ایسے ہوتے ہیں۔ یہی ہوا ہے نا کہ مارچ کے بعد چوتھا مہینہ چڑھے بھی کوئی پندرہ دن ہونے والے ہیں اور سرکار کا اعلان شدہ ہیلتھ رسک الائونس ابھی تک ہماری سفید کوٹوں والی آرمی کو نہیں ملا۔ تو بھئی اس میں ایسی جلدی بھی کیا ہے یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ اعلان کرو اور پھر فوراً عمل بھی کر ڈالو ایسا کہیں اور ہوتا ہو تو ہوتا بھئی۔ ہمارے یہاں کا دستور نہیں ہے نہ ہی کوئی ایسی روایت ہے ہم ٹھہرے روایت پسند لوگ۔ ابھی اس خوش اعلان سے جی بہلائیں کسی درد دل رکھنے والے حکومت ملی ہے کورونا وائرس کی جنگ میں اگلے محاذ پر کام کرنے والے ان ڈاکٹروں نرسوں اور پیرا میڈیکس کا کس قدر احساس ہے کہ پوری ایک بنیادی تنخواہ جتنا الائونس دینے کا وعدہ کر لیا اور ہاں اس پر آپ کی تنقید بلا جواز ہے کہ ڈاکٹروں کو کورونا ہو رہا ہے۔ ہمارا قیمتی اثاثہ خطرے میں ہے۔ تو بھئی کورونا تو سب کو ہو رہا ہے۔ ڈاکٹروں کو بھی ہو گا، ڈاکٹروں کو چاہیے کہ اپنے لئے حفاظتی کٹس اور N-95ماسک کا بندوبست خود کریں۔ حکومت کیا کیا کرے۔ امریکہ سے تعلقات بھی تو ہمیں بہتر بنانے ہیں، سو اگر پاکستان نے اپنی اوقات سے بڑھ کر امریکہ کو حفاظتی کٹس اور N-95ماسک کے تحائف بھجوائیں ہیں تو ہمیں سرکار کے اس عظیم الشان اور بروقت فیصلے پر داد کے ڈونگرے برسانے چاہئیں۔ واہ صاحب کیسی دور اندیش حکومت ملی ہے ہمیں کہ اندرونی محاذ پر تو کورونا کی جنگ نے غدر مچا رکھا ہے مگر اس پرآشوب دور میں بھی سرکار خارجہ محاذ پر مصروف عمل ہے۔ انسان دوستی کی عظیم الشان مثال قائم کرتے ہوئے امریکی ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس اور حفاظتی ماسک بھجوائے گئے اور اب یقینا امریکی ڈاکٹر صدا لگا رہے ہوں گے کہ پاکستانی سرکار کا اقبال بلند ہو۔ پاک امریکہ تعلقات یقینی طور پر اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
قنوطیت پسند، منفی سوچ رکھنے والے افراد جو کورونا ریلیف ٹائیگر فورس جیسے شاندار عوام دوست منصوبے پر تنقید کرتے ہیں کہ یہ ٹائیگر فورس کہیں دکھائی کیوں نہیں دیتی۔ ان کی خدمت میں ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جائیں جا کر برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف اٹھا کر پڑھیں۔ کس قدر تعریف ہو رہی ہے سرکار کے منصوبے کی اور جب "گورا" ہماری تعریف کر رہا ہے تو آپ کون ہوتے ہیں تنقید کرنے والے مگر آپ کی کھوپڑی میں یہ رمز آنے والے نہیں ہیں۔
لو اب ایک اور نقطہ اعتراض اٹھا کر لے آئے ہیں کہ بھئی فیصلوں میں تذبذب ہے۔ بروقت فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔ وزیر اعظم کا ویژن کہاں ہے؟ یہاں تو وزیروں مشیروں کی فوج اپنی اپنی ہانک رہی ہے تو ایسے تمام منفی سوچ والے افراد کو ہم کہیں گے کہ یہ تو بس اعتراض برائے اعتراض ہے اور آپ کو ہر شے میں سے کیڑے نکالنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم کا ویژن پورے ملک میں بکھرا پڑا ہے۔ آپ کو دکھائی نہیں دیتا تو اپنی نظر کا چشمہ بدلیں اور فیصلے دیر سے کیوں ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ بھئی اتنے درجن بھر وزیر مشیر ہیں تو ان کی سنتے اپنی سناتے۔ سمجھتے سمجھاتے آخر دیر تو لگتی ہے نا، وہ آپ نے ہماری ایک خوش رو وزیر مملکت کا بیان نہیں پڑھا جو فرماتی ہیں کہ فیصلے وزیر اعظم نہیں ہم سب مل کر کر رہے ہیں۔ تو بھئی اتنی دیر تو ہو ہی جاتی ہے کہ مارچ میں ڈاکٹروں کے لئے خطرہ الائونس کا اعلان ہو اور جون تک ملے اور شاید اگلے چھ مہینے بھی نہ ملے تو کیا آسمان سر پر اٹھالیں۔ آپ بھی نا۔ !بہت جلد باز واقع ہوئے ہیں۔ !