گیارہ برس پیشتر، ٹھیک آج ہی کے دن، اٹھائیس مئی 2011ء کو زندگی نے زندگی کو جنم دیا تھا۔ اور میں نے ایک نئی اقلیم محبت پر قدم دھرے تھے۔ یوں لگتا کہ یہ میرا بھی دوسرا جنم ہے۔ بظاہر میں اسے پروان چڑھا رہی تھی مگر درحقیقت، وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے میرے سالخوردہ وجود کو بے ترتیب کر کے، نئے سرے سے بنا رہا تھا۔ میرے اندر کی ساری ترتیب بدل چکی تھی۔ میرے خدوخال، وہی تھے وہی پرانا چہرہ مہرہ تھا۔
مگر اندر محبت کا نیا لینڈ اسکیپ ترتیب پا رہا تھا۔ اس لینڈ اسکیپ سے میں پہلے آشنا نہیں تھی۔ ماں ہونا محض ایک رشتے کا نام نہیں ہے۔ یہ محبت ایثار قربانی جذبات و احساسات کے سات جہانوں کا نام ہے۔ ان سات جہانوں کے اپنے آسمان اور اپنی زمینیں اس کی وسعت، گہرائی اور گیرائی کو لفظوں میں قید کرنا کہاں ممکن ہے۔
زندگی 360کے زاویہ پر مڑ چکی تھی۔ اخبار کی اسائنمنٹس ڈیڈ لائنز، لکھنا، پروف کرنا، کاپی ڈیزائنگ انٹرویوز، مشاعرے، تقریبات سب کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ اپنی ذات سے جڑی خواہشات اور خود غرض خوابوں سے نکل کر زندگی اب ایک ننھے وجود کے طواف میں گزرتی۔ میں ایک خود غرض، وجود سے سراپا ایثار ماں میں ڈھلی تو مجھے یقین آ گیا کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ وہی ہے جو ہر ماں کے دل کو اولاد کی محبت سے باندھ کر اسے اپنی ضرورتوں اپنی تھکن اور اپنی خواہشوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ تھکن اوڑھ کر راتوں کو جاگتی ہوئی ماں، پرسکون بچے کو سویا دیکھ کر کس طرح اپنی ساری تھکن بھول جاتی ہے۔
اپنی پیاری ماں سے میرا تعلق بہت جذباتی سا رہا ہے۔ مگر میں اس اصل بھیدوں سے وا قف نہیں تھی۔ یہ تو خود اس اقلیم محبت میں قدم رکھنے کے بعد کھلا کہ اس کی ہزار رنگ گہرائی کیا ہے اور یہ کہ ماں کی محبت بھید بھری ہوتی ہے اور یہ بھید خود اس پر بھی تمام عمر نہیں کھلتے۔ تاوقتیکہ کہ زندگی اس سے طلب کرے کہ اس مشکل کے مقابل اپنی محبت کا کوئی رنگ لے کر آئو۔ وہ ہر بار مامتا کے رنگوں کی کہکشاں سے نئے نئے منظر اٹھاکر لاتی ہے۔ بیٹے کی پہلی بیماری میں، میں نے مامتا کی اس شدت کو بے طرح محسوس کیا۔ جو خود میرے لئے حیران کن تھا اور اس حیرانی نے مجھے اپنے رب کے ساتھ زیادہ شدت اور زیادہ خالص پنے کے ساتھ جوڑ دیا۔
مسلسل دعائوں کی بکل اوڑھے بیمار بچے کے سرہانے بیٹھی ہوئی ماں، یوں لگتا تھا کہ دھیرے دھیرے گزرتی رات کی انگلیاں بھی میری انگلیوں میں پیوست، تسبیح کے دانے گراتی ہیں اور اس شفا دینے والے رب سے اپنے بچے کے لئے شفا طلب کرتی ہیں۔
محبت ایک نئے روپ میں مجھ پر منکشف ہو رہی تھی۔ راتوں کو جاگی ہوئی میں بیمار ہوں، مگر اپنی بیماری بھول کر بچے کی تکلیف اپنے اندر محسوس کرتی ہوں۔ ایک ماں محبت کی کتنی کائناتوں میں محو سفر رہتی ہے۔ یہ وہ جانتی ہے یا پھر رب جس نے اس کے روح کے برتن میں مامتا کی روشنی انڈیلی۔ پائوں پائوں چلتا ہوا بچہ گھر کی ہر شے کو بے ترتیب کرتا ہے اور ماں اس پر کیسے نہال ہوتی ہے۔
زندگی ان برسوں میں خوشی کے نئے جہانوں سے آشنا ہوتی، پہلا لفظ، پہلا قدم، پہلی ٹھوس غذا، سکول کا پہلا دن، پہلا بستہ، پہلا لنچ باکس!24اگست 2014ء دانیال کا پلے گروپ میں سکول کا پہلا دن تھا۔ باقی بچوں کے برعکس وہ پراعتماد تھا کہ بابا نے کئی روز سے اسے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے۔ صرف دو گھنٹوں کے بعد اسے لینے گئے تو پاری ممی پکارتا، روتا ہوا نکلا۔
اب پاری ممی کی یہ روزانہ کی ڈیوٹی تھی کہ سکول ٹائم کے وقت اور ہوم ٹائم سے پہلے۔ سکول کے اندر بینچ پر ہر صورت موجود ہونا ہے تاکہ ننھے طالب علم پر یہی تاثر قائم رہے کہ پاری ممی بھی میرے ساتھ ہی سکول میں موجود رہتی ہیں۔ ان دنوں میری شناخت صرف پلے گروپ مدر کی تھی۔ اور مجھے یہ نئی شناخت بہت اچھی لگی۔ اپنے بیٹے کے ہمراہ اب میں پھر پڑھنے لگی تھی۔ الف ب پ، اے بی سی، ایک دو تین۔ نقطوں پر لکھنا سیکھ رہی تھی۔ آڑھی ترچھی لائنیں لگا کر رنگ بھرتی ٹیبلز (پہاڑے) دہراتی اور بھولے ہوئے سبق یاد کرتی۔
اب زندگی اس کی مسکراہٹ سے جلا پاتی ہے۔ اس کے شرارتی قہقہوں میں خوشیوں کے ہزار ہا رنگ جگمگاتے ہیں:
زندگی کے اداس چہرے پر
اک شرارت بھری ہنسی ہے تو
اور اس کارگاہ وحشت میں
مری جاں میری زندگی ہے تو
کالم میں نے کسی اور موضوع پر ہی لکھنا تھا لیکن لکھنے بیٹھی تو الفاظ اور خیالات، بے ساختہ اور فطری بہائو کے ساتھ کاغذ پر اڑنے لگے۔
ہم لکھنے والے بہت کوشش کرتے ہیں تو اپنی تحریروں سے اپنی ذات کو باہر نہیں نکال سکتے۔ ایک ماں ہونا، احساسات اور جذبات کے رولر کوسٹرکی سواری سے کم نہیں۔ زندگی گزشتہ گیارہ برس سے اسی چاک پر گھوم رہی ہے۔ سوچ کا برتن ہر پل نئے وجود میں ڈھلتا ہے۔ زندگی تو ہے ہی میٹامورفورسس کا عمل۔ لاروے سے پیوپااور پھر رنگوں کا تھال لے کر اڑتی ہوئی تتلی۔ ماں ہونا مگر اس تبدیلی سے کئی گنا زیادہ شدت کی تبدیلی ہے۔ دسویں سالگرہ پر میری دعا ہے مرا شاہزادہ دس سو برس جئے۔ خالق اور اس کی کم وسیلہ مخلوق سے جڑا رہے۔ رحمت للعالمین کی سیرت سے روشنی پائے، درود پاک میں پناہ لے اور غم حسینؑ سے طاقت حاصل کر کے سچ اور خیر کے راستے پر چلتا رہے۔ آمین ثم آمین۔