نور مقدم کے انتہائی ہولناک قتل کی تفصیلات بہت الجھا دینے والی ہیں۔ اس سانحے کی فالو اپ خبروں میں ناقابل فہم حقائق منظرعام پر آ رہے ہیں۔ سب سے پہلے تویہ کہ نور جب اپنے گھر سے سے ظاہر کو ملنے کے لئے نکلتی ہے تو اس وقت اس کے والدین گھر پر نہیں ہوتے۔ دونوں عید الضحٰی کی تیاریو ں میں مصروف تھے۔
یہ بات ابتدائی ایف آئی آر میں نور کے والد شوکت مقدم نے بتائی کہ میں بکرا خریدنے گیا ہوا تھا اور میری بیوی درزی سے کپڑے لینے گئی جب ہماری بیٹی گھر سے نکلی۔ ان کی پیاری بیٹی انہیں صرف ایک ٹیکسٹ میسج کرتی ہے کہ میں لاہور جا رہی ہوں۔ حیرت کی بات ہے کہ دو دن کے بعد عید ہے اور گھر کی بیٹی اپنے والدین کو ٹیکسٹ میسج کرکے نکل رہی ہے کہ وہ اپنے دوست سے ملنے جا رہی ہے۔
ہمارے معاشرتی سیٹ اپ میں یہ ایک بالکل انہونی سی بات لگتی ہے۔ عید کے موقع پردور دراز سے مکین گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور ایک بیٹی اپنے گھر سے جارہی ہے، یہ کہتے کہ میں اپنے دوست سے ملنے جا رہی ہوں۔ وہ ظاہر کے بلانے پر اس کے پاس جاتی ہے، اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ والدین مطمئن ہوتے ہیں کہ بیٹی عید سے ایک دن پہلے چلی گئی ہے۔ انہیں ا س وقت تشویش ہو نا شروع ہوتی ہے جب وہ اگلی شام تک گھر واپس نہیں آتی۔
قتل کے حوالے سے آنے والی فالو اپ تفصیل میں یہ بات بہت عجیب ہے کہ قاتل نور مقدم کو اسلام آباد میں اپنے گھر یر غمال بنا لیتا ہے اور اس کو گھر سے سات لاکھ تاوان منگوانے کا کہتا ہے۔ ان میں سے تین لاکھ روپیہ مقتولہ کا خانساماں اسے پہنچاتا ہے۔ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ نور اپنے گھر کے خانساماں سے کیسے کانٹیکٹ کرتی ہے۔ پھر وہ اسے تین لاکھ روپے بھی پہنچاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے گھر والوں کو معلوم تھا کہ وہ کہاں پر ہے۔ دوسری طرف قاتل کے والدین کو بھی معلوم تھا کہ وہ ایک لڑکی کو گھر پریر غمال بنائے ہوئے ہے۔
قاتل کے والدین اپنے بیٹے کے تشدد پسند نفسیاتی مزاج اور اس کی کریمنل ہسٹری سے واقفیت ہونے کے باوجود بروقت نور کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جب وہ اس پر تشدد کرتا ہے تو آس پاس کے لوگوں کو بھی معلوم ہوجاتا ہے لیکن کوئی پولیس کو خبر نہیں کرتا۔ بیچاری لڑکی تشدد سے بچنے کے لیے فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے، وہ قاتل کے گھر کے سکیورٹی گارڈز کے کیبن تک چلی جاتی ہے اور مدد لینے کی کو شش کرتی ہے لیکن سکیورٹی گارڈ مظلوم لڑکی کی مدد نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کو اطلاع دیتے ہیں کہ گھر کا مکین ایک لڑکی پر وحشیانہ ظلم ڈھا رہا ہے۔
نور مقدم کے والد اور والدہ اپنی بیٹی کے واٹس ایپ میسج پر میسج کرتے ہیں کہ تم کہاں ہو اپنی لوکیشن بھیجو بیٹی کو واٹس ایپ میسجز ریسیو ہوتے ہیں اور seen بھی ہوتے مگر وہ کوئی جواب نہیں دیتی۔ صرف اپنی ماں کے وائس میسج کا جواب وہ وائس میسج کی صورت میں دیتی ہے جو خبروں کے مطابق اس کی والدہ نے میڈیا سے شیئر نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس وقت اس کے والدین کو پتہ لگ جاتا ہے کہ نور ایک خطرناک صورتحال میں گرفتار ہے مگر وہ فوری طور پر پولیس کی مدد حاصل کیوں نہیں کرتے تاکہ بیٹی کو بازیاب کروایا جاسکے؟
نہ جانے نور نے آخری میسج میں ایسی کیا بات کہی۔ ممکن ہے اسے بہتڈرا دھمکا کر انڈر پریشر کیا گیا ہو۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ آخر اس کی والدہ نے نور کا آخری میسج میڈیا سے شیئر کرنے سے کیوں انکار کیا۔ لگتا ہے کہ ایک ارب پتی قاتل کے مقابلے میں مظلوم لڑکی کے والدین سخت دباؤ کا شکار تھے اور اپنی بیٹی کھونے کے بعد بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ دوسری طرف وحشی قاتل اپنے گھر پر یر غمال بنائی ہوئی لڑکی پر ظلم ڈھاتا ہے، اس کی چیخ و پکار آس پاس کے لوگ سنتے ہیں مگر کوئی پولیس کو نہیں بتاتا۔
یہ وفاقی دارالحکومت ہے کہ جنگل جہاں ایک مظلوم کی چیخ و پکار پر بھی کوئی پولیس کو اطلاع کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ قاتل کی والدہ بھی اس سنگین صورت حال میں پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے تھیراپی ورکس کے کارکنوں کو جائے وقوعہ پر پہنچنے کا کہتی ہیں۔ یہ تھیراپی ورکس نامی اینٹی ڈرگ ادارہ ایک اور ٹوپی ڈرامہ ہے۔ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سر پیٹنے کو اتنا ہی کافی ہے کہ یہ وحشی قاتل بھی اس نام نہاد ادارے میں ایک تھیراپسٹ کے طور کام کرتا تھا جبکہ درحقیقت اس کی اپنی ہسٹری تشدد پسند نفسیاتی مریض کی ہے، کریمنل ریکارڈ اس کے علاوہ ہے۔
میری تمام تر ہمدردیاں مظلوم نور مقدم کے ساتھ ہیں جسکو اپنے والدین کی مکمل توجہ نہ ملی تو اس نے ایک نفسیاتی مریض اور کرمنل ریکارڈ رکھنے والے تشدد پسند شخص کی دوستی میں پناہ لی۔ قاتل اسلام آباد شہر میں میں ایک ڈرگسٹ کے طور پر مشہور ہے۔ وہ گھر سے نکلی تو والدین کو اس کے اکیلے جانیپر کوئی تشویش نہیں تھی۔ جب اگلی شام تک وہ نہیں پہنچی تو پھر انہیں پریشانی ہوئی۔ وہ اس قاتل کے ہاتھوں نہ جانے کب سے سے بلیک میل ہوتی رہی ہوگی مگر اس کے والدین کو اس سانحے کی بھی خبر نہیں تھی کہ ان کی بیٹی کس جذباتی کرائسس سے گزر رہی ہے۔ بالآخر ڈرامے کا ڈراپ سین اس کے انتہائی بہیمانہ قتل کی صورت میں مکمل ہوتا ہے۔
مذہبی اور اخلاقی اقدار کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے میرا سوال یہ ہے کہ والدین اپنی بیٹی کی زندگی سے کیسے اتنے غافل رہے کہ ان کی پیاری بیٹی ایک بگڑے ہوئے امیر زادے کے جنون کی بھینٹ چڑھ گئی تو انہی خبر ہوئی۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔ !