تبدیلی لانے کی دعوے دار حکومت کو اس آنے والے اگست میں پورے تین سال ہو جائیں گے۔ سو پانچ سال اگر پورے کریں تو آدھے سے زیادہ وقت ان کا گزر چکا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ فیصلوں میں دور اندیشی، بردباری، سوچ بچار اور حکمت کی روشنی کی بجائے بے یقینی، ابہام اور کنفیوژن کی تاریکی دکھائی دیتی ہے۔ عوام کی قسمت بدلنے کے دعویدار، ابہام کی اسی تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آتے ہیں۔ آئے روز کابینہ میں ردوبدل اپنے ہی فیصلوں کا مذاق اور اپنی ہی عقل کا ماتم کرنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ افسوس کہ ان فیصلوں کا ملبہ وہ گزشتہ حکومتوں پر نہیں ڈال سکتے۔
کابینہ ردوبدل کے نام پر ایک تماشا ہے جو لگا ہے۔ وزیر اعظم، تبدیلی کے نام پر چند ماہ کے بعد وزارتوں کے قلمدان تبدیل کر کے انقلاب کا انتظار کرتے ہیں۔ اس دوران صرف درباری آوازوں پر کان دھرتے ہیں۔ ان میں واہ واہ کی صدائیں ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم کے فیصلوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں۔ ایسی تمام آوازیں جو وزیر اعظم کو ان کے فیصلوں کے سقم سے آگاہ کریں، ان فیصلوں کے دوررس نقصانات پر روشنی ڈالیں، ان آوازوں کو سننے سے گریز کیا جاتا ہے۔ انقلاب کے انتظار میں چند ماہ گزرتے ہیں تو انہیں خبر ہوتی ہے کہ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں۔ عوام پیٹ رہی ہے، مہنگائی کا سونامی، حکومت کی نیک نامی کو بہائے چلے جا رہا ہے۔ غریب اپنی پھٹی ہوئی جھولیاں اٹھائے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ حکمران ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور اپنے تئیں نئے اور مشکل فیصلوں کا ارادہ کرتے ہیں۔ وہ جن کی کم فہمی سے حالات دگرگوں ہو رہے ہوتے ہیں ان کو ایک مجلس میں طلب کر کے ان کی خوب سرزنش کی جاتی ہے اور پھر انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لئے، جو شاندار فیصلہ کیا جاتا ہے اس کے مطابق ان کے آپس میں نام تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ یعنی زید کا کام بکر کرے گا اور بکر کا کام زید کرے گا۔ عوام اس فیصلے پر حیران پریشان رہ جاتے ہیں کہ اگر زید صاحب ایک کام ٹھیک طرح کرنے کے قابل بھی نہیں تھے تو اب دوسرا کام کیسے وہ ٹھیک کر لیں گے۔ مگر وہ ایسے ہی ردوبدل اور تبدیلی پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اسی طرح کی باہمی تبدیلیوں سے انقلاب لانے کے متمنی ہیں۔
کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو کسی شخصیت نے مشورہ دے رکھا ہے کہ اطلاعات کی وزارت ایسے شخص کے ہاتھ میں رکھنا جس کے نام میں ف آتا ہو۔ آپ دیکھ لیجیے۔ فواد، فردوس اور شبلی فراز ساری ف کی کارستانی ہے اور اسی طرح یہ مشورہ بھی دیا گیاہے کہ وزارت خزانہ کے حکومتی پردھان کے نام میں۔ ضرور آتا ہو۔ ایسے ہی تو حفیظ شیخ کے بعد قرعہ فال حماد اظہر کے نام پر نہیں نکلا۔
اس شخصیت نے کسی طرح یقین دلا رکھا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کی وزارت عظمیٰ کے تمام فیصلوں کا دفاع، خواہ وہ مرکز ہو یا پنجاب صرف ف کے نام والا مرد میدان ہی کر سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تو ضرورت کے وقت بھی ترجیحاً خاموش رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ سو ان کی پذیرائی کے لئے فردوس عاشق اعوان کو بطور کمک پنجاب میں بھیجا گیا۔ جو اپنے کام کو بڑی تندہی سے سرانجام دے رہی ہیں۔ انہیں ترقی کی وہ منازل بھی دکھائی دے جاتی ہیں جنہیں دیکھنے کا ہم یارا نہیں رکھتے۔
پنجاب کی وزارت اعلیٰ عثمان بزدار کو ملنے کے پیچھے بھی کسی شخصیت کی نظرکرم کا سلسلہ معلوم ہوتا ہے ورنہ ان ڈھائی پونے تین برسوں میں جس انداز میں وزارتوں کی اکھاڑ بچھاڑ ہوئی ہے اور آگے بھی ہونے کا امکان ہے، اس میں عثمان بزدار ہمیشہ اپنی وزارت اعلیٰ کے ساتھ تبدیلی کے اس سونامی میں صاف بچ جاتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو پنجاب جیسے اہم اور بڑے صوبے کے لئے شہباز شریف جیسی شخصیت کے بعد عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیناایسا فیصلہ تھا جس پر آج بھی تنقید ہوتی ہے۔ کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ پنجاب میں پہلے سے ہوتے ہوئے اچھے کام بھی رک چکے ہیں۔ ایک مثال اس کی یہ ہے کہ شہباز دور میں پانی کے فلٹر پلانٹس جگہ جگہ رہائشی علاقوں میں لگائے گئے تھے جہاں سے شہری فلٹر شدہ صاف پانی مفت حاصل کرتے تھے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی ملازمہ بھی صاف پانی کی بوتلیں بھر کر اپنے گھر لے جایا کرتی تھی۔ یعنی غریب لوگوں کو بھی صاف پانی میسر آ رہا تھا۔ مگر اب ہمارے آس پاس ایسے فلٹر پلانٹس بند پڑے ہیں۔ لوگ اب یہاں سے پانی نہیں لیتے کیونکہ اب فلٹر تبدیل ہی نہیں کئے جاتے۔
اسی طرح پہلے شہر میں صفائی کا بہتر انتظام موجود تھا۔ اس طرح جا بجا، کوڑے کے ڈھیر دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ایک طرف وبا کا دور ہے، بیماری سے بچنے کے لئے صفائی کی تلقین کی جاتی ہے اور دوسری طرف شہر میں، بازاروں میں، چوکوں چوراہوں کے آس پاس گندگی اور کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں، تف ایسی کارکردگی اور تبدیلی پر!اس سے بڑا زوال کیا ہو گا کہ جو چیزیں بہتر کام کر رہی تھیں، ان کی حالت بھی بگڑ گئی۔ یعنی ایک ہم کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ!ترک کمپنی کے معاملات پر آپ کو تحفظات تھے۔ تو ٹھیک آپ اپنے دور میں ان سے بہتر نظام لے کر آئیں۔
یہ کارکردگی ہے تحریک انصاف کی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں۔ پہلے کی بہتر چیزیں بدحالی کی طرف گامزن ہیں اور وزیر اعظم اپنے وزیر اعلیٰ کی کمک کے لئے۔ کے نام والی خاتون کو بھیجتے ہیں۔ انہیں تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ شاید بزدار کے گرد جلالی وظیفوں کا حصار اس قدر مضبوط ہے کہ وہ تبدیلی کے ہر سونامی سے محفوظ رہتے ہیں۔ حکومت کے فیصلے، دور اندیشی، دانش اور حکمت کی روشنی سے عاری ہیں۔ ابہام اور بے یقینی کی تاریکی میں حکومت ٹامک ٹوئیاں ما رہی ہے۔