Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Kamyaab Log Aur Waqt Ka Istemal

    Kamyaab Log Aur Waqt Ka Istemal

    برسوں بعد ایک پرانی سہیلی سے رابطہ ہوا تو اس نے کہا کہ میں ملنے آؤں گی، دن طے ہوگیا تو آمد کا وقت پوچھا کہنے لگی ہم کسی بھی وقت آجائیں گے۔ مجھے اس جواب پہ حیرت ہوئی۔ خیر سردیوں کے دن تھے شام چار بجے کا وقت طے ہوا۔ میں نے شام کی چائے کی تیاری کرلی۔ پونے 4 چار مکمل تیاری کے ساتھ مہمانوں کے انتظار میں تھی ساڑھے چار ہو گئے مگر مہمان ندارد۔ فون کیا تو میرے بے تابانہ پوچھے گئے سوال پر جو بے نیازانہ ردعمل اس نے دیا مجھے لگا کہ اسے تو یاد ہی نہیں کسی کو چار بجے کا وقت دیا ہوا ہے۔ تاخیر ہوچکی تھی اور اس کی سست روی دیکھ کر میں نے اندازہ کر لیا مہمان کھانے کے وقت تک ہی آئیں گے۔ سو پھر رات کے کھانے کا بندوبست کرنا پڑا۔ سردیوں کے دن تھے سات بجے تک بھی مہمان نہیں آئے میں نے پھر اس کو بھناتے ہوئے فون کیا کہ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے میں چار بجے سے انتظار میں ہوں۔ دوسری طرف وہ بے نیازی کی بندہ تپ کے رہ جائے۔ بہرحال چائے کے وقت سے انتظار کرتے کرتے وہ رات آٹھ بجے تشریف لائی۔ ساتھ ہی میں نے مدد گار خاتون سے کہا کہ کھانا لگانا شروع کرو۔ اس پہ ہماری سہیلی صاحبہ بولیں کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔

    مجھے کہنے لگی تم کچھ زیادہ وقت کی پابندی نہیں کررہی۔ مجھ سے اتنی پابندی نہیں ہوتی بھئی!ہمیں تو پتہ ہی نہیں چلتا دن کب شروع ہوا اور کہاں چلا گیا اور ویسے بھی سرما کے دن اتنے چھوٹے ہیں کہ کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ ویسے جو سلوک تم وقت کے ساتھ کرتی ہو نا، اس کے لئے تو اڑتالیس گھنٹے کا دن بھی ہو جائے تو تمہارے لئے کم ہے۔ میں نے بھی دیانتدارانہ تبصرہ کیاآجکل جاب کر رہی ہو؟ نہیں گھر پہ ہی ہوں بچوں کو خود پڑھاتی ہو؟ نہیں بچوں کو پڑھانے کا ٹائم ہی نہیں ملتا بچوں کو تو ٹیوشن پر بھیجتی ہوں۔

    پھر تم کرتی کیا رہتی ہو سارا دن؟ اتنے کام ہوتے ہیں صبح 11 بجے اٹھتی ہوں میں، اس کے بعد دن ہاتھ نہیں آتا شام ہو جاتی ہے بس کھانے پکانے میں دن گزر جاتا ہے۔ ویسے تم بتاؤ تم کیسے سب کچھ مینیج کرتی ہو۔ اس پہ کئی شوق بھی پالے ہوئے ہیں، لکھنا پڑھنا آرٹ اینڈ کرافٹ پینٹنگ یہ سب کیسے کرتی ہو، میرامطلب ہے گھر اور پھر دفتر کا کام یہ سب تو بہت ٹائم کنزیومنگ ہے؟ صرف وقت کی قدر کر کے سب کچھ ممکن ہے۔ پھر وہ اپنی روٹین بتانے لگی، یارآج کل تو ویسے ہی لاک ڈاؤن کا زمانہ ہے، ہماری روٹین ختم ہوگئی ہے، بچوں نے اسکول نہیں جانا ہوتا تو رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں، پھر صبح دیر سے اٹھتے ہیں، ناشتہ گیارہ بجے تک ہوتا ہے۔

    لا ک ڈاون کا تمہاری روٹین پر فرق نہیں پڑا۔؟ اس نے سوال کیا؟ روٹین پر فرق پڑا ہے مگر بس اتنا ہی کہ سکول نہیں جانا ہوتا۔ رات کو بستر پر جانے کا وقت بھی وہی ہے صبح اٹھنے کی روٹین بھی وہی ہے۔ لاک ڈائون کے دور میں نے ہر دوسرے شخص کو یہ کہتے سنا کہ روٹین خراب ہوگئی ہے، اب سونے جاگنے کا کوئی وقت نہیں ریا۔ سوال یہ ہے کہ اپنے وقت کو بہتراستعمال کرنے کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ وقت کے انمول ہونے کااحساس جب ہمارے اندر سے بیدار ہو تو ہی ہم اس کی قدر کریں گے۔ خیر سے ہم پاکستانی وقت کا قتل عام کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے پھراس کے بعد کہتے ہیں کہ ہمیں وقت نہیں ملا کہ فلاں کام کر تے۔ ہم میں سے ہر کوئی وقت کی کمی کا رونا تو ہوتا ہے لیکن ہم میں سے کوئی بھی یہ یہ الزام اپنے سر لینے کو تیار نہیں کہ وقت کی تجوری کا انمول خزانہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے بے عملی کی راہوں میں لٹاتے ہیں۔ وقت ایک ایسا قیمتی خزانہ ہے کہ جس کی پائی پائی ہمیں سوچ کر خرچ کرنی چاہیے۔ اس تجوری سے خرچ کی گئی کوئی ایک پائی بھی دوبارہ واپس نہیں ملتی۔ ہم یہ کہتے ہیں نا کہ زندگی اللہ کی نعمت ہے اور زندگی بہت قیمتی ہے۔ تو یہ زندگی اور ہے کیا، اللہ کے بندو یہی وقت جو میرے تمھارے ہاتھ میں ہے یہی تو زندگی ہے۔ اور اس وقت کا قتل عام کرکے سمجھو کہ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی قیمتی زندگی کو ضائع کردیا۔ یہ جدید دور ہے سو ہم وقت ضائع کرنے کے لیے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھانت بھانت کی دکانیں کھلی ہیں اور ہم، بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں، کی صورت بنے ان سجی سجائی دکانوں کی ونڈو شاپنگ میں اپنا قیمتی وقت کھپاتے چلے جاتے ہیں۔

    ہم میں سے ہر شخص کام یاب ہونا چاہتا ہے یہ جانے بغیر کہ کامیاب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وقت کے ہر لمحے سے اپنے لیے فائدہ کشید کریں۔ دنیا کے کامیاب ترین افراد اپنے وقت کو فکر انگیزی سے استعمال کرتے ہیں۔ کامیاب افراد کی دس عادات کا خلاصہ یہ ہے۔ کامیاب ہونے والے افراد ہمیشہ سحر خیز ہوتے ہیں۔ وقت کی قدر کرنے والے کامیاب افراد سوشل میڈیا پر وقت برباد نہیں کرتے۔ صبح اٹھ کر اپنے کاموں کی فہرست مرتب کرتے ہیں اور پھر ان کاموں کی ترجیحات طے کرکے انہیں سرانجام دینا شروع کردیتے ہیں۔ دنیا کے تمام کامیاب افراد میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ دن کے پہلے حصے میں سب سے زیادہ ضروری کام کرتے ہیں اور اس دوران اپنے سمارٹ فون کو بند رکھتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر سوشل میڈیا پر تانک جھانک کرنا لائکس اور کمنٹس کرنا وقت کو ضائع کرنے والی عادات کے زمرے میں آتا ہے۔ کامیاب افراد اپنا کام کرتے وقت سوشل میڈیا کے نوٹیفیکیشن کو بند رکھتے ہیں۔ ایک سیکنڈ کے لیے بجنے والا نوٹیفیکیشن کام کے دوران آپ کی توجہ کے قیمتی لمحات کو ضائع کرسکتا ہے۔ کامیاب افراد اپنی آف لائن مصروفیات میں منہمک رہتے ہیں، ہمہ وقت آن لائن دکھائی نہیں دیتے۔ کامیاب افراد ہمیشہ نئے ہنر سیکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے سیکھنے پر یقین رکھتے ہیں یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب آپ وقت کو انمول سمجھیں۔ زندگی کہ ترجیحات طے کریں۔ ہر دن روڈ میپ بنائیں اور سب سے بڑھ کر وقت برباد کرنے کو زندگی برباد کرنے کے مترادف سمجھیں۔