ہفتے میں چار دن کاروباری سرگرمیاں شروع ہونے اور لاک ڈائون کھلنے سے بازار بھیڑ سے بھر چکے ہیں۔ سماجی دوری اور باہمی فاصلے کا اصول ہوا ہو چکا ہے کئی ہفتوں کے لاک ڈائون میں شاپنگ کو ترسی ہوئی بیبیاں رسے تڑوا کر گھروں سے خریداری کی مہم پر نکل کھڑی ہوئیں ہیں۔ سماجی دوری، باہمی فاصلہ، ایس او پیز کس چڑیا کے نام ہیں۔ وہ شاپنگ کے ہیجان میں مبتلا ان بیبیوں کو خبر نہیں اور تو اور اپنے ساتھ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی بازاروں میں لیے گھومتی پھرتی ہیں۔ اپنے تئیں یہ یقین کر چکی ہیں کہ کورونا نے شام پانچ بجے تک، جب تک شاپنگ ٹائم ہے اپنی کارروائیاں ان بیبیوں کے شاپنگ کے احترام میں معطل کر چھوڑی ہیں۔
میں تو ہاتھ جوڑ کر ان بہنوں، بیٹیوں اور بیبیوں سے استدعا کرتی ہوں کہ خدا کا نام لیں اپنے خریداری ہیجان کو کچھ لگام ڈالیں۔ اس قدر غیر ذمہ دارانہ رویہ دنیا کو دکھا کر ہم کیا ثابت کرنے پر تلیں ہوئی ہیں کہ ان عورتوں کی خواہشات کی فہرست میں سب سے بڑی اہم پہلی اور بنیادی ترجیح خریداری ہے۔ وہ بھی کپڑوں کی خریداری۔ ان کے لئے اپنی شخصیت کے اظہار اور وجود کی اہمیت کے تمام تر نئے کپڑوں کی خریداری کی خواہش سے پھوٹتے اور بالآخر یہیں پر آ کر دم توڑ جاتے ہیں، کیا اس سے آگے زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے وہ محروم ہیں۔؟
لاک ڈائون میں نرمی کا پہلا روز تھا میرا گزر ایک ایسی سڑک سے ہوا جس کے دونوں اطراف برانڈڈ کپڑوں کے قیمتی شوروم تھے۔ سہ پہر ساڑھے تین بجے کا وقت تھا۔ دکانیں بند ہونے میں صرف ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا اور اس ڈیڑھ گھنٹہ میں برانڈڈ کپڑوں کی دکانوں کے باہر جو ہیجان برپا تھا، وہ دیکھنے والا تھا۔ عورتوں کی بلا مبالغہ لمبی لمبی قطاریں سماجی دوری کے سارے اصول پامال کرتی ہوئی ہر عمر کے بچوں کی لام ڈوری بھی ہمراہ تھی۔ کچھ نے ماسک چڑھائے ہوئے تھے مگر زیادہ تر نے ماسک کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔
اتنے دنوں کی احتیاطی تدابیر اور شہر میں سناٹے اور ہو کا عالم دیکھنے کے بعد شہر کی رونق دیکھ کر خوشی کی بجائے تاسف ہوا کہ یااللہ کیسی قوم ہے یہ کہ کسی ضابطے اصول اور قانون کو نہیں مانتی، اتنے ہفتوں کی احتیاطی تدابیر کی مسلسل تربیت سے بھی ان عورتوں کے پلے کچھ نہیں پڑا، مقررہ وقت میں لاک ڈائون ختم ہوا ہے مگر وائرس تو اپنی جگہ موجود ہے، جب ہم اپنے گھروں میں اتنی احتیاط کرتے رہے ہیں تو گھر سے باہر نکل کر ہمیں مزید محتاط ہونے کی ضرورت تھی۔
مگر شاید ہماری بہنوں نے سمجھ لیا کہ بازار کھلنے کا مطلب ہے کورونا کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کورونا کا خاتمہ تو نہ جانے کب ہو گا لیکن ہمارے مجموعی رویے بتا رہے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم میں سے عقل فہم اور شعور کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ الماریاں کپڑوں سے اٹی پڑی ہیں مگر پہننے کو کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ برس کے کپڑے الماریوں میں ہینگ کئے ہوئے پرانے ہو چکے۔ آئوٹ آف فیشن جیسی اصطلاحیں بھی اس دور میں ہوا کرتی تھیں، جب زندگیوں میں کچھ ٹھرائو تھا۔ اب لباس آئوٹ آف فیشن نہیں آئوٹ آف والیم(volume) ہو جاتے ہیں۔ ایک ہی سیزن میں 1۔ (volume)۔ اور 2۔ (volume) پری سمر (pre summer) اور مڈسمر(mid summer)کے راگ الاپے جاتے ہیں۔ برانڈز کلچر نے عورتوں کو ایسا حواس باختہ کیا ہے اور ان کو اس طرح نفسیاتی طور پر عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا شکار کر دیا ہے کہ ہانپتی کانپتی واپس آتی ہیں اور کمال بے نیازی سے فرماتی ہیں ہا ہائے۔ بیٹا اس میں رونے والی کیا بات ہے بس ذرا رش تھا تو بس ڈھونڈنے میں دیر ہو گئی یہ اور بات کہ ہم نے شاپنگ کی ماری ہوئی ماں کے سامنے اچھا خاصا لیکچر جھاڑا اور اپنے دل کی تسلی کی اور آخر لیکچر کیوں نہ دیتے کہ ہم اپنی خریداری موقوف کر کے تین عدد روتے ہوئے بچوں کی حفاظت پر ازخود مامور ہو گئے تھے اور ایسا مشاہدہ ہمارے ساتھ کئی بار ہو چکا ہے کہ بچے مائوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور مائیں ان سے بے خبر خریداری میں غرق ہیں۔
اس کالم کا محرک بھی شاید ایسے ہی کتنے واقعات ہیں اور حالیہ عورتوں کا خریداری جنون ہے اور جنون بھی ایسا کہ ہر سو دوزیاں سے عاری۔ بس ایک خواہش کے رتھ پر سوار ہیں، ایسی ویڈیوز یقینا آپ کی نظروں سے بھی گزری ہوں گی کہ کپڑوں کے برانڈز کے آئوٹ لیٹ پر عورتیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا۔ دھینگا مشتی کرتی ہوئی لان کے کپڑوں کی خریداری بلکہ چھینا چھپٹی میں مصروف ہیں۔ اب یہی عورتیں کئی ہفتوں کی قید کے بعد جب آزاد ہوئیں اور خریداری کرنے نکلیں تو شہر کی ٹریفک بلاک ہو گئی۔ ہر قسم کے ایس او پیز روند دیے گئے، بس ایک خواہش ایک جنون باقی رہا اور وہ تھا خریداری اور مزید خریداری۔ وہ بھی کیا کریں کہ کپڑوں سے اٹی ہوئی الماریاں بالکل "خالی" ہیں اور عید پر پہننے کو ان کے پاس ایک بھی ڈھنگ کا جوڑا نہیں۔
ہماری دوست قرۃ العین شعیب کی ایک خوب صورت نظم ہے۔ وارڈ روبوں میں بھری خالی عورتیں۔ اس کے چند مصرے پڑھتے جائیے۔
کپڑوں سے بھری الماریوں میں
پہننے کو ایک بھی اچھا سوٹ نہیں ملتا
الماریوں کا پیٹ نہیں بھرتا
کپڑے وارڈ روب کی
برمودہ ٹرائی اینگل میں جا کر
گم ہو جاتے ہیں!!