کراچی میں 17 مزدور فیکٹری میں لگنے والی آگ میں سوکھی لکڑیوں کی طرح جل کر راکھ ہوگئے۔ یہ حادثہ ریگولر میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک اور حکومتی ایوانوں سے لے کر کاروباری اداروں تک کسی فکر انگیز بحث کا موضوع نہیں بنا جس میں ورک پلیس پر مزدوروں کی زندگی کی حفاظت کو یقینی بنانے والے لیبر قوانین کو ہر صورت نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا۔ یہ معاملہ سنگین تشویش کا ہے کہ وطن عزیز میں مزدور کی جان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ مزدوروں کی زندگی اتنی ارزاں ہے کہ درجنوں کی تعداد میں رک پلیس پر لگنے والی آگ میں جل کر خاکستر ہو جائیں تو بھی ذمہ داروں ملک کے کرتا دھرتاؤں طویل اور مختصر پالیسیاں بنانے والے اعلی حکومتی عہدیداروں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
مزدور شب و روز اپنی جان مشقت میں ہلکان کرکے کنبے کے لئے دو وقت کی روٹی کا سامان کرتا ہے، وہ اس سے زیادہ کا طلبگار نہیں ہوتا کہ بس نوکری رہے اور زندگی کا پہیہ چلتا رہے۔
چند روز پہلے کراچی میں کورنگی میں کیمیکل فیکٹری میں آگ لگ گئی جو اتنی پراسرار انداز میں لگی کہ ابھی تک اس کی ابتدائی رپورٹ تیار نہیں ہو سکی کہ آگ لگنے کی وجہ کیا تھی۔ آگ لگی تو اس ہنگامی صورتحال سے مزدوروں کو باخبر کرنے کے لئے الارم نہیں بجا کیونکہ الارم موجود نہیں تھا۔ بھڑکے ہوئے شعلوں سے اپنی زندگیوں کو بچانے کے لئے مزدور دو منزلہ فیکٹری سے باہر نکلنے کی کوشش میں ناکام ہوگئے کیونکہ باہر نکلنے کا کوئی ہنگامی دروازہ نہیں تھا۔ دوسری منزل پر موجود مزدوروں نے چھت پر جانے کی کوشش کی تو وہاں دروازے پر تالا لگا ہوا تھا یوں زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرتے کرتے وہ آگ کے بے رحم شعلوں میں جل گئے۔ سترہ مزدور جل کر راکھ ہوگئے اس طرح کراچی سترہ غریب ترین گھرانوں پر ایک ہمہ جہتی قیامت ٹوٹ پڑی۔
ان کے گھر کا کفیل کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا شوہر، کسی کا بھائی اپنے کام کرنے والی جگہ پر اذیت ناک موت سے دوچار ہوا۔ جس کی ذمہ داری اس فیکٹری کے مالک پر بھی ہے جس نے ان مزدوروں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے بنیادی اقدامات نہیں کیے۔ مزدوروں کی موت کے ذمہ دار وہ ریاستی ادارے بھی ہیں جن کے نمائندے لیبر انسپکٹر کی صورت میں جاکر وزٹ کرتے ہیں تو دیانت داری سے ان فیکٹریوں کو لیبر لاز نہ لاگو کرنے پر بھاری جرمانہ کرنے اور ایسی خطرناک ورک پلیس کی تالا بندی کرنے کی بجائے ان سے رشوت لے کر اپنی جیب گرم اور منہ بند کر لیتے ہیں۔ اور ایک دن ایسی خطرناک جگہوں پر یہ غریب مزدور کام کرتے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان مزدوروں کی موت کی ذمہ دار دار ریاست خود ہے ریاست ان کی زندگی کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔
جل کر رکھ ہو جانے والے یہ مزدور بھی پاکستان کے شہری تھے، یہ خاک بسر لوگ بھی اتنی ہی عزت اور احترام کے لائق تھے جتنا اس ملک کے اندر ہر کوئی پیسے والا شخص ہے۔ یا تو آئین میں ترمیم کردی جائے کہ پاکستان کے غریب مزدور ریاست پاکستان کے آئین کی رو سے بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج کردیے گئے ہیں۔ وہ سماج کے عدم مساوات پر مبنی نظام کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں یا ورک پلیس پر آگ میں جل کر خاکستر ہو جائیں ریاست پر ان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ یہ بہت تلخ حقیقت ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان کے کم وسیلہ لوگوں کے ساتھ یہ ظلم برسوں سے ہو رہا ہے۔ 2012 میں بلدیہ ٹاؤن کراچی میں 260 مزدوروں کا زندہ جل کر مر جانا کون بھول سکتا ہے۔ کون بھول سکتا ہے کہ سینکڑوں مزدوروں کی اس فیکٹری کو ایم کیو ایم کے کارندوں نے اپنی سیاسی اسی قیادت کی آشیر باد پر بھتہ نہ دینے پر آگ لگائی تھی۔ کون بھول سکتا ہے اس سانحے کو اور اس سانحے سے جڑے ہوئے ہمارے سیاسی اور سماجی نظام کے کریہہ چہرے کو کہ آگ لگانے والے بھی وہی تھے جو حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر اس سانحے پر تعزیتی بیان جاری کررہے تھے۔ ایک کھلے راز کی طرح یہ وہ نامعلوم افراد تھے جن کے نام سارا شہر جانتا تھا لیکن ظلم کی وحشت کا راج شہر والوں کی زبانیں بند کئے ہوئے تھا۔ عدم مساوات اور عدم انصافی پر مبنی نظام ریاست اور سیاست کے سامنے کبھی کبھی مظلوم خود بھی اپنی زبان نہیں کھولتا۔
حال ہی میں لاہور میں ایک مزدور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے لوہا پگھلانے والے ڈرم میں گر کر ہلاک ہوگیا۔ گاؤں سے آنے والے غمزدہ باپ کو اس کے جوان سال بیٹے کی میت جگہ جلی ہوئی ہڈیوں کی ایک چھوٹی سی گھٹری پکڑادی دی گئی۔ دوسرے ہاتھ میں اس کی جان کی قیمت دو چار لاکھ دے کر باپ سے کہلوا دیا گیا وہ فیکٹری مالکان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کروانا چاہتا۔
ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر یہ خوفناک حادثے خدانخوستہ پاکستان کے امیر طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ہوئے ہوتے، کسی کارپوریٹ دفتر میں لوگ حادثاتی طور ایسے مر جاتے۔ طبقہ اشرافیہ کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے 17 افراد اس طرح آگ میں جل کر مر جاتے جیسے کورنگی کراچی کی فیکٹری کی ہوا تو کیا ہوتا؟ کیا اس روز میڈیا پر چلنے والے پرائم ٹائم پروگراموں کا موضوع یہ حادثہ نہ ہوتا؟ ہماری صحافتی اشرافیہ کے سپر سٹار صحافی تازہ ترین سیاسی ڈویلپمنٹس کو بھول کر اپنے تجزیوں اور تبصروں میں اس حادثے کا ذکر نہ کر رہے ہوتے؟
مگرسترہ مزدوروں کا کا ورک پلیس پر مر جانا ایسا سانحہ نہیں تھا کہ میڈیا کی توجہ کا سبب بنتا۔ فائلوں اور کتابوں میں تو انٹرنیشنل لیبر لاز ہمارے ملک کارخانوں اور فیکٹریوں دفاتر کی عمارتوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ ہمارے ہا ں یہ اصول و ضوابط ورک پلیس پر کام کرنے والے ورکروں کی زندگی کی حفاظت کو یقینی کیوں نہیں بناتے۔