المیہ کوئی ایک تو ہے نہیں کہ جس کا رونا رویا جائے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی سانحے کے بعد عوام سے لے کر میڈیا تک میں غم و غصے کا جو طوفان اٹھتا ہے وہ بے سمت او رلایعنی ہوتا ہے۔ بظاہر بحث و مباثحے کے ڈھیر لگے ہیں۔ ایک پروگرام کے بعد دوسرے پروگرام میں تواتر سے اسی سانحے کا تذکرہ ہے۔ سوالات میں جوابات ہیں۔ پرائم ٹائم کے پروگراموں میں ممتاز اینکر پرسن اپنے ممتاز مہمانوں کے پینل کے ساتھ اس معاملے کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہیں۔ دھڑا دھڑ نشر ہوتے ہوئے بلیٹن ہیں۔ فالو اپ خبریں ہیں۔ مین سٹریم میڈیا سے سوشل میڈیا کے چوراہے تک، تجزیوں اور تبصروں کا طوفان بپا ہے لیکن یہ سب کچھ اتنا بے سمت ہوتا ہے کہ اس کے ڈھیر سے کوئی تعمیری اور مثبت سوچ برآمد نہیں ہوتی۔ سانحے سانحات پر اولین ردعمل ایسا ہی ہونا، ایک فطری بات ہے لیکن صرف اولین ردعمل پھر اس کے بعد تو ہمارے تبصروں، تجزیوں اور لائیو پروگراموں کے بحث و مباحثوں میں ہونے والی گفتگو میں فکر انگیزی جھلکنی چاہیے۔
مسائل کے حل کی تلاش ہونی چاہیے۔ سانحہ کیوں اور کیسے وقوع پذیر ہوا؟ اس کے مضمرات پر کھل کر بغیر کسی تعصب کے بات ہو تو سننے والے اس سے ضرور سیکھیں، ان کے شعور میں اضافہ ہو۔ صرف الزامات اور دشنام طرازیوں سے پروگراموں کی ریٹنگ میں اضافہ تو ہوسکتا ہے مگر مسائل کے حل کی طرف آغاز نہیں ہوتا۔ سڑک پر خاتون مسافر کے ساتھ جنسی درندگی نہایت شرمناک اور قابل مذمت سانحہ ہے۔ کون ایسا ہوگا، جو ہولناک منظر کے تصور سے ہی کانپ کر نہ رہ گیا ہو کہ بچوں کے سامنے، ان کی ماں کی عصمت دری کی گئی۔ اس سانحے پر مذمت کا طوفان اٹھنا ایک فطری ردعمل ہے۔ یہ بھی فطری ردعمل ہے کہ ایسے سنگین جرائم کے مرتکب درندوں کو سرعام پھانسیاں دے کر عبرت کا نمونہ بنا دینا چاہیے۔
یہ دونوں فطری اور جائز ردعمل ہیں۔ ایک ایسے سماج میں جہاں ظلم گزیدہ انصاف کے لیے ساری عمر ترستا رہتا ہے۔ بااثر قاتل وکٹری کا نشان بناتے ہوئے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ قانون عدالتیں، انصاف کرنے و الے سارے ایوان، اثر و رسوخ، سٹیٹس، دولت کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہوں، وہاں کسی بھی سانحے کے بعد لوگوں کا بپھر جانا ایک فطری ردعمل ہے لیکن معاشرے اس وقت آگے بڑھتے ہیں، جب سانحات سے سب سیکھ جائیں۔ جب تعصب کی دیواروں سے باہر نکل کر ان سوالوں کے جواب تلاش کئے جائیں، جن کے جواب اگر ہمیں مل گئے تو سماج کا قبلہ درست ہو پائے گا۔
کسی بھی سانحے کے وقوع پذیر ہونے کے مضمرات کیا ہیں۔ کیسے ایک حادثہ ہوا، اس کی وجوہات کیا تھیں۔ لوگ اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو کس طرح عدم تحفظ سے بچا سکتے ہیں کیونکہ ظاہر کوئی بھی معاشرہ فرشتوں کا معاشرہ نہیں ہوتا۔ ایک جرم ہوگیا، اس پر ہمارے آئین اور قانون میں کیا سزا ہے۔ قانون پر عملداری نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ قانون پر عملداری کی راہ میں کون کون سی رکاوٹیں ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کیا قانون سازی کی جائے۔
سانحے کا Victim اگر زندہ بچ گیا، تو اس کی نفسیاتی اور جسمانی بحالی کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر جنسی درندگی کے سانحے ہمارے ہاں مسلسل ہورہے ہیں تو وجہ تلاش کرنی چاہیے کہ ہمارے قانون اور اس کی عملداری میں سنگین سقم موجود ہے، جس کی وجہ سے مجرموں کو سزا کا ڈر نہیں ہوتا۔ پکڑے جانے پر بھی وہ آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔ کڑی اور عبرت ناک سزائوں کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ تسلسل سے ایسے حادثات ہونے سے معاشرے میں عورتوں اور بچیوں میں جو خوفناک عدم تحفظ پیدا ہورہا ہے اس کا علاج کیسے ہوگا؟ کیا لڑکیوں کو باقاعدہ سیلف ڈھینس کی تربیت لینے کی ضرورت ہے۔ کیا وہ اپنے پاس ہتھیار رکھیں کہ ایسے بائولے کتوں سے اپنا بچائو کرسکیں۔ معاشرے کے مردوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت میں ہولناک کمی موجود ہے۔ اس کی رفو گری کیسے ہو۔
دشنام طرازی، الزامات اور ریٹنگ کے چکر سے ہٹ کر ایسے تمام سوالات کے جواب اگر تلاشنے کی کوشش کی جاتی تو اس میں سے تعمیر کا کوئی پہلو ضرور نکلتا۔ مثبت گفتگو سے معاشرے میں رہنے والوں کی تربیت ہوتی۔ ایسے سانحات سے کیسے بچائو ممکن ہے۔ اس پر بات ہوتی تو لوگ کچھ سیکھتے لیکن یہاں کیا ہوا کہ میڈیا ٹاک میں اس کا ایک مختصر حصہ یہ تھا کہ وہ حادثے کا شکار ہونے والی بدقسمت خاتون رات کے بارہ بجے ڈیفنس سے نکلیں۔ انہیں گاڑی کا پٹرول چیک کرنا چاہیے تھا اور سفر کے لیے جی ٹی روڈ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ اس میں کہیں خاتون کو خدانخواستہ مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔
میں نے اس بیان کو بار بار سنا۔ مجھے اس میں کہیں بھی کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی۔ تین فقروں پر جو طوفان اٹھا اس میں کہیں کسی آئین، قانون یا شریعت کی خلاف ورزی نہیں۔ کہیں متاثرہ خاتون کو حادثے کا ذمہ دار نہیں قرار دیا گیا بس اس شرمناک سانحے سے جڑے ہوئے، وہ حقائق بیان کئے جو یقینا اس کیس کی تحقیق میں سامنے آئے ہوں گے اور وہ من و عن میڈیا کے سامنے بیان کردیئے۔ یقینا نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ ایسے موقعوں پر سی سی پی او کو وہی روایتی گفتگو ہی زیب دیتی ہے کہ ہم مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ ہم 24 گھنٹوں میں مجرم پکڑ لیں گے ہم یہ کردیں، ہم وہ کردیں۔ کیونکہ اس سماج کو دو روایتی دعوے اور بھڑکیں سننے کی عادت ہے۔ جیسے دعوے سانحہ ساہیوال پر کئے گئے تھے کہ سانحہ ساہیوال کو ٹیسٹ کیس بنا دیں گے اور نتیجہ اس کا سب کے سامنے ہے۔ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا سے سوشل میڈیا تک۔ سماج کی ذہنیت پر مایوسی ہوئی۔
خود ساختہ دانشوروں کی تمام دانشوری تین فقروں کے اس بیان کے خلاف زہر اگل رہی تھی جس میں کوئی بات قابل اعتراض تھی ہی نہیں۔ یہ معاشرے کے ٹھیکیدار سی سی پی او کے گھر کی باعزت خواتین کو گالیاں دے رہے تھے۔ بددعائیں دے رہے تھے۔ میرے نزدیک تو یہ بھی مجرم ہیں۔ بے سمت معاشرے سے مجھے گھن آنے لگی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میرا لکھا ہوا یہ کالم ہر اس سماج کے ٹھیکیداروں کو عجیب لگے لیکن معذرت کہ میں نہ ہجوم کا حصہ بن سکتی ہوں نہ شور میں اپنی آواز ملا سکتی ہوں۔