برستی بارش کی رم جھم میں ہم پشاور کے قصہ خوانی بازار سے سرسری گزرے تھے مگر اس طرح کہ اس تاریخی بازار سے وابستہ کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں۔ وہاں ہم نے بر صغیر کی فلم انڈسٹری کے داستانوی کردار دلیپ کمار کو بھی یاد کیا جن کے والد قصہ خوانی بازار میں خشک میووں کا کاروبار کرتے تھے۔ اس میوہ فروش کے ہاں یوسف نام کا بچہ اسی بازار کے ایک مکان میں پیدا ہوا۔ قسمت پھر اس کے خاندان کو پشاور سے بمبئی لے گئی۔ نوجوان یوسف خان زمانہ طالب علمی میں کھیلوں سے اتنا شغف رکھتے تھے کہ کھلاڑی ہی بننا چاہتے تھے لیکن تقدیر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ سوچتی ہوں کہ انسان ایک ہی زندگی میں کتنی زندگیاں جیتا ہے۔ زندگی کے کسی ایک مرحلے پر کوئی ایک خواب ہمیں بے چین رکھتا ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ بس اس خواب کی تعبیر سے ہی ہماری زندگی وابستہ ہے۔ وقت کا کاررواں گزرتا رہتا ہے۔ زندگی عنوان بدلتی ہے تو خواب کے عنوان بھی بدلنے لگتے ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو گزشتہ وقت میں دیکھے گئے خواب اور ان سے وابستہ حیرانی اور بے چینی گاہے مضحکہ خیز لگتی ہے ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ یہ ہم ہی تھے۔؟ زندگی کے تازہ ترین درپیش مرحلوں میں پھر کچھ نئے خواب کچھ نئی حاجتیں ہمیں بے چینی رکھتی ہیں۔
پھر عمر کا ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے۔ جہاں ہر سود و زیاں برابر اور بے کار دکھائی دیتا ہے۔ خواہشوں اور خوابوں کے الائو میں عمر کا ایندھن جلا کر انسان اس مقام پر پہنچتا ہے کہ کوئی کامیابی اور ناکامی کے معنی بدل جاتے ہیں۔ دلیپ کمار اٹھانوے برس کی طویل عمر جیئے۔ اس دسمبر کو ان کی عمر ننانوے برس ہو جانی تھی۔ کم و بیش ایک صدی کی عمر جیے۔ ایک ہی زندگی میں کئی زندگیوں کے عکس دیکھنا ہوں تو فلمی دنیا کے اس داستانوی کردار کو دیکھ لیں۔ عمر کا ایک مرحلہ تھا کہ دن رات اپنی توانائیاں اچھا کھیلنے میں وقف ہیں۔ کامیابی کے سارے خواب یہی ہیں کہ کسی طرح نامور کھلاڑی بن جائوں۔ زندگی عنوان بدلی ہیتو برصغیر کی فلمی جادونگری میں راج کرتا دلیپ کمار ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ اس زمانے کی کون سی ہیروئن ایسی تھی جو اس ہیرو پر فدا نہ تھی۔ دلیپ کمار مگر کامنی کوشل کو چاہتے تھے۔ کامنی کوشل سے قسمت نہ ملی تو سائرہ بانو زندگی میں آ گئیں۔ ایک فلمی اداکار کی حیثیت سے دلیپ کمار نے زندگی فقط گزاری نہیں بلکہ شہرت کے رتھ پر سوار ہو کر زندگی کو کامل لگن اور محبت جیا ہے۔ ایسی شہرت شاید کسی کے نصیب میں نہ ہو گی کہ وہ فلموں کا داستانوی کردار بن گئے۔ داستانوں کے کردار بنا دیکھے، بنا جانے، ہی ہماری اجتماعی یادداشتوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب ہماری نسل میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے دلیپ کمار کی فلمیں دیکھی ہوں گی یا وہ اس عظیم فنکار کی اداکارانہ صلاحیتوں سے باخبر ہوں گے۔ شاید میں نے بھی ایک آدھ فلم ہی دیکھی ہو گی مگر وہ ہماری یادداشتوں میں فلموں کے داستانوی کردار کی حیثیت سے شعور کی عمر سے موجود رہے ہیں۔ طویل عمر کے آخری کافی برس انہوں نے بیماری میں کاٹے مگر ان کی بیماری کی ہر چھوٹی بڑی خبر میڈیا میں ہاٹ کیک کی طرح مقبولیت رکھتی۔ بظاہر وہ زندگی کی آخری سانس تک"مقبول" ہی رہے۔
مگر یہ تو کوئی ان سے پوچھتا کہ زندگی کی شام میں وہ اپنے شاندار ماضی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ سوچتے بھی ہیں یا انہیں۔ اب یہ باتیں بے وقعت لگتی ہیں۔ شہرت مقبولیت اور دولت کے حصول کے وہ خواب جو کبھی نوجوان دلیپ کمار کو ایک بگولے کی طرح بے چین رکھتے تھے۔ ان خوابوں کے قریۂ تعبیر میں زندگی بسر کر کے انہوں نے زندگی سے کتنی خوشی کشید کی۔ عمر کے اس مرحلے میں جب بقول شخصے۔ مسافران رہِ عشق تھک کے سستانے لگتے ہیں وہ گزشتہ زندگی کی کامیابیوں اور کامرانیوں پر کیسا محسوس کرتے ہیں۔ سودو زیاں کا ایک میزان انسان کے اندر بھی ہوتا ہے۔ اس میزان پر زندگی پرکھ کر انہیں کیسا لگتا ہے؟ بڑھتی ہوئی عمر کی تکلیفوں اور مضمحل ہوتے بدن کی شکست و ریخت کے مرحلوں میں، کیا کبھی وہ شاہراہِ حیات پر آنے والے حسن و جمال اور عشق و عاشقی کے ان سنگ میل کے بارے سوچتے ہیں جہاں افق کے دو کنارے آپس میں ملتے تو فلمی دنیا کا شہزادہ دلیپ کمار خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھا کرتا تھا۔ سب زندگی کے مختلف ذائقے اور عمر کے مختلف مرحلے ہیں۔ کبھی خواہشیں لہو میں دھمال ڈالے رکھتی ہیں پھر واپسی کی ہوائیں چلتی ہیں تو بقول باکمال شاعر ریاض مجید کے:اب جسم خواہش تلذذ نہیں صرف ملبہ بنا ہے!!واپسی کی ہوائیں چلی ہیں تو بیمار جاں کو سکوں سا ہوا ہیحجرہ جاں میں پس انداز پچھتاووں کی دھوپ پھیلی تو اچھا لگا ہے تم اپنے بدن کے بڑھاپے کی تنہائیوں کا سفر میرے ہمراہ کرنا?!!
دلیپ کمار خوش قسمت تھے کہ انہیں بڑھاپے کی تنہائیوں کے سفر میں اپنی وفا شعار شریک حیات، سائرہ بانو کی بے مثال رفاقت نصیب رہی۔ میرے نزدیک یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوش قسمتی تھی کہ انہیں اپنی زندگی کے سب سے قریبی رشتے کی لامحدود محبت نصیب رہی۔
سائرہ بانو نے مگر وفا شعاری اور خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔ بیمار اور عمر رسیدہ شوہر کی حفاظت ایک کانچ کے قیمتی گڈے کی طرح کی۔ یا پھر ایک ماں کی طرح جو اپنے ناسمجھ بچے کو ہر قسم کی تکلیف سے بچانے کے لئے ہمہ وقت چوکس اور محبت سے لبریز رہتی ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد و محور ہی اپنے محبوب شوہر کی خدمت گزاری تھا یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد سائرہ بانو نے کہا کہ ان کی وفات کے بعد میری زندگی کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہے۔
خلاصہ یہی ہے کہ زندگی کی اڑان شہرت مقبولیت اور دولت کے ساتویں آسمان تک بھی چلی جائے تو لوٹ کے موت کی بانہوں میں آنا ہی ہوتا ہے۔ ابن انشاء کی آواز آ رہی ہے۔ سب مایا ہے۔ سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے۔ یہ حسن جوانی، دولت، شہرت!! کامیابی، ناکامی۔ سب مایا ہے!!