پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چند ماہ پہلے بورڈ کا نیا ایم ڈی آیا تھا۔ کام کے طور طریقوں میں اس کا انداز بالکل الگ تھا۔ نئے ایم ڈی نے بورڈ کے تمام افسران کی میٹنگ بلائی اور انہیں دو ٹوک انداز میں ایک بات کہی۔ اس کام کو ایک مشن سمجھ کر ہو گا۔ اس کام کو سرکار کی تنخواہ اور دوسرے دنیاوی پیمانوں سے ناپیں گے تو مشکل لگے گا۔ لیکن یہ کام ایسا ہے کہ کل سزا و جزا کے دن اللہ اور اس کے رسولؐ کے حضور ہمارے لئے توشہ آخرت ثابت ہو سکتا ہے، ہم اپنے رب کے حضور یہ کہہ سکیں گے کہ 2020ء میں ہم نے بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داری نبھانے کی پوری کوشش کی۔ اس کام سے صرف نظر کیا تو بحیثیت مسلمان ہمارا ضمیر کبھی ہمیں چین نہیں لینے دے گا۔
ادارے کے سربراہ کی اپنے ادارے کے لوگوں سے یہ بات ایک ایسی موٹیوشنل تقریر ثابت ہوئی کہ بات زبان سے نکلی اور دل میں اتر گئی۔ چند سطروں کی اس بات نے گویا ایمان تازہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد کام جنگی بنیادوں پر شروع ہوا۔ پنجاب بھر سے پہلی سے بارہویں جماعت تک پڑھائی جانے والی اردو اسلامیات۔ مطالعہ پاکستان اور سوشل سٹڈی کی دس ہزار کتابوں کو اکٹھا کیا گیا۔
آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے انٹرنیشنل پبلشرز سے لے کر چھوٹے بڑے کئی پاکستانی پبلشرز کی کتابیں جمع کی گئیں۔ آٹھ ٹیموں پر مشتمل چالیس افراد نے کام شروع کیا۔ 30موضوعات ترتیب دیے گئے جن کو پڑھنا جانچنا اور پرکھنا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ کہیں کوئی بات اسلام کے بنیادی عقائد، قرآن و حدیث، توہین رسالتؐ یا توہین صحابہ کرامؓ کے زمرے میں نہ آتی ہو۔ کوئی ایسی بات نہ ہو جو ہماری مشرقی روایات اور اقدار کے خلاف ہو۔ کام شروع ہوا حوالہ جات کی کتابیں بھی منگوائیں۔ ایم ڈی صاحب نے اس ٹیم کے ساتھ خود بیٹھ کر گھنٹوں کام کیا۔ حوالہ جات کی پندرہ کتابیں اپنے گھر اور اپنے ذرائع سے اکٹھی کیں۔ پوری ٹیم ایک مشن کی طرح کام کرنے لگی۔ دفتر کے سرکاری نظام الاوقات سے ہٹ کر رات کے ایک، ایک بجے تک کام ہوتا رہا۔ روزانہ کی روایتی سرکاری مصروفیات سے ہٹ کر 46گھنٹے پانچ سو کتابیں پڑھنے پر لگائے گئے۔ نصاب کی کتابوں میں ایسے ایسے ہوشربا ناقابل تحقیق، قابل اعتراض مواد سامنے آیا کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے نئے ایم ڈی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ چند مثالیں یہ ہیں۔ سورۃ القریش درج تھی تو اس پر اعراب کی غلطیاں تھیں۔ پہلی آیت کا ترجمہ:دیا ہوا تھا پھر دوسری آیت کا ترجمہ نہیں تھا۔ تیسری کا غلط ترجمہ اور چوتھی آیت کا پھر چھوڑ دیا۔ آکسفورڈ اور کیمبرج (انٹرنیشنل پبلشرز) کی کتابوں میں نبی اکرم ﷺ کے نام محمد ؐ کے ساتھ Peace be upon himتک درج کرنے کا تکلف نہیں تھا۔ سوشل سٹڈی میں مسجد اللہ کا گھر نہیں فلاحی ادارہ تھا۔ نویں کی انگریزی کتاب میں، درج گرلز ہاسٹل کے حوالے سے انتہائی قابل اعتراض مواد موجود تھا اور حیرت تھی کہ یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طالب علموں کو نصاب کے نام پر پڑھایا جا رہا تھا۔ ایک کام یہ بھی کیا کہ سیرت النبی ؐ کی ایک کمیٹی بنائی گئی۔ رسول کریمؐ کی حیات مبارکہ کے حوالے سے سیرت کے موضوعات کو 63اسباق میں تقسیم کیا اور پھر پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کی ان پانچ سو کتابوں میں جائزہ لیا گیا کہ سیرت طیبہ کے حوالے سے کون سے موضوعات موجود ہیں اور کون سے موضوعات موجود نہیں۔
63اسباق کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق 39اسباق موجود تھے۔ 24موجود نہیں تھے جبکہ 16موضوعات جزوی طور پر تھے۔ لیکن رسول کریمؐ کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی بات جو کسی کتاب میں موجود نہ تھی وہ ختم نبوت کا موضوع تھا مسلمان کے عقیدے کی بنیاد ہی ختم نبوت پر ہے۔ اس موضوع کو شامل کرنا ازحد ضروری تھا۔ ایم ڈی صاحب کے زیر سرپرستی دن رات کام کر کے نئی تجاویز کی فہرست بنا لی گئی۔ قابل اعتراض مواد چھاپنے والے کن پبلشرز پر پابندی لگانی ہے کون سے مصنفین کو بلیک لسٹ کرنا ہے۔ یہ ساری فہرست تیار ہو گئی۔ طے یہ پایا کہ 13اگست کو بورڈ کی میٹنگ بلا کر حتمی فہرست تیار کر کے فیڈرل حکومت کو بھیجنی تھی۔ بورڈ میں پہلی بار اس پیمانے پر اس طرح کا کام ہوا تھا ایم ڈی خوش تھا کہ قرآن و حدیث اور رسالت اور صحابہ کے خلاف ہر طرح کے قابل اعتراض مواد کو نکال کر نصاب کا قبلہ درست کیا جا سکے گا۔ یقینا یہ بہت بڑا کام ہونے جا رہا تھا۔ لیکن 8اگست کو اسے یہ خبر دی جاتی ہے کہ آپ کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایم ڈی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ سرکاری کام کو مشن سمجھ کر کرنے کے جرم کی پاداش میں آپ کو افسر بکارخاص بنایا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے۔ وطن سے محبت کرنے والا عشق رسول سے سرشار، مومن کا دل رکھنے والا۔ یہ نڈر، بہادر اور سر پھرا، افسر رائے منظور ناصر ہے۔ حیرت ہوئی ہے باردگر حیرت ہوئی ہے۔ کہاں کرپشن میں لتھرا ہوا نظام، ادارہ در ادارہ تباہی کی داستان اور کیا اس خرابے میں ایسا فرض شناس، اعلیٰ روایات کا حامل بہادر افسر منفی قوتوں کے سامنے مزاحمت کرنے والا کمال ہے یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی!
المیہ تو اپنی جگہ موجود ہے کہ اسلام مخالف قوت، اسلام کے بنیادی عقائد کو دھندلا کر ابہام پیدا کر کے ہماری اگلی نسلوں کو اپنی بنیاد سے دور کیا جا رہا ہے۔ تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والوں نے کتاب کو نامعتبر کر دیا ہے۔ ذھنوں میں سوال اٹھتے ہیں کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد کو مسخ کر کے ہمارے بچوں کے ذھنوں میں ابہام پیدا کر رہی ہیں اور جب کوئی رائے منظور ناصر جیسا بہادر ان طاقتوں کے سامنے مزاحمت کرنے۔ ختم نبوت کے موضوع کو نصاب کا حصہ بنانے کی تیاری کر لے۔ قرآن کی آیات کے غلط ترجمے پر اس کے اندر کا مسلمان بے چین ہو جائے تو ایسے افسر سے اس کا عہدہ اور سرکاری مراعات چھین کر اسے شٹ اپ کال دی جاتی ہے۔ !
ذرا سوچیں یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے اور اب تو مدینہ کی ریاست کا چرچا ہے۔ اس مدینہ کی ریاست کے صوبائی اور وفاقی وزیر تعلیم۔ اس حساس مسئلے پر چپ کیوں سادھے بیٹھے ہیں۔ شریک جرم نہ ہوتے مخبری کرتے۔
رائے منظور ناصر نے اس کام کو مشن سمجھ کر کیا اور وہ اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوا۔ سوال یہ ہے کہ وہ اہل اختیار جنہوں نے اس حساس معاملے پر مصلحت آمیز سجھوتے کئے۔ کل روز جزا و سزا کے دن وہ اپنے اللہ اور رسولؐ کے سامنے کیا جواب دیں گے۔