اکتوبر کا پورا مہینہ پنک ربن مہم جاری رہتی ہے کہا جاتا ہے کہ پنک ربن بریسٹ کینسر سے آگاہی کی ایک مہم ہے اس کے تحت ریلیاں نکالی جاتی ہیں، ریلیوں کے شرکاء گلابی رنگ کے ربن کو بطور بیج اپنے سینوں پر آویزاں کرتے ہیں، خبروں میں دیکھ رہی تھی کہ پنک ربن مہم کے تحت سائیکل ریس ہو رہی ہے۔ اسی طرح کی مختلف سرگرمیاں پورا اکتوبر جاری رہتی ہیں۔
اب کچھ عرصے سے مختلف قابل ذکر اور بڑی بڑی عمارتوں کو بھی گلابی رنگ کی روشنی سے سجایا جاتا ہے۔ اگلے روز اخبار کے صفحات پر تصویریں چھپی ہوئی تھیں کہ فلاں عمارت بریسٹ کینسر آگاہی مہم کے تحت گلابی روشنیوں سے سجا دی گئی۔ تاج محل، برج خلیفہ حتیٰ کہ وائٹ ہائوس بھی کینسر آگاہی مہم کے تحت گلابی روشنیوں سے سجائے جاتے ہیں۔ فیس بک پر لوگ اپنی پروفائل پکچر کو پنک ربن کے فریم میں سجاتے ہیں اور اپنے تئیں بریسٹ کینسر کی آگاہی مہم میں بغیر سوچے سمجھے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ہر سال یہ ساری سرگرمیاں دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ اس ساری گلابی مہم کا بریسٹ کینسر کے حوالے سے شعور اور آگاہی پھیلانے سے کیا تعلق بنتا ہے۔ پوری دنیا میں اربوں روپہ اس مہم پہ جھونکا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس بیماری سے بچنے کے لئے خواتین کیا تدابیر اختیار کریں۔؟ یہ بیماری کیوں ہوتی ہے۔؟ روز مرہ کی زندگی کا ذہنی دبائو۔ سٹریس اور مستقل رہنے والی اینگزائٹی، کس طرح جسم میں پنپنے والے کئی طرح کے کینسر کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جدید طرز زندگی کے کون کون سے طریقے بیماری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پنک ربن کمپین احتیاطی تدابیر، بچائو کے طریقے صحت مند طرز زندگی ذہنی صحت کی اہمیت جیسے بنیادی موضوعات کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی آگاہی اور شعور پھیلانے کی مہم کا آغاز اس مرحلے سے کرتی ہے جہاں بیماری ہو جاتی ہے دنیا بھر میں آپ ان کی کمپین کی سرگرمیاں دیکھ لیں۔ ان کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے سیلف ایگزامینیشن کیسے کرنی ہے اور روٹین کے چیک کیسے کروانے ہیں لیکن بیماری ہونے سے پہلے کے مراحل پر بالکل بات نہیں ہوتی۔
یہ کیسی آگاہی مہم ہے، جس میں یہ تک نہیں بتایاجاتا کہ کون سی ایسی غذائیں ہیں، جو اب ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں مگر اس سے کینسر پھیلتا ہے اور ایسی تمام غذائیں اپنی خوراک میں شامل نہ کر کے کینسر سے بچا جا سکتا ہے یہ کیسی آگاہی مہم ہے جس کے تحت امریکہ کے بڑے بڑے سٹوروں میں وہ پروڈکٹ بھی گلابی رنگ میں بیچی جاتی ہیں جو کینسر کا باعث بنتی ہیں۔ درحقیقت پنک ربن کمپین امریکہ سے شروع ہونے والی ایک مارکیٹنگ اور کمرشل سرگرمی ہے۔ جو بریسٹ کینسر کی بیماری کی آڑ میں صرف اور صرف منافع کمانے کی دوڑ میں شامل ہے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت کا جھٹکا لگے کہ پنک ربن کمپین کے ردعمل کے طور پر امریکہ میں ایک متوازی کمپین بھی چل رہی ہے جس کا نام ہے Think before you Pink اس مہم کو ایک تنظیم Breast cancer actionچلا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کسی طور بھی ایک تکلیف دہ بیماری کو مختلف کمپنیوں کی منافع خوری کا ذریعہ نہیں بننے دیں گے۔ پنک ربن کمپین بظاہر انٹرنیشنل چیریٹی فنڈ کے طور پر آغاز کی گئی اور مقصد وہی کہ بریسٹ کینسر کے علاج اور آگاہی کے حوالے سے فنڈ جمع کیا جائے۔
اکتوبر کا مہینہ آتے ہی بڑے بڑے شاپنگ مالز اور سٹوروں پر ضرورت کی مختلف اشیا پنک رنگ یا پنک لیبل کے ساتھ فروخت ہونے لگتی ہیں یہ ساری کمرشل سرگرمی ہے۔ بریسٹ کینسر آگاہی مہم کی آڑ میں ان کمرشل کمپنیوں کی منافع خوری کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے ایک محقق Giyle sulikکا کام بہت اہم ہے گیل، میڈیکل سوشیالوجسٹ ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی تحقیق کو ایک کتاب کی صورت میں اکٹھا کیا ہے اس کتاب کا نام ہے Pink Ribbon Blues.اسے سال کی بہترین تحقیقی کتاب کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ گیل اس کتاب میں ہمیں پنک ربن کا پورا پس منظر بتاتی ہے۔ 90ء کی دہائی کے آغاز میں ایک 68سالہ امریکی سوشل ورکر شارلٹ ہیلے نے اپنی والدہ اور بہن کو اسی بیماری کے ہاتھوں کھویا۔ شارلٹ ہیلے نے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک مہم کا آغاز سرکاری سطح پر صحت کے لئے مختص سالانہ فنڈز کا صرف پانچ فیصد بریسٹ کینسر بچائو پر خرچ ہوتا تھا۔
شارلٹ کی مہم اس نقطے کے گرد گھومتی تھی کہ بریسٹ کینسر سے بچائو کے لئے حکومت زیادہ فنڈز مختص کرے۔ اس مہم کے لئے توجہ حاصل کرنے کے لئے جو Logoڈیزائن کیا گیا وہ Peach Ribbonتھا۔ اس رنگ کو ہم اردو میں جوگیا رنگ کہہ سکتے ہیں جیسے گلابی میں اگر کیسری رنگ کی آمیزش ہو جائے تو پھر یہ جوگیا رنگ بنتا ہے۔ بہرحال ہم اسے پیچ ربن کہیں گے۔ شارلٹ نے اپنے دوستوں اور دوسرے سوشل ورکرز کے ساتھ مل کر عوامی ریلیاں نکالیں۔ سب نے اپنے سینوں پر جوگیا رنگ کے ربن آویزاں کیے ہوئے تھے، اس مہم نے میڈیا کی توجہ بھی خوب حاصل کی، اخبارات میں اچھی کوریج ہوئی، اسی پذیرائی سے متاثر بیوٹی پروڈکٹس بنانے والی ایک کمپنی نے شارلٹ سے پیچ ربن Peach Ribbonkکے حقوق حاصل کرنا چاہے اور کہا کہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریں ہم اپنی تمام بیوٹی پروڈکٹس پر پیچ ربن کا لوگو لگائیں گے۔ جہاں دیدہ اور سمجھدار شارلٹ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں بریسٹ کینسر کی آگاہی مہم کو کسی طرح بھی کمرشل کمپنیوں کے ہاتھ میں منافع کمانے کو نہیں دے سکتی۔ اس بیوٹی پروڈکٹس کمپنی Estee laderکی مالکن ایوانلی لاڈر کے ذہن میں کمرشل آئیڈیا آیا کہ ہم رنگ بدل کر پنک ربن کے ساتھ بریسٹ اوپڑنس کمپین شروع کر سکتے ہیں۔ یہ 1992ء کا سال تھا اور 1993ء تک بریسٹ کینسر اور پنک ربن کئی کمرشل کمپنیوں کا پسندیدہ لوگو Logoبن گیا۔ (جاری)