خوشی سے ان کے ننھے وجود چہک رہے تھے، وہ تینوں ٹرین کی برتھ پر بیٹھے ایک خوشگوار سفر کے لیے تیار تھے۔ تین چھوٹے چھوٹے بہن بھائی سندھ سے پنجاب کی طرف سفر کا ارادہ کر کے اپنی ماں اور نانا کے ساتھ گھر سے نکلے تھے مگر ان کے وجود سے پھوٹتی خوشی کی یہ چہک، گھوٹکی کے ریلوے ٹریک پر اس وقت دم توڑ گئی، جب پہلے ان کی بوگی الگ ہو کر ریلوے لائن پر الٹ گئی۔ نیند میں گم بچے چیخیں مارتے ہوئے اٹھ گئے، ابھی ماں نے سنبھالا ہی نہیں تھا کہ دوسری طرف سے چنگھاڑتی ہوئی ایک اور ریل گاڑی الٹی ہوئی ان بوگیوں سے ٹکرائی جن میں وہ اوندھے پڑے چیخ رہے تھے۔ زور داردھماکہ ہوا اور چہکتے ہوئے وہ تین بچے، اپنے نانا اور امی اور درجنوں دوسرے مسافروں کے ساتھ لہولہان ہو گئے۔ اب تک کی خبر بتاتی ہے کہ باسٹھ سے زائد مسافر جو گھر سے نکلے تھے، موت کی وادی میں اتر گئے اور سو سے زائد بری طرح زخمی ہوئے۔
ہر مرنے والے کی اپنی کہانی ہوگی۔ کہیں تو ایک ہی خاندان کے کئی کئی افراد حادثے کی نذر ہو گئے، زخمی ہونے والوں کی داستان الم اپنی ہوگی، حادثہ جس علاقے میں ہوا وہ سندھ کا ایک پسماندہ شہر ہے، زخمیوں کی وہاں سے رحیم یار خان اور صادق آباد کے ہسپتالوں میں لایا گیا۔ یہاں کے ہسپتالوں میں بھی علاج کی اعلیٰ معیار کی وافر سہولتیں کہاں میسر ہوں گی۔ جب اکتوبر 2019ء میں رحیم یار خان میں تیز گام ٹرین کی تین بوگیوں میں پراسرار آگ بھڑکی تھی تو 74 مسافر جھلس کر مر گئے تھے جبکہ 100 سے زائد جھلسے ہوئے مسافروں کو فوری طور پر کسی برنٹ یونٹ میں منتقل کرنا تھا۔ رحیم یارخان کے ہسپتال برن یونٹ سے محروم تھے، آگ سے جلے ہوئے اذیت میں مبتلا مسافروں کو پانچ گھنٹے کی مسافت پر ملتان کے نشتر ہسپتال لایا گیا۔ فوری مذمتی بیانات کا سلسلہ اس وقت بھی ایسے ہی جاری ہوا تھا۔ ریلوے کی حالت سدھارنے کے وعدے اور دعوے بھی بہت کئے گئے لیکن صورتحال جوں کی توں رہی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو اس محکمے کی پردھان انتظامیہ اپنی کوتاہی تسلیم نہیں کرتی۔ جان لیوا غلطی پر پردے ڈالے جاتے ہیں اور الزامات کا رخ گزری ہوئی حکومتوں پر ڈالا جاتا ہے۔ دوسری طرف سے بھی تابڑ توڑ حملے شروع ہو جاتے ہیں، حادثے کے بعد کے حساس ترین چار پانچ روز یونہی الزامات کی گرد اڑانے میں گزر جاتے ہیں۔ ہمیشہ یہی فارمولا اپنایا جاتا ہے، حادثہ ہوا، مذمتی بیانات، اپنی کوتاہی قبول کرنے سے یکسر انکار، الزامات کی آندھیاں، زخمیوں اور مرنے والوں کے لیے حکومتی امداد کا اعلان اور ساتھ ہی محکمے میں انقلاب لانے کے دعوے۔ کچھ روز اس میں گزر جاتے ہیں اس کے بعد کے سارے دن خاموشی، بے حسی اور بے ضمیری میں گزرتے ہیں تاوقتیکہ پھر کوئی سانحہ ہو جائے۔
درستگی کا سفر اس وقت تک شروع نہیں ہوتا جب تک ہم اپنی کوتاہی قبول نہیں کرتے۔ ہم اپنی غلطی مانیں گے تو ہی سدھار کا عمل شروع ہوگا۔ مولانا حالی کا شعر ہے:
حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور
رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت
کسی شکست، نقصان کے بعد اس کے اسباب کا بے رحمانہ اور غیر جانبدارانہ جائزہ لے کر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنا بہتری کی طرف پہلا اور ضروری قدم ہے۔
ایسے ممالک میں جہاں انسانی جان کی" قدر وقیمت" ہے اور ریاست اپنے آپ شہریوں کو جان اور مال کی حفاظت کی ذمہ دار سمجھتی ہے وہاں ایسے حادثے ہو جائیں تو اوپر سے نیچے تک ذمہ دار انتظامیہ میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ شفاف اور دیانتدارانہ انداز میں معاملے کی تحقیقات ہوتی ہیں، کیا غلطی تھی؟ کس کی غلطی؟ یہ غلطی کوتاہی کیسے سر زد ہوئی؟ ہر پہلو سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس غلطی کے سیلاب پر کیسے بند باندھیں؟ کون سے اقدامات کئے جائیں کہ دوبارہ ایسا حادثہ نہ ہو۔ اپنے ملک کا معاملہ ہی اور ہے۔ حادثہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے متعلقہ شعبے کا پردھان ذمہ دار اعلان کرتا ہے کہ یہ حادثہ گزشتہ حکومت کی کوتاہی ہے۔ بس خرابی کا آغاز یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ مجرمانہ غفلت کی ترکیب ہمارے اخبارات ہیں، نیوز بلیٹن میں، سیاستدانوں کے مذمتی بیانات میں، اتنے تواتر سے اور کثرت سے استعمال ہوتی ہے کہ اب سماعتیں اس کی ترکیب کے حقیقی معنوں تک نہیں پہنچتیں۔ اتنے حادثے اور سانحے متعلقہ انتظامیہ کی ہولناک غفلت سے وقوع پذیر ہوئے کہ ہم پر مجرمانہ غفلت کے معنی اب نہ کھلتے ہیں نہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
گھوٹکی میں ہونے والا ہولناک ٹرین حادثہ بھی متعلقہ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔
اب یہ تصدیق ہورہی ہے کہ ٹرین کے چلنے سے پہلے انتظامیہ کو اس کے اندر موجود تکنیکی خرابی کا علم تھا، ڈرائیور کی نشاندہی کے باوجود اس نقص کو پوری طرح ٹھیک نہیں کیا گیا بلکہ ایک جگاڑ لگا کر وقتی مرمت کی گئی جس کا نتیجہ خوفناک حادثے کی صورت نکلا۔ اب ایک بار پھرہر طرف "مجرمانہ غفلت" کی ترکیب زور و شور سے استعمال ہورہی ہے۔ مٹی پائو ڈنگ ٹپائو اور مسئلے کے حل کی بجائے جگاڑ لگانے کی پالیسی نے گھوٹکی حادثے کو جنم دیا۔ یاد آیا کہ 2005ء میں بھی گھوٹکی سٹیشن پر ٹرین کا ایک ہولناک حادثہ ہوا جس میں ایک سو پچیس مسافر ہلاک ہوئے تھے۔ یہ بار بار کے ہوتے ہوئے حادثے بھی ذمہ داران کو اور پالیسی میکرز کو سوچنے پر مجبور کیوں نہیں کرتے کہ آخر سندھ سے پنجاب کی طرف آنے والے اس ریلوے ٹریک پر بھی کیوں ٹرینوں کے حادثے بار بار ہورہے ہیں۔ ٹرینوں کے ٹریک خستہ ہیں، بے شمار تکنیکی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بہت کچھ تبدیل ہونے والا، ریپیئر ہونے والا ہے جبکہ ریلوے جیسے وسیع محکمے کا بجٹ ہر سال کم ہو جاتا ہے اور جتنا بجٹ رکھا جاتا ہے وہ بھی اس کی حالت زار کو سنوارنے کے کام نہیں آتا۔
ہزاروں پاکستانی، ٹرینوں سے روزانہ سفر کرتے ہیں یہ ہزاروں لاکھوں جانوں کو محفوظ رکھنے کا حساس معاملہ ہے اور بگاڑ ہماری سوچ سے زیادہ۔ خدا کے لیے اس عوامی مسئلے کو بچائیے، دیانتداری، درد مندی اور حب الوطنی سے ریلوے کو بحال کرنا ہوگا۔ اس کے جسم پر کوئی ایک زخم تھوڑی ہے۔ بے شمار پرانے گھائو ہیں۔ بقول مصحفی:
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
ترے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا