Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Urdu Ke Ashiq e Sadiq, Professor Ghazi Ilm Uldeen

    Urdu Ke Ashiq e Sadiq, Professor Ghazi Ilm Uldeen

    موبائل فون کے پیغامات اور فیس بک کی پوسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے ایک طرف تو ہم اردو کے رسم الخط سے دور ہو رہے ہیں دوسری طرف ہماری اردو کا تلفظ ِمحاورے اور ہجے روز بروز بگڑ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لکھی ہوئی خلط ملط اردو کی پوسٹیں کم وقت میں ہزاروں پڑھنے والوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ یوں غلطبول چال کی ترویج ہونے لگتی ہے۔

    دوسری طرف ٹی وی سکرین کے ٹکر بھی اردو کے غلط ہجو ں کے ساتھ تواتر سے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ رجحان تو خاص طور پر لمحہ فکریہ ہے۔ میڈیا میں پڑھے لکھے لوگ ہیں، حیرت ہوتی ہے ان کی نظر سینا درست اردو کیسے گزر کے ٹی وی سکرین تک اور پھر سکرین کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچتی ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ سوشل میڈیا پر لکھی پوسٹوں میں اردو ہجوں کی بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں۔ اب تو ان غلطیوں کی جھلک اخبار کی سرخیوں اور تحریروں میں بھی جھلکنے لگی ہے۔ بعض غلطیاں ایسی ہیں جو غلط العام ہوچکی ہیں۔ یعنی غلطیاں تو ہیں لیکن اب ہمیں اس غلطی کا احساس نہیں ہوتا اور وہ لفظ اتنے عوامی ہو چکے ہیں کہ اب ہمارے ہاں وہ قبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ سکول میں ہم اردو کی گرامر میں پڑھتے تھے کہ اصل لفظ قلفی نہیں بلکہ قفلی ہے لیکن اب قلفی غلط العام ہے۔

    پروفیسر غازی علم دین نے اس حوالے سے بڑی عرق ریزی سے تحقیق کی ہے کہ کون کون سے جملے اور الفاظ ہمارے یہاں غلط العام ہوچکے ہیں۔ ان کی یہ تحقیق بڑی دلچسپ ہے۔ انہوں نے نہ صرف ٹی وی کے اینکر پرسنز کی غلطیاں پکڑی ہیں بلکہ اچھے بھلے ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں سے اغلاط کی نشاندھی کی ہے۔ سیاستدانوں کی تقریروں میں بولے جانے والے غلط جملوں کی نشاندہی کی ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں بہت جلدی عوام تک پہنچ جاتی ہیں اور عوام میں مقبولیت حاصل کر لیتی ہیں۔ ممتاز ماہر لسانیات پروفیسر غازی علم الدین ضلع میرپور آزاد کشمیر کی ایک تحصیل افضل پور کے گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کے ریٹائرڈ پرنسپل ہیں۔ ان کی تحریر اور تحقیق کا میدان لسانیات ہے۔

    پروفیسر غازی علم الدین اردو کے عاشق ہیں اور اردو زبان پر انھوں نے بہت قابل قدر تحقیق کی ہے۔ انہوں نے ایک لسانی لغت مرتب کی ہے۔ ان کے کام پر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے کتاب مرتب کی جس کا نام ہے لسانی لغت (غازی علم الدین کے حوالے سے)ان کے تحقیقی اور علمی مقالے پاکستان کے 70 اور ہندوستان کے 35 سے زائد مجلوں اور اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ایک کتاب لسانی مطالعے کے نام سے ہے جس میں اردو کے حوالے سے ان کی تحقیق شامل ہے۔ پروفیسر غازی علم الدین صاحب کے اس علمی کارنامے پر محمود شام لکھتے ہیں کہ پروفیسر غازی علم الدین نے اردو کی شکل بگاڑنے کے مذموم عمل پر اپنا قلم بہت بروقت اٹھایا ہے۔

    اردو کا قبلہ درست کرنے میں اپنا حصہ وہ بڑی لگن سے ڈال رہے ہیں۔ اردو میں استعمال ہونے والے غلط صورت الفاظ، محاوروں اور نت نئے غلط اختراعات کے حوالے سے مضامین دو قسطوں میں ماہ نامہ اطراف میں شائع ہوئے۔ اطراف کے شکریہ کے ساتھ میں مفاد عامہ کے لیے کچھ دلچسپ اور غلط العام کا درجہ حاصل کرنے والی غلطیوں کو کالم کا حصہ بناتی ہوں۔

    چلن چل نکلا ہے: ایک کالم نویس نے لکھا اس رسم بد کا چلن چل نکلا ہے۔ چلن کے بعد چل نکلے کا استعمال ذوق جمال کو مجروح کر دیتا ہے، نیز معنوی تکرار کا شائبہ بھی ہوتا ہے اردو میں محاورہ چلن چل نکلا نہیں چلن ہونا ہے جس کا معنی ہے رواج ہونا۔

    دنیا بھر میں جگ ہنسائی: اخبار میں لکھا تھا اس واقعے کے بعد بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ یہ عبارت لکھنے والا بے خبر ہے کہ دنیا اور جگ ہم معنی ہیں لہذا جگ ہنسائی کے ساتھ دنیا کا لفظ اضافی ہے۔

    دیکھنے میں دیدہ زیب نظر آتا ہے: اکثر لکھا ہوتا ہے کہ یہ عمارت دیکھنے میں دیدہ زیب نظر آتی ہے۔ دیکھنے اور دیدہ کی لفظی اور معنوی یکسانی نے جملے کو غلط کر دیا ہے۔ جملے کو درست طور پر یوں لکھا جا سکتا ہے، یہ عمارت بہت دیدہ زیب ہے یا یہ عمارت دیکھنے میں بہت خوبصورت ہے۔

    فی الحال ابھی فلاں نہیں آیا: اب اس جملے میں فی الحال کے ساتھ ابھی کا استمعال درست نہیں ہے۔

    فوج کا سپہ سالار: یہ بھی غلط ہے سپاہ کا معنی فوج ہی ہے فوج اور سپاہ کو ہم اکھٹا نہیں کر سکتے۔

    فرق صاف ظاہر: صاف کا معنی واضح ہے جبکہ ظاہر تو واضح ہی ہوتا ہے۔ صاف کے بغیر بھی فرق ظاہر ہو سکتا ہے اس لیے اس میں صاف کو ظاہر کے ساتھ ملانا غلط ہے

    لمبے لمبے ڈگ بھرنا:اردو میں محاورہ ہے ڈگ بھرنا، لمبے لمبے ڈگ بھرنا دراصل دو قدم کے درمیان کے فاصلے کو کہتے ہیں جو چلنے میں پیدا ہوتا ہے۔ لمبے لمبے کے اضافے سے معنوی تکرار کا شائبہ پیدا ہوتا ہے۔ لیلۃ القدر کی رات: لیلۃ القدر یا شب قدر کہنا مناسب ہوگا۔ قدموں سے پامال ہونا:عبید اللہ علیم کا ایک شعر ہے:

    کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں

    کن قدموں سے پامال ہوا

    پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ حیرت ہے کہ وہ قدموں سے کیسے پامال ہوئے حالانکہ پامال کا معنی ہی پیروں سے روندنا ہے۔

    عوام الناس: یہ بھی ایک غلط العام ترکیب ہے عوام اور الناس کا معنی ایک ہی ہے۔ عوام مذکر لفظ ہے اسے عام طور پر لوگ مونث بنادیتے ہیں۔ عوام کہتی ہے یہ بھی غلط ہے۔ قاعدے کی رو سے عوام الناس کی ترکیب کا کوئی جواز نہیں۔ خوش قسمتی کہ پروفیسر غازی علم الدین جیسے اہل علم اردو کے عاشق ہمارے درمیان موجود ہیں اور سوشل میڈیا کے اس دور میں تیزی سے بگڑتی ہوئی اردو کاقبلہ درست کرنے کے اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ:سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

    پس تحریر: کالم لکھتے ہوئے جو غلطیاں مجھ سے سرزد ہوئیں پروفیسر صاحب سے ان کی پیشگی معذرت۔