ملتان سے آنے والی خبر نے بجا طور پر سب کو چونکا کر رکھ دیا۔ ابتدائی خبر یہ تھی کہ نامور سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر اظہر حسن نے اپنی اکلوتی بیٹی ڈاکٹر علیزے کو گولی مار کر خودکشی کرلی ہے۔
مرنے والوں کی موت پر افسوس سے زیادہ جس بات پر حیرت میں لپٹا ہوا افسوس کیا جارہا تھا وہ یہ تھا کہ یہ کیسے اور کیونکر ہوا کہ ذہنی امراض کے ماہر معالج نے خود وہ جان لیوا حرکت کر ڈالی جس کا علاج وہ ساری زندگی اپنے مریضوں میں کرتے رہے۔ ذہنی مرض میں مبتلا مریضوں میں شدت پسندی اور بیماری کی پیچیدگی کا انتہائی قدم اپنے ہاتھوں اپنے زندگی کا خاتمہ کرنا ہے۔ سو بطور سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر اظہر حسن تمام عمر ایسے ذہنی مریضوں کا علاج کرتے رہے انہیں ذہنی مرض کی تاریکی سے نکالنے کے لیے نفسیاتی طب کی جدید تکنیکس اور دوائوں کا استعمال کرواتے رہے۔ یقینا وہ ایک قابل ڈاکٹر تھے۔
لیکن اس سارے سفر میں وہ اپنے وجود کو آکٹوپس کی طرح گرفت میں لینے والی ذہنی بیماری، دبائو، سٹریس اور اس کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی کا علاج نہ کروا سکے۔ حد سے بڑھا ہوا غم و غصہ بھی ایک نفسیاتی بیماری ہے اور سائیکاٹرسٹ اپنے مریضوں کو اینگر مینجمنٹ کی تکنیکس سکھاتے ہیں تاکہ کسی کمزور لمحے میں وہ اپنے اور اپنے آس پاس والوں کے لیے تکلیف دہ ثابت نہ ہوں۔
قتل اور خودکشی کے اس خوفناک واقعے کے بارے میں آنے والی فالو اپ خبریں بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر اظہر حسین کی ازدواجی زندگی میں کافی الجھنیں تھیں۔ ان کی پہلی شادی ملتان کے خاکوانی خاندان میں ہوئی تھی۔ ذہنی ہم آہنگی کا فقدان انہیں دوسری شادی کے فیصلے تک لے گیا۔ دوسری شادی کا پہلی بیوی اور بیٹی کی بہت رنج تھا۔ بظاہر یہ وجہ تنازع دکھائی دیتا ہے۔ اکلوتی بیٹی ڈاکٹر علیزے کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ ڈاکٹر اظہر کی لے پالک بیٹی تھی۔ ڈاکٹر اظہر شہر اور شہر کے مضافات میں بھاری جائیداد کے مالک تھے۔ دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کی طرف سے جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ بڑھ گیا۔ اس پر اکثر و بیشتر معاملات تلخ کلامی ہوتی اور جھگڑے تک پہنچ جاتی جس روز یہ افسوسناک واقعہ ہوا اس روز بھی پہلی بیوی اور بیٹی کے ساتھ ڈاکٹر اظہر حسن کا اس معاملے پر جھگڑا ہوا تھا۔ اس معاملے پر برانگیختہ ہو کر ڈاکٹر اظہر حسن نے گولی چلا دی۔ اس کی زد میں بیٹی ڈاکٹر علیزے آ گئی۔ کہا جارہا ہے کہ اسے زخمی حالت میں نشتر ہسپتال لے جایا گیا جب ڈاکٹر اظہر تک یہ خبر پہنچی کہ بیٹی ان کی گولی لگنے سے جاں بحق ہو گئی ہے تو پھر انہوں نے خود کو بھی گولی مار لی۔ انتہائی افسوسناک اور سلگتے ہوئے سوال اٹھاتا ہوا حادثہ ہے۔
پہلی بار یہ تلخ حقائق زیر بحث ہیں کہ ذہنی امراض کا علاج کرنے والے بھی تو آخر انسان ہوتے ہیں۔ پتھر سے تراشے ہوئے بت نہیں ہوتے۔ وہ بھی زندگی کی کھٹنائیوں سے گزرتے ہوئے اداسی، پچھتا وے، رنج اور وحشت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ منفی جذبات سے جنم لینے والی تاریکی ان کے اندر بھی کہرام برپا کرسکتی ہے اور کبھی کسی کمزور ترین لمحے میں وہ اپنی جان تک لے سکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اظہر حسن جو خود ملک کے ایک قابل سائیکاٹرسٹ تھے ہزاروں، لاکھوں مریضوں کا علاج کر چکے تھے۔ انہیں اپنے اندر ذہنی مرض کی پھیلتی تاریکی کی خبر کیوں نہ ہوئی۔ انہوں نے کیوں کسی ذہنی امراض کے معالج سے رابطہ کر کے اپنا مسئلہ ڈسکس نہ کیا۔ اپنی پیشہ وارانہ مہارتوں کو انہوں نے اپنے اوپر استعمال کیوں نہیں کیا۔ کیا وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایک ڈینائل (Denial) کی کیفیت میں تھے؟
ان تمام سلگتے ہوئے سوالوں کے جواب ہمارے ملک کے ممتاز ترین سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر سعد ملک نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں دیئے ہیں۔ اس کا عنوان بھی بہت معنی خیز ہے:"We the wounded healers" اس کی کچھ سطروں کا ترجمہ کالم کا حصہ بناتی ہوں۔
ڈاکٹر سعد ملک لکھتے ہیں کہ 1980ء میں ڈاکٹر اظہر حسن میرے شاگرد تھے، مجھے ان کی شخصیت آج بھی یاد ہے۔ وہ ہلکے رنگ کی خوبصورت آنکھیں اور شائستہ دھیمے اطوار والا متوازن نوجوان تھا۔ نہ جانے کون سے حالات اس سانحے کا باعث بنے لیکن یہ تو طے کہ ذہنی دبائو اور ڈپریشن ناقابل برداشت ہوگا وگرنہ تو وہ بہت متوازن شخصیت کا حامل ڈاکٹر تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ تجربے اور ٹریننگ کے باوجود ذہنی امراض کے معالجین کے اندر بھی ذہنی امراض کی علامتیں پنپنے لگتی ہیں۔ سائیکاٹرسٹ زیادہ تر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس کی میری نظر میں دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ذہنی طور پر اتنے مضبوط ہیں کہ ان امراض کا خود شکار نہیں ہو سکتے۔
دوسری وجہ یہ کہ وہ اپنی بیماری سے متعلق حقائق بتانے کے لیے اپنے ساتھی ڈاکٹر پر اعتماد نہیں کرتے۔ اس کی وجہ بہت افسوسناک ہے اور وہ یہ کہ بعض ڈاکٹر آپس کے اعتماد کو چکنا چور کرتے ہوئے اپنے ساتھی کولیگ سائیکاٹرسٹ کی ذہنی بیماری کو محفلوں میں گپ شپ کا موضوع بناتے ہیں اور ایک سائیکاٹرسٹ کے اندر علاج کا طالب مریض علاج ہونے سے رہ جاتا ہے۔
ڈاکٹر سعد ملک نے جو تلخ حقائق اس پوسٹ میں بیان کئے ہیں وہ سائیکاٹرسٹ کے حوالے سے پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں۔ ذہنی امراض کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ یا ذہنی بیماری کا تمسخر اڑائے جانے کا خوف تو عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں پہلے سے موجود ہے۔ ذہنی بیمار کو ہم فوراً پاگل پن کا ٹیگ لگا دیتے ہیں۔ ان سارے مسائل کو گفتگو، مباحث اور کالموں کا حصہ بنانا چاہیے۔ عام آدمی کے حوالے سے یہ مسائل موجود تھے ہی مگر ڈاکٹر اظہر حسن کی خودکشی نے ہم پر یہ تکلیف دہ حقیقت منکشف کی کہ بیماری میں مرہم لگانے والابھی زخم زخم ہو سکتا ہے۔ اس کا علاج کون کرے گا؟