کہتے ہیں دیگ پک چکی ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہو کر رہے گا۔ اگر عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ ہوئی تو بھی برا ہو گا اور پیش ہو گئی تو بھی اچھا نہیں ہو گا۔ بات کرنے والے یہ تک کہتے ہیں کہ تحریک ناکام ہو گئی تو بہت برا ہو گا اور کامیاب ہو گئی تو بھی کوئی خیر کی توقع نہ رکھیں۔ مرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا۔ مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں یہاں تک کس نے پہنچایا۔ کل میں اعتزاز احسن کا انٹرویو کر کے آیا ہوں۔
رخصت ہوتے وقت انہوں نے بڑے درد سے کہا کہ جو بھی صورتحال ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔ میں نے بھی یوں لگا اعتراف میں سر جھکا دیا۔ اب کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں یا کم از کم محسوس کرتے ہیں کہ اندر کی کہانی کیا ہے۔ یہی اندر کی کہانی ہمارا اندر کا دکھ ہے۔ آج صبح اعجاز الحق سے ملا ہوں۔ دو چار روز پہلے ان سے سی این اے کے اجلاس میں اور اگلے روز حفیظ اللہ نیازی کے ہاں ناشتے پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت ان کا لہجہ کچھ اور تھا۔ وہ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خاں سے ملنے گئے تھے۔
ساڑھے تین سال تک وہ ان سے دور رہے۔ اگرچہ ان سے پرانا تعلق بھی تھا۔ اب کہیں نماز عصر کے وقت روزہ تو نہیں توڑ رہے یا سجدہ سہو تو نہیں کر رہے۔ ان کی باتوں سے پتا چلا کہ وہ ایسا نہیں کر رہے۔ اب ان کے بات کرنے کا لہجہ اور تھا۔ بہت سی باتیں انہوں نے انٹرویو میں کہہ دیں اور کچھ باتوں کی خبر ان کی گفتگو سے ہوئی۔ ایسے لگتا ہے کھیل ختم ہو چکا ہو۔ مگر اس کے بعد کیا کھیل ہونے والا ہے اس کی انہیں بھی تشویش ہے۔
اس کے بعد میں ایک شادی میں گیا۔ افضال ریحان کے بیٹے کی شادی، کل رات سلمان غنی کی بیٹی کی شادی میں بھی حاضر تھا۔ بہت سے اہل سیاست اور اہل فکر و نظر سے باتیں کرنے یا ان کی بدن بولی پڑھنے کا موقع ملا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ملک پر برا وقت ہے۔ ہماری معیشت ہماری خارجہ پالیسی اور ہماری سکیورٹی صورت حال سب تشویشناک ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو ہمارا موجودہ بندوبست پسند نہیں۔ تو کیا ہمیں ان عالمی دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔
مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے جو بندوبست کر رکھا ہے کیا وہ بھی ہمارے لئے سود مند ہے۔ یہ مہنگائی، یہ بے روزگاری، یہ غربت، یہ عالمی اور علاقائی تنہائی اور اپنے مربی و محسن دوستوں سے دوری، یہ سب کیا ہے۔ یہ لوگ ہمارے خلاف ہے تو بھاڑ میں جائیں مگر ہم نے بھی تو اپنے خلاف بہت کچھ کر رکھا ہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ کسی نے اپنے انداز میں پتے کی بات کی کہ ہم ایک کو لاتے ہیں، پھر اسے مطعون ٹھہراتے ہیں اور دوسرے کو آگے کرتے ہیں۔ پھر یہ دوسرا مورد الزام ٹھہرتا ہے اور پہلا یا کوئی تیسرا کمتر بدی کے فلسفے کے تحت ہمارا محبوب ہو جاتا ہے۔
آخر ہم کب تک یہ کھیل کھیلتے رہیں گے۔ میوزیکل چیئر کا یہ کھیل کوئی نتائج دیے بغیر چل رہا ہے۔ جس کی قسمت ہوتی ہے وہ کرسی حاصل کر لیتا ہے۔ یہ اس کا نصیب بن جاتی ہے۔ ایسے تو ملک چلا نہیں کرتے۔
اس وقت ہم پھر ایک عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔ راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ فلسفہ جھاڑنا چھوڑیے۔ اس وقت جو ایک دم معاملات تیز ہوئے ہیں تو ایسے ہی نہیں ہوئے۔ تاہم تشویش کرنے والے ڈرے ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ ایک بات یاد رکھنے کی، کئی بار بساط شاطر کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ جیسے مشرقی پاکستان کی صورتحال میں ہم نے گویا جمہوریت کا جال بچھایا تھا۔ ہمارے سب اندازے غلط نکلے۔ ہم معلق پارلیمنٹ کا سوچ رہے تھے، مگر سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا اور ملک ٹوٹ گیا۔ اگر ایسا نہیں تھا اور اندر سے ہم درست اندازے لگائے بیٹھے تھے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم نے دانستہ ملک توڑا۔ کیا میں یہ مان لوں۔
نہیں تو موجودہ الجھے ہوئے مجوزہ جال سے بھی مجھے ڈر لگتا ہے۔ ایک دانشور نے کہا، انہی محفلوں میں کہیں، کہ جب تک سب فریق، سیاسی اور غیر سیاسی، سب مل کر نہیں بیٹھتے اور سرجوڑ کر راستہ نہیں نکالتے، ملک کو بچایا نہیں جا سکتا۔ کوئی ایک فریق عقل کل ہے نہ فوج نہ سیاست دان۔ فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے نہ محض عدلیہ نے۔ یہ اجتماعی سوچ کا تقاضا کرتا ہے۔ ملک میں اتنی فکری اور ذہنی صلاحیتیں ہیں کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کر لیں۔ وگرنہ کوئی ایک ادارہ چاہے جتنا بھی مضبوط کیوں نہ ہو ملک نہیں بچا سکتا۔ ہر ایک کے اپنے اپنے بلائنڈکارنر ہیں۔ ہر ایک اپنے اپنے ڈھب سے معاملات کو دیکھتا ہے۔ مل بیٹھیں تو شاید رستہ نکل آئے۔
یقینا دو باتیں اہم ہیں۔ احتساب کا شفاف نظام۔ کم از کم موجودہ نیب کا نظام تو ایسا نہیں ہے اور مضبوط اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن۔ سب عہد کریں، ان کو مضبوط اور غیر جانبدار اور شفاف بنانا ہے تو بات بنتی ہے۔ عدلیہ کو بھی اس کی ضمانت دینا ہو گی اور فوج کو بھی ایک ادارے کے طور پر۔ ہمارے سپریم کورٹ کے ایک جج نے عدلیہ کی بہتری کی چند تجاویز پیش کی ہیں۔ میثاق جمہوریت میں بھی درج ہیں۔
ہم بہت سے الزام فوج پر لگا دیتے ہیں مگر اس بات کی بھی ہم بار بار شہادت دیتے رہے ہیں کہ ہماری عدلیہ کا کردار بھی قابل رشک نہیں رہا۔ رہی پارلیمنٹ وہ اگر آزادانہ کام کرنے کی سکت رکھتی تو دکھ ہی کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ تو کوئی بندوبست تو طے ہو جہاں پر ادارے اپنی اپنی حدوداور اپنے اپنے انداز میں کام کریں، یہ ناگزیر ہے۔ وگرنہ گویا تبدیلی ہمارے دکھوں کا مداوا نہیں ہے۔ یہ تبدیلی چاہے کسی ادارے کی پیداوار ہو، بین الاقوامی طاقتوں کی سوچ کا نتیجہ یا معاف کیجیے چاہے عوام کی قوت سے پیدا ہو۔ اپنے معاملات ٹھیک کیجیے تو بات آگے بڑھے گی۔
بنگلہ دیش والے یہی کہتے ہیں۔ جب ہمارے ہاں معاملات درست ہوئے تو ترقی کا سفر شروع ہوا۔ میں کسی بنگلہ دیشی ماڈل کا قائل نہیں مگر اس بات کو یقینی سمجھتا ہوں کہ تمام فریقین کو مل کر کوئی متفقہ فارمولہ سوچنا ہو گا وگرنہ بات آگے نہیں چلے گی۔ گاڑی رکی رہے گی، اس اسٹیشن پر جو اجڑ چکا ہے۔ سب افراد اور سب ادارے خود کو بقراط سمجھنا چھوڑ دیں۔ انا کی مچان سے نیچے اتریں یہاں آپ محفوظ نہیں ہیں۔ دشمن قوتیں لپک کر یہاں آپ کو دبوچ سکتی ہیں۔
مزید کیا کہوں۔ آج کی صورت حال یہی ہے۔ اس پر میں نے ان دنوں اکثر کو متفق پایا۔