گوپی چند نارنگ پر تو لکھا جائے گا۔ میں نہ لکھوں گا تو بہت سے مشاہیر لکھ ڈالیں گے۔ مگر مجھے اس بچے پر ضرور لکھنا ہے۔ میں جولائی 73ء میں کراچی پہنچا اور اپنی پوری زندگی اس شہر میں گزار آیا۔ سنا ہے یہ بچہ جولائی 71ء میں پیدا ہوا تھا۔ گویا یہ دو سال کا ہو گا اور میں اپنی صحافت کا ایک معتبر وقت گزار کر اس شہر میں وارد ہوا تھا۔
یہ شہر ان دنوں بہت پررونق تھا۔ ہنستا بستا پاکستان کی نمو پاتی ابھرتی تہذیب کا مرکز ان دنوں کالجوں میں بڑی تقاریب ہوا کرتی تھیں، پوری سیاسی پابندیوں کے باوجود اس شہر میں زندگی کے آثار بہت نمایاں تھے، یہاں کے کالجوں میں دو طرح کی محفلیں جمتیں ایک تو کل کالج مباحثے کرتے اور دوسرے ادبی عدالتوں کے نام سے محاکمے مجلسیں جمتیں، ہم اتنے معتبر ٹھہرے تھے کہ ان مباحثوں میں جمع ہوتے اور ادبی عدالتوں میں اسٹیج کی زینت جو افراد بنائے جاتے اس میں اس شہر کا یہ اجنبی بھی ہوتا، جو اب اس شہر کا حصہ تھا، یہ محفلیں اتنی کثرت سے ہوتیں کہ حسین حقانی نے رضا کارانہ یہ ذمہ داری اپنے ذمے لے لی تھی کہ وہ گویا ان کی ڈائری لکھتا۔ میں نے کہاں جانا، کب جانا ہے۔ یہ اس کو معلوم ہوتا، یہ سب محبت کرنے والے لوگ تھے۔
انہی دنوں یہ بچہ ذرا بڑا ہو چکا تھا اور ان محفلوں میں موجود ہوتا مباحثوں میں شریک ہوتا تو ضرور کوئی انعام لیتا، پہلا نہ سہی دوسرا تیسرا تو ضرور ہوتا۔ اس کا انداز غالب جدا تھا۔ مباحثوں کے عمومی اسلوب کے عادی اسے پسند نہ کرتے ہوں گے مگر مجھے اچھا لگتا تھا۔ اس لئے اچھے نمبر دیتا ہو گا۔ ادبی عدالتوں کی احتسابی محفلیں لگتیں تو بھی یہ نمایاں ہوتا آہستہ آہستہ وہ ان کا مستقل حصہ نظر آنے لگا۔ خوب پرجوش شخصیت کا نوجوان تھا۔ مباحثے کے بعد ضرور جج حضرات کے پاس آتا اور آداب بجا لاتا۔ اسے اپنی کوتاہیاں جاننے کا شوق تھا اور یہی نہیں اس میں ہر محفل میں نمایاں رہنے کی تمنا بھی، جانتے ہو یہ بچہ کون تھا، جی ہاں ابھی جس کا جنازہ پڑھ کر لوگ بیٹھے ہیں۔
عامر لیاقت حسین آہستہ آہستہ وہ شہر کی دوسری معتبر محفلوں میں بھی نظر آنے لگا، وہ ایک سیاسی گھرانہ تھا۔ باپ شیخ لیاقت حسین مسلم لیگی تھا اور پیر پگاڑا کے گویا مصاحبین میں تھا۔ ماں صابرہ سلطانہ کو جی ایم سید نے بیٹی بنا رکھا تھا۔ وہ علی سردار صابری کی بیٹی تھی، جو غالباً جنگ کے ابتدائی ایڈیٹر تھا۔ ان کا اصل شوق علم نجوم وغیرہ تھا، مزار قائد کی نسبت میں ایک بڑی بلڈنگ جانے کب ان کی ملکیت ہوئی، آج عامر لیاقت حسین کا جنازہ اسی گھر سے اٹھا، جو بظاہر ایک کمرشل کمپلیکس تھا یہ لوگ پھر ایم کیو ایم میں آ گئے عامر لیاقت کا کمال یہ تھا کہ یہ ایم کیو ایم میں گیا اور چھوڑا بھی پھر الطاف حسین نے قبول کر لیا۔
ایک بار یہ لاہور آیا سید ارشاد عارف نے چند احباب کے ساتھ کھانے پر بلایا ہم نے پوچھا یہ تمہاری کیسے ہمت ہوئی کہ دوبارہ وہاں جا پہنچا، تمہیں جان کا خطرہ نہ تھا، اس نے مزے لے لے کر واپسی کی داستان بتائی اور سنایا کہ وہ گویا کس طرح مسکین بنا سب کچھ سنا رہا۔ اس وقت یہ عالم آن لائن سے شہرت پا چکا تھا، ایک دن مجھے یاد ہے بریگیڈیئر صولت رضا نے پوچھا یار تم نے عالم آن لائن دیکھا ہے ان دنوں ٹی وی کا کوئی زیادہ شوق نہیں ہوا کرتا تھا۔ نجی چینل ابھی نیا نیا چلا تھا تاثر یہ بنا تھا کہ جیسے اور اخبارات کے ادبی صفحات نے ادب کو ذرا عامیانہ کر دیا ہے اس طرح اس نوع کا پروگرام کہیں مذہب کو نچلی سطح پر نہ لے آئے۔ صاحب یہ پروگرام چلتا یوں تھا کہ حیران کر گیا گھر کے سب افراد دیکھتے جلد ہی عامر لیاقت حسین ایک اینکر کے بجائے گویا ایک عالم کی حیثیت سے شہرت پانے لگا۔
پھر یوں ہوا کہ اس نے رمضان نشریات کا سلسلہ شروع کیا پہلے تو سنا ہے نیلام گھر کا ایک جدید مذہبی ماڈل تیار کیا ہے پھر پتا چلا کہ یہ تو اس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ پروگرام میں قلابازیاں تک کھاتا ہے میرا تعلق اتنا ہی رہا کہ جب ملتا استاد محترم کہہ کر گلے لگا لیتا:میری عادت ہے کہ اپنے جونیئر ساتھیوں کی کوئی بات اچھی نہ لگتی ہو تو انہیں طریقے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا، ایسا میں نے عامر کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔ یہ سمجھتا رہا کہ یہ اور ڈھب کا آدمی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ لاہور کے جامعہ نعیمیہ میں ایک خطیب کے طور پر بلایا گیا میں بھی ہمیشہ وہاں تقریر کے لئے حاضری دیتا ہوں، اس نے وہاں بھی محبت سے تذکرہ کرنا ضروری سمجھا اور بار بار کرتا رہا۔ استاد محترم کہہ کر پکارتا رہا۔
اس سب کے باوجود کبھی اس سے متفق نہ ہو سکا مگر کبھی ٹوک بھی نہ سکا۔ شاید اس لئے آج یہ چند حرف لکھ رہا ہوں۔ اس کا ایک بھائی عمران لیاقت حسین نوائے وقت میں ملازم ہو گیا، یہ الگ کہانی ہے چند سال بعد معلوم ہوا کہ ایران سے آیت اللہ بن کر آ گیا ہے۔ اس قصے کو چھوڑو ہم کبھی کبھی ان کے گھر بھی کھانا کھانے جاتے تھے۔ سید صفدر علی لے جاتے تھے اہلیہ بہت عمدہ مچھلی بناتی تھی۔ عامر لیاقت مگر الگ وضع کا آدمی تھا۔ اچانک سیاست میں آیا اور چھا گیا۔ احباب کو نہ اس کا انداز صحافت پسند تھا نہ سیاست اچھی لگتی تھی۔ مجھے اس سے اتنی محبت ضرور تھی کہ اس کی حرکتوں پر افسوس ہوتا تھا مگر عجیب تعلق تھا کہ کبھی اسے ٹوکا نہ تھا۔ شاید خدا نے یہ ذمہ داری مجھے سونپی ہی نہ تھی۔
وہ چل بسا ہے تو ہم اب اسے ایک انتہائی متنازعہ شخصیت کے طور پر جانتے تھے۔ عام طور پر ایسی شخصیات پر کالم نہیں لکھا کرتے۔ جانے میرا دل کیوں چاہا کہ اس پر ضرور کچھ لکھوں۔ ایک شخص کس طرح شعلے کی طرح آیا اور بجھ گیا۔ زندگی اداس کر گیا بلکہ ویران کر گیا بہت سی اقدار ہم سے چھین لیں پھر بھی نامور رہا ہر ٹی وی چینل چاہتا تھا کہ رمضان ٹرانسمیشن وہ کرے۔ اس نے اس سے خوب کمایا مگر ایک دن آیا کہ کوئی چینل اسے سہارنے کو تیار نہ تھا۔ الیکٹرانک میڈیا کی عطا کردہ شہرت بہت خطرناک ہوا کرتی ہے۔
شروع شروع میں غیر ذمہ دارانہ گرفت کو چند ویڈیو اس کے وائرل ہوتے تھے پھر اس نے اپنے اوپر پر حد توڑ دی تھی، مجھے اس کی پہلی اہلیہ کی داد دینا پڑتی ہے، جب اس نے عامر کی دوسری شادی پر اس سے طلاق لے لی تھی اب مگر تدفین کے وقت اپنے اور عامر کے بچوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس کا جنازہ کسی طارق جمیل نے نہیں پڑھایا، بیٹے نے یہ رسم ادا کی۔ وہ اپنے ماں باپ کے پہلو میں دفن ہوا، ان پر بھی بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے شاید شخصیت کی بنیاد وہی سے پڑی تھی۔ زیادہ کچھ کہہ سکتا۔ آدمی کو اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ جانے ہمارا انجام کیا ہو گا۔ تاہم زندگی بڑا مشکل سفر ہے، اسے احتیاط سے گزارنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ عامر لیاقت حسین شاید اس احتیاط کو محفوظ نہ رکھ سکا خدا اس کے گناہوں کو معاف کرے۔
اب کس گوپی چند نارنگ پر لکھنا ہے کالم تمام کرتا ہوں۔