دل دکھی ہے۔
پہلی بار خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ کاش میں ایک کہنہ شخص ہوتا۔ بیہودہ، گھٹیا، منہ پھٹ اور ذلت کی حد تک پہنچا ہوا ناہنجار شخص۔ کم از کم اس زبان میں بات کر کے دل کی بھڑاس تو نکال لیتا جیسی زبان آج کل بعض سیاسی بقراطوں نے اختیار کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر آدمی کے اندر ایک کمینگی ہوتی ہے۔ اس کے خلاف لڑنا ہی جہاد ہے۔ آج میں اس جہاد سے گزر رہا ہوں۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ یہ نواز شریف کے خلاف ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں اور بیماری کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ یہ تو نہ ہماری روایت رہی ہے نہ ہی مہذب انسانوں کا وطیرہ۔ اگر یہ چلن عام ہو گیا تو پھر سیاست پر اعتبار اٹھ جائے گا۔ ماضی میں ہمارے ہاں کیا کیا شعلہ بیان لوگ تھے۔ مگر بات کرنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ ان کی سیاست پر اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر وہ شائستگی کی حدوں سے باہر نہ نکلتے تھے۔ سیاست میں وضع داری ہوتی ہے جو اب مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ نواز شریف کی بیماری کے موقع پر جو بیانات آ رہے ہیں اور جس طرح کے لوگوں کے آ رہے ہیں وہ تکلیف دہ اس لئے ہیں کہ سیاست پر اعتبار اٹھ جائے گا۔ عمران خان نے اچھا کیا کہ اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ نواز شریف کی صحت پر بیان بازی بند کریں اور ہدایت دی کہ انہیں ہر قسم کی امداد فراہم کی جائے۔ پنجاب کی وزیرصحت یاسمین راشد ایک پروقار پروفیشنل کی شکل میں سامنے آئی ہیں۔ یہی طریقہ ہوا کرتا ہے۔
کیا کروں، میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ تربیت ہی ایسی ہے وگرنہ جو بول رہے ہیں ان میں ایک ایک کے پرخچے اڑا دیے جائیں۔ بہتوں کی تو تاریخ ہی ناگفتی ہے اور مجھے ازبر ہے۔ اللہ اللہ یہ بھی سیاست میں چہک رہے ہیں اور ایک ہم ہیں میڈیا والے کہ انہیں نشر کر رہے ہیں۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور قوم کو ہر عذاب سے بچائے۔
ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ نواز شریف کا مقام متعین کرنے میں بھی ہم بڑے بخل سے کام لیتے رہے ہیں میاں صاحب سے کبھی مرا کوئی مفاد وابستہ نہیں رہا۔ ایک ٹکے کا ذاتی فائدہ بھی اٹھایا تو خدا مجھے معاف نہ کرے تاہم بڑی سنجیدگی سے میں نے میاں صاحب اور ان کی ہم عصر نسل کا قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کیاہے وہ ہماری تاریخ کے معمولی آدمی نہیں ہیں کہ گلی محلے کے بچے بھی ان پر کیچڑ اچھالتے پھریں۔ ایک دو نکات عرض کر رہا ہوں۔ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہیے اگر اس ملک میں سیاست کو زندہ رکھنا ہے۔ جب ملک انتہائی نظریاتی کشمکش میں مبتلا تھا اور لگتا تھا بائیں بازو کی سیاست اور معیشت ملک کو بہا کر لے جائے گی۔ نواز شریف پہلے لیڈر تھے جنہوں نے بتایا دائیں بازو کی اسلام دوست قوتیں بھی اس طوفان کا منہ موڑ کر ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آ سکتی ہیں۔ اب اس کے لئے انہیں کسی ضیاء الحق کے مارشل لاء کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی بتایا کہ دائیں بازو کو سیاست میں معیشت کا رخ بھی بدلا جا سکتا ہے۔ اگرچہ بھٹو کی قومیانے کی پالیسی نے ہماری معیشت کے انجر پنجر ڈھیلے کر دیے تھے۔ نواز شریف نے آزاد معیشت کے ذریعے معیشت کو ترقی کی راہ دکھائی۔ جو بات ضیاء الحق نہ کر سکے، وہ نواز شریف نے کر ڈالی۔ وہ ویسے بھی ریگن ازم اور تھیچر ازم کا دور تھا اور بے نظیر کے زمانے میں اس پر کام شروع ہو چکا تھا۔ مگر نواز شریف نے آتے ہی اس عمل کو تیز کیا۔ اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ہوائی اڈوں پر کسٹمز کے گرین چینل شروع کر دیے۔ صرف یہ پوچھا، ہوائی راستے سے مسافروں سے کتنا ٹیکس وصول کیا جانا ہے۔ معلوم ہوا کہ کل ٹیکس کا صرف نصف فیصد ہوتا ہے یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے گرین چینل شروع کرنے کا حکم دے دیا کہ اتنا نقصان برداشت کر لیں گے مگر معیشت کو مہذب بنائیں گے۔ ڈالر کے لانے لے جانے پر پابندی نرم کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت سے من موہن سنگھ چیخ اٹھے کہ پاکستان جس پالیسی پر چل پڑا ہے چند برسوں میں وہ ہمیں پیچھے چھوڑ جائے گا، ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔ پھر بھارت نے وہ پالیسی اپنائی جو نواز شریف اپنا رہے تھے اور یہاں نواز شریف کو فارغ کر دیا گیا۔ 3۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ بائیں بازو کے ایک دانش ور سے جب پوچھا گیا کہ تم نوازشریف کے ساتھ کیوں ہو گئے ہو، تو اس کمیونسٹ سکالر نے جواب دیا کہ نواز شریف قومی بورژوازی ہے۔ یعنی ایسا سرمایہ دار جو مقامی ہو۔ یہ جاگیرداری سے آگے کی سطح ہے۔ ملک میں پہلی بار شہری قیادت برسر اقتدار آئی تھی۔ عمرانیات و سیاسیات کے طالب علم جان سکتے ہیں یہ کتنی بڑی تبدیلی تھی اور اس کی راہ میں کیسی کیسی مزاحمت کھڑی ہونا ناگزیر تھا اور یہ مزاحمت اور رکاوٹ کھڑی کی گئی۔ جب شہری قیادت لیڈکرتی ہے تو قوموں پر کئی مصنوعی تبدیلیاں آتی ہیں۔ وہ سب آ رہی تھیں۔ 4۔ ایک کام اور کیا، مفاہمت اور اعتدال کی سیاست کی بنیاد رکھی۔ ہمارے ہاں اسے مک مکا کی سیاست کہا گیا۔ انہوں نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ دائیں بازو کو انتہا پسندانہ نظریات سے نکال کر اعتدال پر لے کر آئے۔ سمجھنے کے لئے اس وقت تو دنیا میں کئی مثالیں ہیں۔ آسانی کے لئے یوں سمجھ لیجیے جیسے ترکی میں زیادہ بنیادی مذہبی جماعتوں کی جگہ طیب اردوان کی پارٹی کا آنا۔ وگرنہ سیکولر ہی چھائے رہتے اور اسلام کا نام لینے والوں کو فوج آنے نہ دیتی۔ اس بات کی قدروقیمت وہی جان سکتے ہیں جنہیں اندازہ ہے کہ ان دنوں پاکستان میں مذہب کا نام لینے والے کیسے بھاگ بھاگ کر جہادی گروہوں کا حصہ بن رہے تھے۔ یہ نہیں کہ اس انتہا سے بچانے والے موجود نہ تھا۔ خود جماعت اسلامی کا یہی ماٹو تھا کہ جمہوریت کے راستے سے آیا جائے۔ مگر برصغیر کے سیاست کے پس منظرمیں یہاں ایک "مسلم لیگ" کی ضرورت تھی۔ 5۔ صرف اعتدال ہی نہیں مصالحت کی سیاست کا بھی آغاز کیا۔ اس میں کریڈٹ بے نظیر کو بھی جاتا ہے۔ آغاز میں دونوں کیسے ایک دوسرے کے خلاف خنجرآزما رہے۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے طے کیا کہ ملک ایسے چلنے والا نہیں۔ میثاق جمہوریت کو 73ء کے آئین کے بعد سب سے اہم دستاویز قرار دیا گیا۔ بعض نے اسے قرار داد مقاصد کے بعد سب سے معتبر دستاویز کہا۔ لگتا تھا سیاست میں ایک ٹھہرائو آ جائے گا۔ انسانی سطح پر بھی نواز شریف کا رویہ یہ تھا کہ جب عمران خان گرے اور شدید زخمی ہوئے تو وہ اپنی انتخابی مہم معطل کر کے انہیں دیکھنے ہسپتال جا پہنچے۔ بے نظیر کی شہادت پر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں نواز شریف تھے۔ سیاست میں انسانیت آ رہی تھی۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی وہ بنی گالا میں عمران خان کو ملنے جا پہنچے۔ لگتا تھا ہماری سیاست راہ راست پر چل پڑی ہے۔
6۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ نواز شریف نے ہمیشہ شرافت کی زبان استعمال کی۔ ہمیشہ مخالف کے نام کے ساتھ صاحب کا لفظ استعمال کیا جس کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ مگر وہ اپنے اندازہ پر قائم رہے، 7۔ ان کا آخری کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ سیاسی حکومت کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے سول ملٹری تعلقات مثالی ہوں۔ مگر یہ نہیں کہ حکومت کہیں سے ہورہی ہو اور وزیر اعظم صرف ایک مہرہ ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات وقت سے پہلے کر دی تھی۔ بعض کا خیال ہے ان کے گرد ایسے لوگ جمع ہو گئے جو انہیں توازن قائم نہیں کرنے دے رہے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ درست کہہ رہے تھے۔ اس کے خلاف ردعمل ہونا بھی فطری تھا۔ ترکی میں تو ایک آدھ وزیر اعظم پھانسی چڑھ گیا تھا جب معیشت مضبوط ہو گئی اور عالمی اقتصادی طاقتوں کے مفادات بھی ملک کے اندر مضبوط ہو گئے تو پھر پرانوں کی قربانیاں بھی رنگ لائیں اور سہرا طیب اردوان کے سر پرسجا۔ 8۔ اور آخری بات یہ کہ ابھی تک کوئی ایسی کرپشن ثابت نہیں ہوسکی جو نظام حکومت چلاتے ہوئے ان سے صادر ہوئی ہو۔ رہ گئے کاروبار کے معاملات تو میں دو ٹوک لفظوں میں کہتا ہوں کہ ہمارے سرمایہ دار کلچر میں بعض باتیں ایسی ہیں جو آفاقی ہیں دنیا بھر میں کارپوریٹ سیکٹر ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔ پاکستان کا کارپوریٹ سیکٹر ہی اس معنوں میں "کرپٹ" نہیں۔ مغرب میں جہاں یہ نظام ہے کرپشن اس کی بھی گھٹی میں ہے اوراسے وہ کرپشن سمجھتے ہیں نہ کرپشن گنتے ہیں۔ کرپشن کے ان معنوں میں پاکستان کے شریف ترین سرمایہ دار کا انتخاب کر لیجیے اور اس کاجائزہ لے لیجیے۔ جہانگیر ترین کو بھی اس تناظر میں قدرے شریف آدمی سمجھتا ہوں۔ اپنے مشٹنڈے ان کے پیچھے لگا دیجیے پتا چل جائے گا جو شخص بھی کاروبار میں ہے، اس کو نکال لیجیے اور تجزیہ کرا لیجیے۔ ہمایوں اختر اس وقت بڑی صنعتی سلطنت کے مالک ہیں جب انہوں نے آغاز کیا تھا، ان کے بارے میں کیا کیا سوال نہ اٹھتے تھے۔ اب وہ ایک صاف ستھرے شخص سمجھے جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس نظام میں کام کرنے والوں پر آپ اپنے معیارات نافذ کر دیجیے اور جتنا چاہے بدنام کر دیجیے۔ بعض سوال جو اٹھائے جا رہے ہیں اور جیسی چھان بین ہو رہی ہیں اس میں مجرم ٹھہرنے والے پارسا لوگ ہیں اور جو اصل مجرم ہیں ان کی تو گرد کو بھی نہیں پہنچتے۔ مجھے یاد ہے پرانی بات ہے کہ سندھ کے ایک چیف منسٹر کے بارے میں مشہور ہوا کہ وہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر پیسے پکڑتا ہے۔ ان دنوں پنجاب میں نوازشریف وزیر اعلیٰ تھے۔ کسی نے ان کی مثال دی کہ فیکٹریاں بنا رہے ہیں تو پاس بیٹھے ایک خاموش آدمی نے جواب دیا۔ رشوت تو نہیں لے رہا، کمشن تو نہیں کھا رہے۔ فیکٹریاں لگانے کے لئے بنکوں وغیرہ سے فائدے اٹھا رہا ہو، اس کا تو ملک کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔ غریب کو نوکری ملتی ہے ملک ترقی کرتا ہے اور ہاں بنک سرمایہ اسی کو دیتے ہیں جس کا اعتبار ہو۔ تم بتائو اس نے کوئی لوٹ مار کی ہے۔
یہ چند سطریں میں نے نواز شریف کے دفاع میں نہیں لکھیں، بلکہ اس خوف سے لکھی ہیں کہ کہیں مراد دہن بھی بگڑ نہ جائے۔ اتنے چھوٹے چھوٹے لوگ ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ اگر میں ان کا غصہ اس طرح مثبت انداز میں نہ نکالوں تو جمہوریت پر میرا ایمان اٹھ جائے یا میری زبان بگڑ جائے گی۔