ایک تو یہ بیانیہ بنایا جا سکتا ہے کہ یہ جو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آئی ہے، اس نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت پہلی حکومتوں سے زیادہ کرپٹ ہے اور اس حکومت نے چونکہ اقتدار پر آنے سے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جب ٹاپ کا آدمی کرپٹ ہوتا ہے تو نیچے سب کرپٹ ہو جاتے ہیں۔ ہم آئیں گے تو 90دن میں کرپشن دور کر دیں گے۔ یوں پاکستان کا بنیادی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اب جب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ موجودہ حکومت پہلے والوں سے بھی زیادہ کرپٹ ہے، اس لئے اسے گھر جانا چاہیے۔
شاہد خاقان عباسی نے بھی یہی بات کی ہے، تاہم اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جب ہم نے اقتدار چھوڑا تو پاکستان دنیا میں 117ویں نمبر کا کرپٹ ملک تھا جو اچھی بات نہ تھی، مگر اب 140درجے کا کرپٹ ہو گیا ہے۔ گویا جب پہلی حکومتیں نسبتاً بہتر تھی اور کرپشن کے حوالے سے ملک میں بہتری آتی جاتی تھی، اب ہم مزید کرپٹ ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے ہمارے 33نمبر تھے۔ ہر سال ایک آدھ کم ہوتا جاتا تھا۔
اب اس سال ہم نے 100میں صرف 28نمبر لئے ہیں۔ جو بری طرح فیل ہونے کی علامت ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ دنیا میں جو قومیں اوّل آئی ہیں ان کے 100میں سے 85نمبر ہیں۔ ہم بھارت سے مقابلہ کرتے ہیں اس کے بھی 40نمبر ہیں۔ کرپشن کے بارے میں ہماری پوزیشن کبھی قابل رشک نہیں رہی۔ کم از کم اس وقت سے جب سے اسے بین الاقوامی سطح پر ماپنے کا نظام شروع ہوا ہے۔ اس پیمائش میں ورلڈ بنک جیسے عالمی اداروں کی تحقیق شامل ہوتی ہے۔
چنانچہ اصل بیانیہ یہ ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والے ایک کرپٹ قوم ہیں اور جب سے ہم نے ریاست مدینہ کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے ہماری کرپشن میں اضافہ ہو گیا ہے، کمی نہیں آئی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ پیر اپنے مریدوں کو سب سے پہلے پکڑتا ہے۔ اس طرح اللہ تعا لیٰ اپنے منکروں سے تو شاید صرف نظر کر دے مگر اس کی غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے ماننے والے اور اس کے پیارے حبیبؐ کے امتی کرپشن میں اس قدر خراب اعمال رکھتے ہوں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کرپٹ کیوں ہیں۔ یا یہ خرابی ہم میں کہاں سے آئی۔ ہمیں اپنے ماحول اور اپنے سماج پر نظر ڈالنا چاہیے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہم آزاد ہوئے تو ہم اتنے کرپٹ نہ تھے۔ ہم انگریز کو بہت گالی دیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نے ہمیں جو بیورو کریسی ورثے میں دی تھی، وہ اہل بھی تھی اور ایک لحاظ سے دیانت دار بھی۔ ہم نے بیورو کریسی کو بہت گالیاں دی ہیں۔ اسے انگریزی کی معنوی اولاد کا طعنہ دیا ہے۔
اس سے نجات حاصل کرنے کا ہمیشہ پرچار کیا ہے اور ہم نے آہستہ آہستہ اس کا انجر پنجر ڈھیلا کر دیا ہے۔ مگر خدا لگتی کہیے کہ ہمارے ہاں ایک اعلیٰ درجے کی سول سروس ہی تو تھی جس نے اس نوزائیدہ ریاست کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں مدد کی۔ ہر آنے والے آمر نے اصل داد رسی بیورو کریسی پر کیا۔ جب یحییٰ خاں نے 303افسران کو نکالا، تو ہم نے تالیاں بجائیں بھٹو نے آ کر شاید 1100سے بھی زیادہ افسران کی چھٹی کر دی۔ انتظامی اصلاحات کے نام پر بیورو کریسی کے سر سے آئین کا سائبان چھین لیا یعنی انہیں آئینی تحفظ میسر نہ رہا۔ پھر انہوں نے نوکرشاہی کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ براہ راست بھرتیوں کا طریقہ رائج کیا اور بھی بہت کچھ تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ سارا ڈھانچہ جل گیا۔
بیورو کریسی میں بہتری آنے کے بجائے مزید خرابی آئی۔ مشرف نے آ کر اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے نام پر بیورو کریسی کے ڈھانچے میں بھی دوبارہ تبدیلی کر دی۔ بھٹو نے صنعتوں کو قومیا یا تو دراصل اسے بیورو کریسی کے سپرد کر دیا۔ ہماری صنعت بھی تباہ ہوئی اور ان صنعتوں پر حکومت کرنے کے شوق میں بیورو کریسی بھی ملیا میٹ ہو کر رہ گئی۔ کسی 18گریڈکے افسر کو بہت بڑی فیکٹری سونپ دی جاتی جس میں بے پناہ مراعات ہوتیں مگر اس افسر میں اسے چلانے کی اہلیت ہوتی نہ تجربہ۔ نتیجہ یہ نکلا صنعتیں بھی تباہ ہوئیں اور بیورو کریسی۔
یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سپیریئر سول سروس کا امتحان دینے والوں کی ترجیح سول سروس یا فارن سروس تھی۔ پھر کئی سال تک یہ کسٹمز اور انکم ٹیکس ہو گئی۔ کسی نے سوچنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ قوم کا اعلیٰ ترین ذہن ان محکموں کو کیوں ترجیح دیتا ہے۔ جب کرپشن اوپر سے پھیلتی ہے تو اس کے اثرات نیچے تک جاتے ہیں۔ درجہ بہ درجہ صورت حال ہو گئی کہ عام کلرک سے لے کر بلند ترین افسرانہ منصب تک ہر شخص اپنے کام میں لگ گیا۔
اب آپ کوئی کام کسی دفتر میں بغیر پیسے کے نہیں کروا سکتے۔ وہ محکمے جہاں کبھی خیال کیا جاتا تھا کہ یہاں کون رشوت دے گا، وہاں بھی رشوت کے طریقے کھلم کھلا ڈھونڈ لئے گئے۔ ایک میز سے دوسرے میز تک فائل لے جانا مشکل ہو گیا۔ رشوت کھلم عام مانگی جانے لگی اور دی جانے لگی۔ آپ کوئی کام سفارش یا رشوت کے بغیر نہیں کرا سکتے بلکہ شاید سفارش کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پلیز اس سے رشوت لے لیجے اور اس کا کام کروا دیجیے۔ اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
ہم جسے تھانہ کلچر کہتے ہیں۔ پہلے شاید یہ کلچر ایسا نہ تھا۔ تھانے اس طرح خوف کی علامت نہ تھی۔ ڈاکٹر مبشر حسن ہمارے لیفٹ کے بہت اچھے دانشور تھے۔ وہ کہا کرتے تھے جب انگریز کی حکومت میں انگریزی فوج اور سول حکومت میں تنازعہ پیدا ہوا کہ کون برتر ہے تو طے ہوا کہ وائسرائے کی قیادت میں سول سروس برتر ہو گی۔ وہ کہتے مجھے یہ جسے تم اقتدار اعلیٰ sovereigntyکہتے ہو اس کا مطلب تو پولیس ہی ہے۔ گویا پولیس کے پاس پہنچنے کا مطلب تھا کہ آپ ریاست کے تحفظ میں آ گئے ہیں۔
کیا اب ایسا ہے اور چھوڑیے کیا، پہلے پٹواری کلچر یہ تھا جو اب ہے۔ ہم نے سارا ڈھانچہ ہی پلٹ کر دیا۔ آنے والوں نے کہا ہم اس کلچر کو اوپر سے درست کریں گے۔ سب سے پہلے ہم پولیس کو آزاد کریں گے۔ وہ اس طرح کہ اسے سیاسی دبائو سے آزاد کریں گے۔ دعویٰ کیا۔ ہم نے خیبر پختونخواہ میں یہ کر دکھایا تھا۔ آئی جی آزاد و خود مختار تھا۔ اس پر کوئی دبائو نہ تھا۔ وہ اپنے افسروں کے تبادلے اور ان کی تقرریاں کرنے میں آزاد تھا۔ کوئی سیاست دان مداخلت نہیں کرتا تھا۔
خدا جانے یہ بات کس قدر درست تھی مگر جب پنجاب کی باری آئی تو سب قلعی ایک ماہ میں کھل گئی جب آئی جی کا تبادلہ کیا گیا اور اس مشیر نے استعفیٰ دے دیا جسے خیبر پختونخواہ سے اس کی نگرانی کے لئے لایا گیا تھا۔ جانے ہم نے پنجاب میں کتنے چیف سیکرٹری اور آئی جی بدلے ہیں۔ پانچ سات تو یقینی ہیں۔ ڈیرہ غازی خاں جو وزیر اعلیٰ پنجاب کا علاقہ ہے وہاں دس کمشنر بدل ڈالے۔ مری جہاں حال ہی میں ایک بڑا سانحہ ہوا ہے وہاں سات اسسٹنٹ کمشنر تبدیل کر دیے اور سیاسی مداخلت کسے کہتے ہیں۔ ایسے میں کرپشن راج نہیں کرے گی تو کیا گڈ گورننس کا راج ہو گا۔
یہ تو ایک پہلو ہے۔ اس ملک میں کرپشن میں اضافے کی ہزار مثالیں دی جا رہی ہیں۔ ہم نے سسٹم تباہ کر ڈالا۔ اس حکومت سے صرف اتنی شکایت ہے کہ اس نے اصلاح احوال کا اعلان کیا تھا، اس نے ایسے اقدام کئے کہ مزید خرابی پیدا ہو گئی۔