Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ghabrayen Ya Chakrayen

Ghabrayen Ya Chakrayen

پہلے تو کہتے نہیں گھبرانا نہیں، اب لگتا ہے درست مشورہ یہ ہے کہ چکرانا نہیں۔ معاملات کچھ ایسے ہیں کہ آدمی چکرا کر رہ جاتا ہے۔ کوئی ایک محاذ ہو تو آدمی اس پر اپنی توجہ مرکوز کر کے ساری توانائیاں لگا دے، یہاں تو لگتا ہے کہ ایک سے ایک بڑھ کر محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ اس وقت جب میں سطریں لکھنے بیٹھا ہوں، وزیر اعظم پاکستان ٹیلیویژن پر قوم سے ہم کلام ہیں۔ چند لمحے پہلے کراچی سے سندھ کے ایک وزیر بتا رہے تھے کہ سندھ کو دوبارہ لسانی تصادم کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وہاں ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی اور سندھ والوں کے مسائل بھی کئی طرح کے ہیں جب وہ کہتے ہیں تم اپنے بلدیاتی قانون کے خلاف کیوں بول رہے ہو، کیا عوام کی توجہ مہنگائی سے ہٹانا چاہتے ہو، اس بات سے ہٹانا چاہتے ہو کہ سندھ کو اس کے حصے کی گیس اور بجلی نہیں مل رہی جس سے اس کی صنعتوں کا پہیہ رک رک جاتا ہے۔ یہ سب تم وفاق کی بی ٹیم کے طور پر کر رہے ہو تاکہ توجہ ان مسائل سے ہٹ جائے۔

یہ صرف سندھ کا مسئلہ نہیں، پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ کراچی کو ایک زمانے میں منی پاکستان کہا جاتا تھا، لگتا ہو نا ہو کم از کم مسائل کے لحاظ سے کراچی منی پاکستان ہے۔ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے، وہ اپنے اپنے انداز میں پورے ملک میں ہو رہا ہے۔

یہ درست بات ہے کہ یہ معاملے صوبائی نہیں، وفاقی ہیں، کیونکہ اس سے آپ کو آئینی ڈھانچے میں چند تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ جی ہاں!نئے صوبے کو سینٹ میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دینا ہو گی۔ یعنی اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنتا ہے، چلئے دو صوبے نہ سہی صرف ایک بنتا ہے تو اس صوبے کو سینٹ میں جو نشستیں ملیں گی اس سے دوسرے صوبے والے سوچ سکتے ہیں کہ اس تقسیم نے پنجاب کی نشستیں دوگنی کر دیں۔ آج تک اسی خاطر آپ گلگت بلتستان کو پوری طرح صوبہ نہیں بنا سکے اور شاید قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور اسے الگ صوبہ نہ بنانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی۔

گتھی سلجھتی نہیں، اور الجھتی جا رہی ہے۔ آئین کی تبدیلی کی بات چلی ہے تو یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیوں نہ پاکستان کو پارلیمانی جمہوریت سے نکال کر یہاں صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے۔ اس پر اتنی شد و مد سے بحث جاری ہے کہ کسی نے اسمبلی میں آئین کے پارلیمانی کردار پر قرار دادبھی جمع کرا دی ہے۔ ان سب باتوں کے درمیان یہ عجیب بات ہے کہ یہ بحث بھی شروع کر دی گئی ہے کہ تقریباً دس گیارہ ماہ بعد ہمارے آرمی چیف کون ہوں گے۔ یہ بحث کس نے شروع کرائی، کیوں کرائی اور ساتھ ہی کیا کیا شوشے چھوڑے گئے وہ سب پریشان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔

ان سب باتوں کے علی الرغم اب بھی بنیادی بات یہ ہے کہ لوگ مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ ابھی میں نے وزیر اعظم کی گفتگو کے جو پہلے دو تین سوال سنے ہے، اس میں لگتا ہے پوری قوم اب یہی کہہ رہی ہے۔ حکومت اس وقت سب سے زیادہ زور بھی اس بات پر دے رہی ہے کہ کون کہتا ہے ہمارے ہاں مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ ایک تو ہم بہت سوں سے بہتر ہیں، پھر یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ساری دنیا میں مہنگائی ہے، عوام یہ بات سمجھتے کیوں نہیں۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں عوام کیوں سمجھتے نہیں تاہم یہ طے ہے کہ حکومت یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ اس کی معیشت اچھی ہو رہی ہے اور اس کے فیوض و برکات عوام تک پہنچ رہے ہیں اور جلد وہ گھبرانا بھی چھوڑ دیں گے۔

حکومت نے تو ہمارے نئے ذہین و فطین وزیر خزانہ کی آمد کے بعد سے یہ تاثر دینا شروع کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں بہت ترقی ہو رہی ہے۔ اب شرح نمو بھی خاصی اچھی بتائی جا رہی ہے جو چند روز پہلے تک کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ چند روز پہلے کے اندازے بھی نئے تھے۔ اچانک بتایا گیا تھا کہ ہم چار فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کریں گے جو اگرچہ کچھ بھی نہ تھا مگر ایک فیصد دو فیصد کے اندازوں سے بہت زیادہ تھا۔ اس پر بڑی لے دے ہوئی، مگر اب تو پتا چلا ہے کہ ہم 5.37فیصد سے ترقی کر رہے ہیں جو اگرچہ پرانی حکومت کی 5.79فیصد سے اب بھی کم ہے مگر پھر بھی حیران کر دینے والی ہے۔ کیا کریں عوام کو اس کا یقین نہیں آتا۔

سچ پوچھئے کہ عوام کو اس بات پر بھی یقیننہیں آتا کہ اگر اس حکومت کو چلتا کیا جائے تو کوئی اس کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ اپوزیشن کی پارٹیاں بھی کہتی سنائی دیتی ہیں کہ اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا کیا فائدہ، جو آئے گا وہ مسائل تو حل نہ کر پائے گا کہ حکومت نے اپنی نااہلی سے انہیں اتنا خراب کر دیا ہے۔ ایسے میں کیوں یہ بوجھ اپنے کندھوں پر لیا جائے۔ یوں لگتا ہے سبھی ہاتھ پائوں چھوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ صرف اقتدار کی جنگ ہے۔ ایسے میں ہم سوچا کرتے تھے کہ سیاسی حکومتیں جب اپنی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے ملک کا کباڑہ کر بیٹھتی ہیں تو محب وطن اسٹیبلشمنٹ ریاست کے مفادمیں دخل اندازی کر کے معاملات کو بگڑنے سے بچا لیتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو مسائل کا حل سمجھنے کے بجائے اس کا سبب کہا جا رہا ہے۔

معلوم نہیں کون سا بیانیہ درست ہے مگر یہ معلوم ہے کہ ہم بالکل چکرائے ہوئے ہیں۔ ہم مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہیں۔ یہ لفظ بھی مفہوم ادا نہیں کرتا شاید اس سے بھی کوئی آگے کی بات ہے۔ مثال کے طور پر پہلے بحث ہوتی تھی کہ صوبوں کو آزادی سے فیصلے کرنے کی اجازت دی جائے تو معاملات طے ہو جائیں گے، اب معلوم ہوا، ایسا بھی نہیں ہے۔ صوبے خدا بن بیٹھے ہیں۔ انہیں اپنے سے نیچے اختیارات کی جو تقسیم کرنا تھی وہ اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نئے صوبوں کی بات ہونے لگی ہے۔ ایک زمانے میں پاکستان کو بارہ یا پندرہ صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات ہوتی تھی تو اس پر غور ہوتا تھا، اب ایسی کسی بات سے خوف آتا ہے۔ تقسیم در تقسیم کر کے آپ ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ گویا پھر مضبوط مرکز کی بات شروع ہو جاتی ہے۔

مگر سو باتوں کی ایک بات یہ کہ اس وقت عوام مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ دوسری سطح پر بعض لوگوں کو ملک کی سلامتی بھی خطرے میں لگتی ہے۔ یہ جو نئی سلامتی پالیسی آئی ہے ہم اسے سنجیدگی سے نہیں پرکھ رہے، اس میں بعض شقیں ایسی ہیں جن پر غور ہونا چاہیے بالخصوص بھارت کے حوالے سے۔ کل ہی ایک جنرل سطح کے افسر سے ملاقات ہوئی، وہ بعض باتوں کی نشاندہی کر رہے تھے جن پر مری نظر بھی نہ گئی تھی۔ بتائیے کدھر کدھر نظر رکھیں۔ چکرا جانا اسے ہی تو کہتے ہیں۔

خدا سے یکسوئی کی دعا مانگیں۔ کم از کم ہم ترجیحات تو طے کر سکیں۔ ویسے فوری مسئلہ یہی ہے کہ مہنگائی بہت ہے اور بنیادی بات یہ ہے کہ ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے۔