سب سے پہلے تو مجھے یہ کہنے دیجیے کہ یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے۔ رائے کیا ہے یہ میں بعد میں بتاتا ہوں، مگر محولابالا بیان میں نے اس لئے داغا ہے کہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ میں اس وقت یہ بات ابھی ٹپ نہیں کہہ رہا، بلکہ اس پر میں نے اچھی طرح غور کیا ہے۔
اور وہ بات یہ ہے کہ ہم قانون سازی کے اہل ہی نہیں ہیں۔ جو قانون انگریز ہمیں بنا کر دے گیا۔ بس وہ ہی غنیمت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہم عمومی طور پر قانون سازی اور دستور سازی کے کرب میں مبتلا رہے۔ تاریخی حوالوں سے تجزیہ مقصود نہیں ہے، مگر اس وقت مجھے یہ خیال اس وقت آیا جب میں نے اپنے وزیر قانون فروغ نسیم کو ٹی وی پر گفتگو کرتے دیکھا۔ جی ہاں، دیکھا ہی دیکھا۔ سنا اس لئے نہیں کہ شایدمجھے اس بات پر اعتبار ہی نہیں کہ وہ کوئی قانون بنا سکتے ہیں۔
یہ کوئی موجودہ حکومت کا معاملہ نہیں ہے جب بھی کسی قانونی پہلو پر ہمارے اٹارنی جنرل بولتے ہیں تو اس میں ضرور کوئی قانونی نکتہ ہوتا ہے۔ یہ والے اٹارنی جنرل ہی نہیں، اس سے پہلے والے بھی۔ مگر جب وزارت قانون سے جب اپنی طرف سے قانونی موشگافیاں جھاڑی جاتی ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ یہ تو شہزاد اکبر سے بھی گزرے ہوئے لوگ ہیں۔ اپنی ہرخواہش کو قانون بنا دیتے ہیں۔
یہ نہیں کہ اس ملک میں قانون دان نہیں ہوئے، آخر یہ ملک جس قائد اعظم کی کوششوں سے بنا وہ بنیادی طور پر ایک قانون دان ہی تو تھے۔ گئے گزرے دور میں جب ہمارے آمروں کو قانون کا سہارا لینا پڑتا تھا تو ان کی ہر دور میں خدمت کے لئے جو شریف الدین پیرزادہ ہوا کرتے تھے، ان کی قانونی بصیرت پر کسی کو شک نہیں ہوتا تھا، بس یہ گمان گزرتا تھا کہ وہ قانون سازی میں آمریت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ مگر وہ یہ بات قانون کے اندر رہ کر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
اب مگر جو وزیر قانون ہیں وہ شریف الدین پیرزادہ بھی نہیں۔ ہمارے آمروں کو اے کے بروہی، منظور قادر جیسے قانون دانوں کی معاونت بھی میسر رہی ہے، مگر اب معاملہ یہ ہے کہ جناب فروغ نسیم الطاف حسین کے بھی وکیل رہے ہیں اور پرویز مشرف کے بھی، حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ وہ استعفیٰ دے کر اپنے ہی کئے اقدامات کا تدارک بن بیٹھے۔ پھر انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جو ریفرنس پیش کیا تھا، اس کے دفاع میں بھی دوبارہ مستعفی ہو کر عدالت میں آن کھڑے ہوئے۔ کوئی قانون نہیں ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کر سکوں وگرنہ ہونا چاہیے تھا۔
آج انہوں نے آرڈیننس کے جواز میں جو دلائل دیے ہیں، وہ سب قابل غور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کسی نے آرڈیننس پاس نہیں کرائے۔ آرڈیننس کے غیر جمہوری ہونے کی گفتگو نہیں۔ بلکہ گفتگو یہ ہے کہ کسی جمہوری معاشرے میں آرڈیننس نافذ کرنے کا عمل کیا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ بھی اہم نہیں کہ کسی قانون کو "قانونی" طور پر پاس کرا لیا گیا۔ یہ قانونی کا لفظ میں نے کوموں میں درج کیا ہے۔ بلکہ کس طرح پاس کرایا ہے اور آیا یہ قانون قوم کی تمنائوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ بات ہمیں ہماری فقہ کے اولین اماموں نے سکھائی۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒکی فکری عظمت سے کون واقف نہیں مگر انہوں نے یہ اصول متعارف کرائے کہ وقت کے عظیم المرتبت فقہا کی مجلس منعقد کرتے جس میں کسی مسئلے پر بحث ہوتی اور آخر میں ایک فیصلہ سامنے آتا جو نافذ العمل ہوتا۔ یہ نہیں کہ یہ حرف آخر ہوتا۔ ان کے بعد ان کے دو معتبر ترین شاگردوں کی رائے اگر ان سے مختلف ہوتی تو اس رائے کو ترجیح دی جاتی جو ان تین میں سے کسی دو کی ہوتی، چاہے یہ رائے امام اعظم کے خلاف ہے۔
جب عباسی خلیفہ نے امام مالکؒؒ سے کہا کہ آئیے آپ کی فقہ نافذ کئے دیتے ہیں تو انہوں نے اس خیال سے کہ فقہ وہی چلتی ہے جسے عوام تسلیم کریں، صاف کہہ دیا، کہ ہر علاقے کا اپنا امام ہوتا ہے اور لوگ اس کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ جب امام اعظمؒ کے شاگرد امام ابو یوسفؒ نے قاضی القفاۃ کا عہدہ سنبھالا تو فقہ حنفی عباسی سلطنت کی فقہ بن گئی۔ پھر یہی فقہ خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت کی فقہ بھی رہی، اس لئے اسے عوامی مقبولیت کی وجہ سے مقبولیت حاصل رہی۔
آپ اپنے بند کمروں میں بیٹھ کر قانون پاس کرتے رہیں اور آنکھ جھپکتے ہی اسے پاس کر دیں تو یہ قانون نہیں ہوا کرتا۔ ایک وقت آئے گا کہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔ معلوم نہیں جعلی خبروں کے نام پر وزیر قانون نے کون سا آرڈیننس ایجاد کیا ہے، تاہم یہ علم ہے کہ اور کون کون قانون اب میرے ملک کا قانون ہیں۔ چلئے سٹیٹ بنک کی نام نہاد خود مختاری کے نام پر جو قانون پاس کیا ہے، وہ آئی ایم ایف کی شرائط میں تھا مگر اوگرا کی خود مختاری سے آئی ایم ایف کی کیا ضرورت پوری ہونا ہے، اس پر بات ہونا چاہیے۔
لگتا ہے سب کچھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت بھی۔ معلوم نہیں کہ اس ملک پر کس کی حکومت ہو گی۔ کیا یہ قوم اس پر تیار ہو گی۔ میں نے ازراہ احتیاط قوم کا لفظ استعمال کیا ہے، عوام کا نہیں۔ ویسے قومی مفاد اور عوام کے نام پر اس ملک میں کیا کیا گناہ سرزد ہوئے ہیں، اب ان کا کوئی شمار نہیں۔
میں نے شروع میں کہا تھا کہ شاید ہم قانون سازی کے اہل نہیں۔ قانون بنا لیتے ہیں، پھر خیال آتا ہے ہم سے کوتاہیاں ہو گئی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم اس وقت مقدس ترین اور متنازعہ ترین دستاویز ہے۔ اس کویہ دونوں اعزاز حاصل ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ ایک کمپرومائز دستاویز تھے۔ اس پر ملک کے بہترین دماغوں نے کام کیا مگر پارلیمنٹ کے باہر۔ ہر پارٹی کو نمائندگی تھی چاہے اس کا پارلیمنٹ میں ایک نمائندہ ہو یا ساٹھ نمائندے ہوں۔ انہوں نے آپس میں طے کر لیا پھر بغیر بجٹ کے یہ بل اس طرح پارلیمنٹ میں پاس ہو گیا کہ گویا بلڈوز کر دیا گیا۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر انگریز تعزیرات پاکستان کے نام پر قانون کا ایک پلندہ نہ دے گیا ہوتا تو ہم کیا کرتے۔ یہ نہیں کہ ہم میں صلاحیت نہ تھی۔ خلافت عثمانیہ کی صلاحیتوں کا تو تذکرہ کیا ہمارے ہاں بھی آخری دور میں فتاویٰ عالمگیری تیار کیا گیا تھا۔ کیسے تیار کیا گیا تھا کہ اس میں ہندوستان کے بہترین دماغوں نے کام کیا تھا۔ ہم کہا کرتے ہیں، یہ سب کے سامنے ہے۔
ایک وزارت میں بیٹھے چند لوگ کسی ایک بقراط کی رائے کا احترام کرتے ہوئے جو چاہتی ہے گھسیٹ دیتی ہے۔ پھر وہ 22کروڑ عوام کا قانون بن جاتا ہے۔ اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا پارلیمنٹ نہ عدلیہ نہ کوئی اور۔ یہ کسی کی خواہشوں کی تکمیل تو ہو گی مگر اس قوم کے جینئس کا ترجمان نہیں ہو گا اس لئے شاید قوم کے لئے مفیدبھی نہیں۔
دل کرتا ہے کسی دن اب تک بنائے گئے سب قوانین، سب ترمیموں کا تجزیہ کروں کہ کیسے بنے اور ان میں کیا خرابیاں بعد میں ظاہر ہوئیں۔ اس وقت مگر اتنا ہی۔