اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا، مگر کیا کریں کہ آج کل زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے۔ بعض ایسے معاملات پر بات کرنے کو جی مچل رہا ہے جن کا اظہار اور جن پر غور و فکر پر تہذیب انسانی کے مستقبل کا انحصار ہے۔ پر کیا کریں ڈر لگتا ہے کہ اگر جی کو مار کر ان اہم تفصیلی موضوعات کا ذکر کر بھی دیا تو کوئی اس پر غور تو کیا کرے گا، انہیں سرسری دیکھ کر چھوڑ دے گا۔ میرے خیال میں اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی بقا کے معاملات کو بھولے ہوئے ہیں، ہمیں صبح شام کے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے۔
ابھی میں جامعہ نعیمیہ کے سالانہ اجتماع سے آ رہا ہوں۔ وہاں شہباز شریف کو آنا تھا مگر ظاہر ہے آج کے حالات میں کیسے آتے۔ تاہم انہوں نے حمزہ شہباز کو ہدایت کی کہ وہ یہاں حاضری دیں۔ اس خانوادے کا تعلق اس درسگاہ سے تین نسلوں کا ہے۔ میاں محمد شریف اور ان کا خاندان جب گڑھی شاہو میں رہتے تھے تو اس جامعہ کے بانی حضرت مفتی محمد حسین نعیمی نے اس درسگاہ کی بنیادرکھی تھی۔ ان کے بعد حضرت سرفراز نعیمی اور اب علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی اس چراغ کو روشن کئے ہوئے ہیں۔ شریف خاندان نے بھی اس دور سے اس درسگاہ سے اپنی وضعداری نبھائی ہے۔ یہاں میاں نواز شریف بھی تشریف لاتے رہے اور یہ درسگاہ بھی ہمیشہ انہیں یاد رکھتی ہے۔
ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں رہا کہ ہم ان علمی روایات کا تذکرہ کریں جو ایسی درسگاہوں کی طفیل ہم تک پہنچی۔ میں نے عرض کیا کہ آج شام و سحر کے ہنگامے ہی چین نہیں لینے دیتے۔ اسٹیج پر حمزہ شہباز سے بھی جو دوچار لفظوں میں بات ہوئی وہ اس ملکی صورت حال کے بارے میں تھی تاہم خوشی ہوئی کہ یہاں اس عظیم علمی اور فکری روایت کا ذکر ہوا جو نسل درنسل ہم تک پہنچی ہے۔ اس روایت کو ہم کئی نام دیتے ہیں۔ عام طور پر اسے بریلویت کہا جاتا ہے۔ نعیمی روایت گویا اسی کی ایک شاخ ہے۔ تاہم اس بات کا بار بار ذکر ہوا اور میں نے بھی کیا کہ دراصل یہ برصغیر میں خیر آبادی روایت کا تسلسل ہے۔
مولانا فضل الحقخیر آبادی کو ہم بھول چکے ہیں۔ جی ہاں بھول چکے ہیں زیادہ سے زیادہ غالب کے حوالے سے ان کا تذکرہ آتا ہے یہ وہ شخص تھا جو امام المتکلمین کہلایا۔ گویا ہمارے فلسفے کا سب سے بڑا آدمی۔ یوں کہہ لیجیے برصغیر کی اسلامی فکر کا برٹنڈرسل۔ جی جو برطانیہ میں اس فلسفی کو اہمیت ہے ہمارے ہاں وہی اہمیت اس مرد مجاہد کو تھی۔ بعدمیں آنے والے متکلمین کے سارے سلسلے بھی دینی فلسفوں کے سارے شجرے انہی سے ملتے ہیں۔ ہم نے اپنے زمانے میں کراچی میں مولانا ایوب دہلوی کا تذکرہ سنا۔ معلوم ہوا کہ ان کا سلسلہ بھی ان سے ملتا ہے کہنا یہ ہے کہ عقل و فکر سے عاری نہ تھے۔ اس کے امام تھے۔
اس علمی مقام و مرتبہ کے ساتھ انہیں جو اعزاز ملا وہ یہ تھا کہ وہ سرزمین کے انگریز کے خلاف مجاہد اول بنے۔ انہیں جہاد کا فتویٰ دینے کی پاداش میں کالا پانی کی سزا ہوئی اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا۔ بعد میں انگریزکے خلاف جہاد کی ایک تاریخ گھڑی گئی مگر اصل مجاہد کو ہم بھولتے گئے۔
میں دو باتیں کہا کرتا ہوں ایک یہ کہ خانوادہ شاہ ولی اللہ سے تین افراد نے اپنی اپنی طرح سے فیض پایا۔ ایک سرسید، دوسرے قاسم نانوتوی اور تیسرے فضل الحق خیر آبادی۔ ایک عقل کی علامت، دوسرے علم کی علامت اور تیسرے عشق کی علامت اور دوسری بات یہ عرض کرتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ کی میں صرف اس میراث کا پیرو کار ہوں جو ان کے جانشین شاہ عبدالعزیز اور ان کے بعد ان کے جانشین شاہ اسحق نے راسخ کی۔ اللہ اللہ خیر صلاجب اسی خانوادے کے ایک فرد شاہ اسماعیل نے ذرا انحرافی راہ اختیار کی تو ان کو ٹونکنے والا جو پہلا شخص تھا وہ یہی امام المتکلمین اور قائد انقلاب فضل الحق خیر آبادی ہی تھے۔ قاسم نانوتوی نےان کی تائید کی اور اس طرح ہمارے ہاں فکری سطح پر دو گروہ پیدا ہوئے۔
امام احمد رضا خاں قادری بریلوی اور حضرت نعیم الدین مراد آبادی اسی فکر کا تسلسل تھاایک نقطہ معترضہ یہ نہ سمجھا جائے میں ان سب کو ایک ہی نسبت سے جوڑ رہا ہوں۔ فضل الحق خیر آبادی کا علم کلام میں اپنا سلسلہ تھا جو اپنے والد فضل امام سے ہوتا ہوا آگے جاتا تھا۔ اس طرح باقی بعد کے اماموں کے بھی اپنے اپنے فیض کے سلسلے تھے۔ برصغیر میں ویسے بھی علوم کے کئی سرچشمے تھے۔ دلی میں یہ خاندان تھا تو اس کے ساتھ اور بہت سی شمعیں بھی روشن تھیں۔
شاہ فخر الدین جنہوں نے شاہ عبدالعزیز کی دستار بندی کی اور جن کا روحانی فیض پنجاب میں مہار شریف، تونسہ شریف، سیال شریف سے ہوتا ہوا جانے کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک طرف روحانی نشستیں ہوتی تھیں تو دوسری طرف علمی شخصیتیں سب کے لئے مشترک تھیں۔ پیر مہر علی شاہ گولڑوی ایک طرف اس سلسلے سے اور اپنے خاندانی سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف دین کا علم حاصل کرنے لطف اللہ علی گڑھی کے حضور جا پہنچے۔ پھر سند کو مزید بہتر کرنے کے لئے احمد علی سہارن پوری کی دہلیز تک پہنچے۔ خانہ خدا میں حاضری ہوئی تو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اپنے فیض سے نوازنے کو سعادت سمجھا۔ یہ بہت علمی فکری اور روحانی روایت ہے۔
میں نے وہاں بھی عرض کیا تھا کہ اس روایت کا معتدل پہلو ہی نعیمی فکر ہے۔ یہاں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا۔ یہ علم کی روایت تو ہے فکری بلوغت کی علامت بھی ہے اور اس کے ساتھ اعتدال کی ایسی علامت کہ اس زمانے میں بھی اس خاندان کو دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے پر شہادت ملی۔ میں الحمداللہ پاکستان میں دینی طور پر سب روایات کا خوشہ چین ہوں۔ الگ الگ ذکر کر کے خلط بحث نہیں کرنا چاہتا تاہم اس روایت عشق، انقلاب و اعتدال کا تو خوشہ چین ہوں۔ اس کے اعلان میں کبھی بخل نہیں کرتا۔ اچھا آپ یہ نہ سمجھئے کہ میں جن فکری مباحث کا ذکر کر رہا تھا وہ یہ ہی تھے۔ نہیں بھائی وہ تو بہت خطرناک ہیں۔ وقت ملا تو ان کا تذکرہ کروں گا۔ تحریک عدم اعتماد کا کیا ہے، وہ تو اپنا فطری رخ اختیار کر ہی رہی ہے۔