ڈر لگتا تھا کہیں اس بات پر اس کی پکڑ نہ ہو جائے۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو۔ وہ ہمارا ہیرو تھا، اس نسل کا ہیرو تھا، وہ دنیا کا سب سے بڑا سپورٹسمین گنا گیا اور عالم اسلام تو اس کے ذکر سے پھولے نہ سماتا تھا۔ اس کی کتاب شائع ہوئی تو نئی نسل میں خاص طور پر اتنی مقبول ہوئی کہ اس زمانے میں کم از کم ہر پڑھنے لکھنے والا طالب علم اس کا مطالعہ ناگزیر سمجھتا تھا۔ محمد علی کلے ایک زندہ لیجنڈ تھا، ایک رول ماڈل بن گیا تھا۔ اس نے باکسنگ کا ورلڈ ٹائٹل جیت کر اسلام قبول کر لیا تھا، ویت نام کی جنگ میں شرکت سے انکار کر کے امریکیوں کی ناراضی تو قبول کی اور جیل کاٹی، سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے کھل کر آواز اٹھائی، اصل میں یہ اسلام کے عظمت کے گیت تھے۔ اس کا ٹائٹل چھین لیا گیا، اس نے دوبارہ جیتا، سہ بارہ جیتا، دشمن کو للکارتا، رقص میں جھوم کر کہتا، مجھے پکڑ سکتے ہو تو پکڑ لو، مجھے چھو سکتے ہو تو چھو لو۔ ایسے لگتا کہ کفر کو للکار رہا ہے اور اس کے اس دلکش انداز نے اسے اسلام کا گویا مبلغ بنا دیا تھا۔ وہ اکھاڑے میں اترتا تو مقابل کو بے بس کر دیتا۔
پھر دل کیسے کرتا کہ اس کی پکڑ ہو۔ مگر یہ خیال کیوں آتا تھا۔ میرا مطلب ہے مرے دل میں کیوں آتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کی کتاب کا نام بھی للکارنے والا تھا۔ The greatest عظیم ترین، بس جانے کیوں دل میں یہ خیال آنے لگا کہ یہ کہیں خدا کی کبریائی کو چیلنج نہ سمجھا جائے۔ ان دنوں بھی یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی تھی کہ خدا سب کچھ برداشت کر لیتا ہے۔ کبر برداشت نہیں کرتا، کبریائی صرف ذات خدا وندی کو زیبا ہے۔ میں دعاکرتا تھا کہ کم از کم اسلام اور انسانیت کے صدقے اس کی کوتاہی معاف کر دی جائے۔ پھر اس کی بیماری کی خبریں آنے لگیں۔ اپنی پھرتی اور طاقت کے زور پر دشمن کو بے بس کر دینے والا خود ایسا لاچار ہو گیا کہ ہاتھ اور پائوں کو آزادتیز رفتار جنبش دینا اس کے لیے ممکن نہ رہا۔ ان دنوں جب اس کی کوئی ایسی تصویر آتی تو دل میں اک ٹیس بھی اٹھتی اور ذہن میں ایک خوف بھی۔ یہ دعا بھی نکلتی اے خدا اپنے اس بندے کا ہر گناہ معاف کر دے۔ دیکھو اس نے تیرے دین کی خدمت تو کی ہے۔
میرا یہ عقیدہ جانے کب سے میرے اندر پیدا ہوا ہے، مگر اتنا جانتا ہوں کہ اس واقعے سے اس میں بڑی پختگی آئی۔ ہمیشہ سوچتا ہوں خدا جب اپنے ایسے قیمتی بندے کا یہ شرک برداشت نہیں کر سکتا اگرچہ اس نے اس کے دین اور انسانیت کی بڑی خدمت کی ہو تو ہم جیسے عام انسانوں کو اس بارے میں ڈر کر رہنا چاہئے۔ اس کی تو یہ نیت بھی نہ ہو گی۔ بس انداز ہوگا۔ آج صبح سے میں بہت اداس ہوں۔ اتنا اداس کہ اس واقعہ کا ذکر کر رہا ہوں جسے کبھی لب پر نہیں لایا تھا، اس لیے کہ محمد علی میرا ہیرو تھا، مجھے اس سے پیار تھا۔ آج میں اداس اس لیے ہوں کہ میری قوم کے اندر ایسے رجحان ابھر رہے ہیں جنہیں نہ روکا گیا تو بس یوں سمجھیے قیامت آ جائے گی۔ فقرے بازی کوئی بڑی اور قابل فخر بات نہیں ہوتی، مگر اسے اس حد تک لے جانا کہ اخلاقیات کے تمام تقاضے چکنا چور ہو جائیں، تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر بہت خراب ہوتا جا رہا ہے، مگر اب تو حد ہو گئی ہے ایسے ٹھٹھا اڑانا، کبر اور اکڑ فوں کے ساتھ فقرے کسنا، وہ بھی کسی کی بیماری کا مذاق اڑانا اور وہ بھی اس انداز میں جیسے بیمار صرف مخالفوں نے ہونا ہے۔ دیکھئے ہمیں اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہئے۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
جب بھی ہمارے ہاں سیاست نئی کڑوٹ بدلتی ہے، ہمارے اندر کی نئی خرابیاں ابھر کر سامنے آنے لگتی ہیں۔ وقت نے سکھایا ہے کہ جلد ہی قوم کا اجتماعی ضمیران پر قابو پا لیتا ہے۔ میری نسل نے کئی سیاسی قوتوں کو ابھرتا دیکھا ہے۔ پیپلزپارٹی سے لے کر ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی۔ ہر بار ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ سمجھا جاتا ہے کہ کلچر تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ پھر اللہ مدد کرتا ہے اور سیلاب تھم جاتا ہے۔ یہی خیال تھا کہ اس بار بھی جو نیا طوفان آیا ہے، یہ رک جائے گا۔ پہلے تو زیادہ سے زیادہ یہ شکایت ہوتی کہ معاشرے کے وہ طبقے قوت پکڑ رہے ہیں جو طیب و طاہر نہیں گنے جاتے تھے۔ اس بار زبانیں یوں بگڑنے لگی تھیں کہ شکایت پیدا ہونے لگی تھی کہ سارا سماج، ثقافت اور اخلاق تباہ ہو جائے گا اور کہیں یہ قومی بافت کا تیا پانچہ نہ کر دے مگر اب ڈر آنے لگا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں ملک میں کچھ عجیب ہو رہا ہے مگر آج صبح ایک طرف تو بیمار کا طیارہ ہزار رکاوٹوں سے گزر کر اڑان بھر رہا تھا، دوسری طرف ایک صوبائی وزیر کا لڑتا جھگڑتا، بداخلاقی اور کبر سے بھرا ہوا بیان سامنے آنے لگا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ قطعاً سیاست کی بات نہیں ہے۔ سیاست میں تو قدرے ٹھہرائو کی امید کی جا رہی تھی، معیشت سنبھلے نہ سنبھلے یوں لگتا تھا سیاست سنبھل جائے گی۔ یکا یک وزیر اعظم کے بیان نے پریشان کر دیا چونکہ بے شمار افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ ایسی افواہیں جن کا اس سے پہلے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں کوئی تصور نہ تھا۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نے دو دن کی چھٹی لی تو سوشل میڈیا پر ان افواہوں نے خبروں کی شکل اختیار کر لی۔ سمجھا گیا کہ وزیر اعظم کے اعصاب پر ذرا زیادہ بوجھ آ گیا ہے۔ یہ بھی توقع کی جا رہی تھی کہ اس دبائو کا اثر سبھی با اثر طبقوں پر پڑ رہا ہے، اس لیے امکان ہے معاملات سنبھل جائیں گے۔ اسے فوری ردعمل سمجھئے اور ملک کی بہتری کے لیے دعا کیجئے۔ ہر طرف سے آواز اٹھنے لگی، بند کرو فقرے بازی، مخالفوں کو گالیاں دینے کا سلسلہ ختم کرو، ملک کی فکر کرو! ملک اخلاق باختگی برداشت نہیں کر سکتا، نظام حکومت شائستگی مانگتا ہے اور سلیقہ شعاری بھی۔ مسئلہ گورننس کا ہے۔ اسے ٹھیک کرو، ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ نے ایک ہی دن میں رنگ بدلا تو یوں لگا، ملک میں ٹھہرائو آ جائے گا۔ سٹاک مارکیٹ بھی بہتر ہونے لگی۔ شاید خدا کو ہم پر ترس آ گیا ہے۔ ہم نے بھی اپنے لچھن ٹھیک کر لیے ہیں۔ اب یہ بیمار کا طیارہ ملک کی فضائوں سے باہر نکل جائے گا تو گویا اور بہتری آئے گی، مگر یہ تو حد ہو گئی۔ کیوں اپنے گناہوں کا عذاب پوری قوم کو دلانے پر تلے بیٹھے ہو۔ ہر پارٹی، ہر لیڈر اور ہر طرز حکمرانی کا انداز واضح ہے۔ خدا کے لیے اپنی پکڑ خود ہی کر لیجئے، کہیں خدا کی طرف سے پکڑ میں پوری قوم نہ آ جائے۔ ان دنوں ہونے والی گفتگو کا اگر الگ الگ سے تجزیہ کیا جائے، اپنی اپنی ادائوں پر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے ہم خاکم بدہن قہر الٰہی کی زد میں آنے والے ہیں۔ معاشرت تباہ ہو گئی، سیاست کو گھن کھا گیا، معیشت کو حالات نے نگل لیا، ہم کب تک بے بسی سے یہ سب دیکھتے رہیں گے۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ غصہ تو اس قدر آیا ہوا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ بخیے ادھیڑوں، مجھے یقین ہے کہ قدرت اس حد تک چھوٹ نہیں دیا کرتی۔ یہ تو وہ حد ہے کہ جب سب نیکیاں غارت ہو جاتی ہیں۔ ہم نے اس سیاسی پراسس میں قوموں کا کلچر تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ قوموں کو تباہ ہوتے دیکھا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسی تباہی کو اپنی آنکھوں کے سامنے پھلتا پھولتا دیکھ کر بھی قوم بے بس ہو جاتی ہے۔ ذرا امریکی اخباروں کو دیکھئے، کیسے رو رہے ہیں کہ امریکہ کو کیسے اپنی قیادت کے عذاب سے بچایا جائے۔ پھر ان قوتوں کا ٓذکر کرتے ہیں جو انہیں تباہی سے بچا رہی ہیں۔ خود ملک کے اندر کی وہ قوتیں جو رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ امریکی جس بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیتے تھے، آج کہہ رہے ہیں کہ یہ واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ امریکہ کو اس بلا سے بچا رہی ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے بھی گماں ہونے لگتا ہے کہ ہم نے ایسی اسٹیبلشمنٹ کو بہت مطعون کہا ہے۔ کبھی بیورو کریسی کو غلط بتایا، کبھی فوج کے جرائم گنوائے، کبھی عدلیہ پر انگلی اٹھائی، ہر ادارے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ آخر کب تک پھر خیال آتا ہے کہ ان میں سے ہی کوئی ادارہ ہماری مدد کو آ جاتا ہے۔ یہ سوچنا گویا یہ کہنا ہے کہ سیاست نے ہمیں تباہ کیا۔ جو قوم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے، ذرا سوچئے یہ اس قوم کے لیے کتنی بڑی سزا ہے۔ امریکہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، جس کو چاہے جب چاہے تباہ کر سکتا ہے، دنیا جائے جہنم میں، ہمیں تو صرف اپنے ملک سے غرض ہے۔ برطانیہ کو بھی یورپ سے الگ ہونے کی جنون سوار ہوا ہے کہ ہم اکیلے جانے کیا کر سکتے ہیں۔ ہر جگہ ایسی ہی کیفیت ہے۔ یہ قوم پرستی کی شکل ہے یا خود پسندی کی۔ خود کو کچھ سمجھنے کی بیماری ہے یا، اپنے آپ کو خدا بنانے کا مرض، بس اتنا یاد رکھئے جو کبر و تکبر میں اس حد تک پہنچ جائے، وہ خود کو تباہ کر لیتا ہے۔ ہم خود سر بھی ہو رہے ہیں اور بد تہذیب بھی، گناہوں سے معافی مانگنے کے سوا کوئی بخشش نہیں ہے۔