Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kab Ki Baat Kab Yaad Aayi

Kab Ki Baat Kab Yaad Aayi

میں جب ٹیلی ویژن پر صبح کا پروگرام بریک فاسٹ ود سجاد میر کیا کرتا تھا۔ تو حالات کے مطابق اپنی آسانی کی کوئی تدبیر اختیار کرتا رہتا تھا۔ میں پروگرام کے ایک حصے میں اسی دن تیرہ چودہ اخبارات میں چھپے کالموں میں سے پانچ چھ کا انتخاب کر کے ان کا خلاصہ بیان کرتا، پھر ان کے بعض نکات پر تبصرہ کرتا۔ یہ کام مجھے خود ہی کرنا ہوتا تھا۔ اس میں کوئی میرا مددگار نہیں ہوتا تھا۔ صبح صبح کم وقت میں اپنے لئے ایک بار میں نے یہ سہولت تیار کی کہ اخبارات کے ان کالموں کا فوٹو سٹیٹ نکال لیا جن پر مجھے گفتگو کرنا ہوتی تھی۔ اس پر نوٹ لکھنے میں آسانی ہوتی تھی۔ آج اچانک مری اہلیہ نے ایک ایسے ہی فوٹو اسٹیٹ کالم کو جانے کہاں سے نکال کر مجھے دیا۔ میں یہ تو اندازہ نہ لگا سکا کہ یہ کالم کب کا ہے تاہم اس میں جس بات کا ذکر ہے وہ ایک اداریے کے سلسلے میں ہے۔ جو برطانیہ کے ممتاز اخبار ٹائمز نے برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے ساٹھ (60) سال پورے ہونے پر لکھا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اداریہ 14 اگست 2007ء کے لگ بھگ کو لکھا گیا ہو گااداریہ نویس نے اس کے حوالے سے بہت سی باتیں نقل کی تھیں۔ موصوف خود یورپ میں ہی رہتے تھے۔ اس لئے ایسی باتوں سے انہیں بھی تکلیف ہوئی ہو گی جس کا اظہار انہوں نے اپنی تحریر میں کر دیا۔ اس میں تکلیف دہ فقرہ یہ تھا کہ اداریہ نویس نے پاکستان کی تخلیق کو ایک بھیانک غلطی قرار دیا تھا۔ ٹائمز اخبار کا جو مائنڈ سیٹ ہے۔ اس کے تناظر میں یہ تجزیہ کوئی حیران کن بات نہیں۔ تاہم اس اداریے میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان کی تشکیل سوائے محمد علی جناح کے، کسی کے لئے بھی کامیابی کی نوید نہ تھی جن کی زندگی کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا خواب تھا۔

ظاہر ہے میں نے اس کالم کے حاشیے پر سفید جگہ پر بہت سے نوٹ بھی لکھ رکھے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میں اس پر خوب بولا ہوں۔ اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہو گی۔ اپنے ہم وطنوں سے کہا ہو گا کہ یہ مغرب کے سامراجی ازل سے ہمارے دشمن چلے آتے ہیں اور ہمارے بارے میں خاص تعصب رکھتے ہیں ایسا ہی کچھ کہا ہو گا۔ چند جوابی دلائل بھی دیئے ہوں گے۔ مرے جیسے ملک کی محبت میں مرے جانے والے اورکرتے بھی کیا ہیں، تاہم بعض باتیں ایسی ہیں جو دشمن بھی کہے تو اس پر ضرور غور کر لینا چاہیے۔ آخر یہ سوال تو ہے کہ ہم ترقی کے دوڑمیں کیوں پیچھے رہ گئے بعض باتیں تو ایسی ہیں جو اہل مغرب کو سمجھ آ ہی نہیں سکتیں اس کے لئے انہیں مجبور سمجھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اداریہ نویس کا یہ کہنا کہ تقسیم ہند سے صرف ایک شخص ہی خوش تھا جس کا نام محمد علی جناح ہے۔ برصغیر کی تاریخ سے ناواقفیت نہیں تو اور کیا ہے، البتہ اس کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ اس شخص کے ذہن میں ایک ہی دھن سمائی ہوئی تھی کہ ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہمارے ہاں کے روشن خیالوں، ترقی پسندوں اور بقراط صفت دانشوروں کے لئے تو یہ نہایت صدمے کی بات ہو گی کہ ہمارے قائد اعظم ایک اسلامی ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے مگر ہمارے لئے یہ ایک گالی ہے تو ہمیں یہ گالی دل و جان سے قبول ہے۔

میں نے عرض کیا کہ ہمیں دشمن کی بھی اچھی باتوں سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ اس کا خیال ہے، اس کا کیا پوری دنیا یہی سمجھتی ہے اور ہمارے ذہنوں میں بھی یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کا جمہوریت سے بار بار بھٹک جاناان سب مصیبتوں کی اصل وجہ ہے یہاں مارشل لاء لگتے رہنا ہے۔ اداریہ نویس نے لکھا کہ بھارت اتنا بڑا ملک ہے اس کی فوج میں ہر نسل، رنگ علاقے کے لوگ ہیں مگر وہاں کبھی فوج نے اقتدار نہیں سنبھالا درمیان میں اس بات کا تذکرہ بھی آیا کہ پاکستان مذہب کے نام پربنا مگر مذہب کا مارشل لاء سے کیا تعلق؟

ایک بڑی دلچسپ بات اس میں اور دیکھی جس کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں اس وقت میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس میں ذکر ہے کہ اس وقت قائد اعظم کے لامحدود اختیارات کا ذکر شروع ہوا تو مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر چودھری خلیق الزماں نے محمد علی جناح کو کرہ ارض کا عظیم ترین رہنما قرار دیتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ کہا کہ ایک اسلامی مملکت کے حاکم اعلیٰ کو لازمی طور پر آمریت اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی طرز حکومت میں آخری فیصلے کا اختیار اسمبلیوں کو سونپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے"

ایک تو کالم نویس نے بھی اس پر تبصرہ کیا ہے اور قائد اعظم کی جمہوریت سے محبت کا حوالہ دیا ہے دوسرے مجھے نہیں معلوم کہ قائد اعظم نے اس زمانے میں کس طرح اور کیسے لامحدود اختیار استعمال کئے۔ وہ بابائے قوم تھے قوم کے رہنما تھے۔ قوم ہر معاملے میں ان سے رجوع کرتی تھی اپنی علالت کی وجہ سے وہ بہت کچھ کر بھی نہ پائے۔ جانے پھر یہ خیال کیسے پیدا ہوا۔ ویسے بھی مرے ذہن میں خلیق الزماں کا ایک تاریخی تصور ذرا مختلف سا ہے۔ اس وقت بہرحال اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ ایک فقرہ مجھے اس اداریے کا اور یاد آیا۔ یہ بہت قیمتی فقرہ ہے اور ہماری تاریخ کی ایسی جھلک ہے جو ہمیں بہت کچھ سیکھا جاتی ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے کہ 20 سال پہلے (یعنی 2007ء سے بیس برس پہلے) پاکستان کا عام آدمی کہتا تھا کہ خدا کا شکر ہے ہم بھارت کی طرح بھوکے ننگے نہیں ہیں مگر آج (یعنی اس وقت) ہر آدمی کہتا ہے کہ ہم اقتصادی اور جمہوری لحاظ سے بھارت کی طرح کیوں نہیں ہو سکتے؟۔

شاید یہ بات سچ ہے ہم نے بھی بھارت کو بھوکا ننکا سمجھا تھا۔ دنیا بھی اس کی شرح نمو کا مذاق اڑاتی تھی جو 3فیصد تھی(ہماری اب 2.4 ہو گئی ہے تبدیلی حکومت آنے کے بعد) اس پر ہندو شرح نمو کی پھبتی کسی جاتی تھی۔ آج ہم اپنا مقابلہ صرف بھارت سے نہیں کرتے۔ بلکہ بنگلہ دیش سے بھی کرتے ہیں۔ کئی معاملات میں تو سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ سے بھی کرتے ہیں۔ ایٹمی طاقت ہم ہیں۔ کرنسیاں دوسرے جنوب ایشیائی ممالک کی مضبوط ہیں۔ کیوں یعنی، کیوں؟ بہت سے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ترقی کے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ پھرکوئی بگولہ اٹھتا ہے اور ہمیں نگل جاتا ہے۔ برا نہ مانئے گا۔ ابھی گزشتہ سال تمام سیاسی بحرانوں کے باوجود ہماری شرح نمو 5.8 فیصد تھی۔ اسے اس برس 7 فیصد ہونا تھا کہ ایک سونامی آ گیا اور سب کچھ نگل گیا۔ اب شاید اس حد تک پہنچنے میں ہمیں دوبارہ دو چار سال لگ جائیں۔ اس وقت دنیا جانے کہاں نکل چکی ہو گی رہا جمہوریت کا پودا تو یہ جڑ ہی نہیں پکڑ پا، تا ہم یہ گن گا کر ہی مدہوش ہو رہے ہیں کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ بھلا کسی جمہوری ملک میں یہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو یہ تک تاثر دیا جاتا ہے کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے۔

پاکستان کے خلاف ایسے مضمون چھپتے رہتے ہیں خاص کر جب پاکستان نے نصف صدی گزار لی تھی تو اس کے خلاف دنیا بھر میں مضامین ہی نہیں۔ اشتہارات بھی شائع کئے گئے تھے اس میں خاص طور پر پاکستانی فوج کو روگ آرمی کہا گیا۔ میں ترجمہ نہیں کر رہا وحشت ہو رہی ہے۔ یہ ان کی دنوں بات ہے جب بھارت ایٹمی تجربے کرنے والا تھا۔ دنیا بھر کے پریس میں نشانہ پاکستان سے زیادہ پاکستانی فوج کو بنایا گیا۔ پاکستان نے پروا نہ کی اور وقت آنے پر ایٹمی قوت بن گیا۔ اب بھی اگر ہم کسی کی پروا نہ کریں اور اپنی منزل کا تعین کر کے اس کی طرف بڑھتے جائیں تو مخالفوں کے منہ خود ہی بند ہو جائیں گے۔ مگر کیا کریں ہم اپنے دشمن خود ہو جاتے ہیں اور اپنی تباہی پر تل جاتے ہیں۔ کب کی بات کب یاد آئی۔ ایسے ہی ہے جیسے فیس بک پر آپ کی کوئی پانچ سال پرانی یاد ابھر آئے۔ یہ 12سال پرانی تحریر جو جانے کب دوبارہ اس کالم کی شکل میں سامنے آئی، کم از کم پانچ چھ سال پرانی تو ہو گی۔ بہت کچھ یاد دلا گئی ہے۔ ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ اب ہم بچے نہیں رہے۔ 72سال کی عمر میں کوئی بتائے کہ تمہاری پیدائش ہی غلط ہو ئی ہے تو یہ احمقانہ بات ہو گی یا بدنیتی پر مبنی ہو گی۔ ہم اپنا سفر طے کر چکے ہماری تعمیر میں خرابی کی کوئی صورت مضمر نہ تھی۔ زندگی کے سفر میں ہم پر کئی مصائب آئے۔ شاید اب بھی ان میں کمی نہیں ہے ہم ایک طویل عرصے سے زندگی اور موت کی جنگ میں جڑدیے گئے ہیں۔ ہر روز کوئی مسئلہ، ہر روز کوئی بحران۔ اس وقت جو نقشہ ہے اس میں قوم کا کیا قصور ہے یا اس ملک کی تخلیق کی کیا خرابی ہے۔ کیا بتائوں کہ خرابی کہاں ہے۔ ایسی تحریروں سے صرف نظر کرنے کے بجائے ہمیں اس پر غور کرتے رہنا چاہیے کہ یہ خلق خدا ہمیں غائبانہ بلکہ کھلم کھلا کیا کہتی ہے۔ اور کیوں کہتی ہے۔ کم عزم تو نہیں کہ ہم نے اس طوفان کا منہ موڑنا ہے تو اس سلِ بلا کا رخ ہمارے ساحلوں سے ہٹ سکتا ہے۔