کوئی کسر باقی رہ گئی ہے کہ ہمارے چیف جسٹس کو عدلیہ کی صفائی میں بولنا پڑ رہا ہے۔ ملک کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ہر ادارہ اپنے دفاع میں نکلا ہوا ہے ہمارے ملک میں یہ تو ہوتا آیا ہے کہ جب مورخ کو اس ملک کی مختصر سی تاریخ لکھنا پڑتی ہے تو ہماری خرابیوں کی جڑ اس مقدمے کو بتایا جاتا ہے جو جسٹس منیر نے صادر کیا تھا۔ آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ اگرچہ ہمارے ملک میں عدالتوں کا ریکارڈ کوئی اچھا نہیں رہا مگر ایک نہیں کئی مقدمات کے فیصلے یاد دلائے جاتے رہے ہیں نصرت بھٹو کا کیس بیان ہوتا ہے۔ بھٹو کے مقدمے کو کھلے عام عدالتی قتل کہا جاتا رہا ہے۔ آج جس مقدمے کی وجہ سے سارا بحران پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں ایک وزیر اعظم نااہل قرار پایا۔ یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ ایک دوسرا وزیر اعظم بھی عدالت کے فیصلے سے نااہل ہوا تھا، ایک تیسرے وزیر اعظم کو بھی اپنی نشست چھوڑنا پڑی تھی۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کا سب سے زیادہ ڈسکس ہونے والا فیصلہ آیا تھا۔ اس مقدمے میں پارلیمنٹ ہی نہیں گئی تھی، وزیر اعظم کی بھی چھٹی ہوئی تھی۔
یہ ساری بحث تو ایک بڑے پس منظر میں ہو رہی ہے اور بہت تلخیاں پیدا کر رہی ہے جب نواز شریف نااہل قرار دیے گئے تو بلا شبہ اس بات کا کریڈٹ لیا جا سکتا ہے کہ عدلیہ نے ایک وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا۔ دوسری طرف یہ ان نادر فیصلوں میں سے ہے جس کے صادر ہوتے ہی اس پر بحث اور تبصرے شروع ہو گئے تھے۔ اہل سیاست ہی نہیں بعض ماہرین قانون نے بھی اس پر تنقید کے تیر برسانا شروع کر دیے تھے۔ ہمارے بعض فیصلے ایسے ہیں جس پر بعد میں عدلیہ نے خود بھی تنقید کی ہے۔ یہ بھٹو کا مقدمہ دیکھ لیجیے۔ اسے آج کھلے عام عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔ کیوں کہا جاتا ہے اس بیانیے کو تقویت خود فیصلہ دینے والے ایک جج کے بیان سے ملی ہے۔ اس لئے کسی بڑے آدمی کے خلاف فیصلہ آنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ جرات مندانہ فیصلہ ہے۔ بعض اوقات بڑے بڑے نیک نام جج کسی مقدمے کا حصہ رہنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ، اس ملک میں جو سیاسی اور اقتصادی بحران پیدا ہوا ہے اس کے پیچھے بہت سے مقدمات کے فیصلے میں عدالتوں کو صرف جرأت مندی ثابت نہیں کرنا ہوتی۔ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے بھی دکھانا ہوتے ہیں۔
میں عرض کر رہا تھا کہ ان دنوں سب ادارے اپنے دفاع میں نکلے ہوئے ہیں۔ اتنی خبریں اور افواہیں کہ فوج کو اپنے دفاع میں کچھ کہنا پڑا۔ معاملات اس قدر دگرگوں ہو گئے ہیں کہ ایک کا ملبہ دوسرے پر ڈالا جا رہا ہے۔ ان دنوں تو اتنی افواہیں پھیلنے لگی ہیں کہ یوں لگتا تھا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک پیج والی کہانی ہے۔ کسی نے کہا کہ اب یہ ایک پیج پھاڑ دیا گیا ہے کوئی کہتا اب ایک پیج والے بھی تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سوچ کر سول حکومت کا ساتھ دیا تھا کہ آئین اور قانون کا تقاضا بھی ہے اور ملک کو مستحکم رکھنے کے لئے ضروری بھی ہے۔ دوسری طرف سویلین حکومت جس طرح چل رہی تھی۔ اس سے تاثر ملتا تھا کہ اس کے پیچھے فوج ہے اور عدالتیں بھی ان کے ساتھ ہیں، اس لئے کہ فوج یہی چاہتی ہے۔
وزیر اعظم نے یہ کہہ کر این آر او نہیں دوں گا، سارے بیانیے کومشکوک بنا دیا۔ یہ کبھی ہوانہ ہو گا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کسی مقدمے پر یوں بیٹھ کر پریس کانفرنس کی ہو۔ یہ سب اپنی جگہ اس وقت مگر صورت حال اتنی نازک ہو گئی ہے کہ ہر ادارے کو خیال ہو گیا ہے کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا رہا ہے۔ احتساب کے مقدمات ہوں یا منشیات کے، الزام عدالتی نظام پر لگتا ہے۔ ایک زمانے میں تو شیخ رشید جیسے غیر ذمہ دار بات بات پر کہتے تھے میں جا رہا ہوں سپریم کورٹ۔ یہ تاثر ان مہربانوں کا دیا ہوا ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ سال میں ملک میں سیاست کی چولیں ڈھیلی کر دی ہیں۔ ہمارے چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں۔ وہ ان دنوں ایک طرح سے خاموش تھے۔ غالباً کسی سیاسی بوچھاڑ کی زدمیں نہیں آنا چاہتے تھے۔ ایک اچھا رویہ تھا مگر ہمارے سیاسی بزرجمہروں کوکون پوچھے کہ وہ ہر بات کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ یہ عجیب صورت حال ہے اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ وزیر اعظم نہیں رہے گا۔ دوسرا کہتا ہے فوج بھی حالات سے تنگ آ رہی ہے نیب کے سربراہ تو کہہ رہے ہیں ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ وزیر اعظم نقلیں اتار رہے ہیں اور عدلیہ کو نام لے لے کر مشورے دے رہے ہیں کہ آپ انصاف کریں۔ ملک میں ہر طرح کی افواہیں ہیں۔ وہ بھی جن کا ذکر میں بس رواروی میں کر رہاہوں، کھل کر نہیں کر آ رہا۔ ہر قسم کی افواہیں ہیں۔ بعض ایسی بھی جو انہونی ہوتی ہیں۔ مگر بعض اوقات سچ نکل آتی ہیں۔ چیف جسٹس کا یوں بول اٹھنا، بے معنی نہیں ہے۔ ہر کوئی تلملایابیٹھا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کچھ ہونے والا ہے۔ یہ قیامت کی نشانی ہی تو ہے کہ چیف جسٹس اس طرح وضاحت کریں۔ فوج کا نمائندہ اپنی عارضی خاموشی توڑ کر بیان دینے پر مجبور ہو جائے۔ کچھ ہو نہ ہو مگر جو کچھ ہو گیا وہ بھی کم نہیں ہے۔