فیض احمد فیض ایک این جی او کا نام ہے۔ کیا مطلب ہے اچھے بھلے شاعر کو این جی او بنا دیا۔ ان کے مداح یہی کر رہے ہیں۔ اسے سول سوسائٹی بھی کہتے ہیں۔ کسی جگہ لکھا دیکھا ہے کہ یہ سول سوسائٹی وہی ہے جو فرانسیسی معاشرت میں سوسائٹی کہلاتی تھی۔ ذرا فرانسیسی ادب پڑھئے، بالزاک، فلابیئرکوئی بھی دیکھ لیجئے حتیٰ کہ روسو اور والٹیئر کی زندگیوں کا مطالعہ کر لیجئے آپ کو اس سوسائٹی کی جان ایک مادام نظر آئے گی۔ ہمارے ہیرو کو معاشرے میں پذیرائی تب ملتی ہے جب وہ اس مادام کے حلقہ میں رسوخ پاتا ہے۔ اس سوسائٹی کا حصہ بن جاتا ہے۔ آج کل بھی یہی نقشہ ہے۔ ہم اسے اشرافیہ کہتے ہیں۔ اس کا وہی کلچر ہے جو کسی بورژوا سوسائٹی کا ہونا چاہئے۔ آج بھی ترقی کا راز یہ ہے کہ آپ اس اشرافیہ تک رسائی حاصل کریں۔
اور اس کا ایک ایجنڈا بھی ہےسوال یہ ہے کہ مجھے آج یہ سب باتیں کیسے یاد آنے لگیں سیاست کا بازار گرم ہے اور میں ان چونچلوں میں الجھ رہا ہوں۔ اس کی وجہ بتاتا ہوں تا ہم مجھے اس کا خیال ایک خبر اور کالم پڑھ کر آیا معلوم ہوا عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک تین روزہ کانفرنس ہوئی ہے۔ اسی شہر لاہور میں، پتا چلا اس میں دنیا بھر سے ہزاروں افراد شریک تھے۔ کئی نشستیں ہوئیں، پرے کے پرے آتے تھے اور جاتے تھے۔ کسی نے لکھا ہے، ایک میلے کا سماں تھا۔ اب میں سوال نہیں اٹھائوں گا کہ یہ سارے انتظامات کس نے کیے اور سرمایہ کہاں سے آیا۔ یہ اب بہت چھوٹا سا سوال ہے۔
یہاں سے مجھے فیض اس لیے یاد آئے کہ آج کل ان کے نام پر ایک فیسٹول منایا جاتا ہے، گزشتہ برس ایسے ہی ادھر نکل گیا۔ ادب کا چسکا ہے تو خاصا مزہ آیا، واپس لوٹتے ہوئے خیال آیا کہ ہے تو یہ میلہ ٹھیلہ، اس کا ادب سے کیا تعلق۔ فیض کی شاعرانہ اہمیت اپنی جگہ، مگر آج کل انہیں ایک خاص کلچر کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تھوڑی سی خرابی ان میں بھی تھی، وہ ایک رومانوی اشتراکی تھے۔ مرے جیسے چیختے تھے کہ اشتراکیت کو اگر روحانیت کے لبادے میں لپیٹ دیا جائے تو اسے بھی لے بیٹھتی ہے۔ بھلا اشتراکیت ایک رومان تو نہیں، زندگی کی بہت تلخ حقیقت ہے۔ چلئے اس کو چھوڑئیے، ان کا پرچم اٹھانے والوں نے فیض کا ایک اور مقصد نکالا ہے۔ اسے عام طور پر اقبال کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سچ پوچھئے تو فکر اقبالؔ کے مقابلے میں، فیض صاحب ہوتے تو وہ کبھی اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ فیض کے نام پر اسی کلچر کو فروغ دینے کا شوق ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا۔ فیض بورژوائی طبقے میں تو خاصے مقبول تھے۔ ایلیٹ کلاس میں تو خاصے مقبول تھے۔ ایلیٹ کلاس میں ان کے لیے بڑا نرم گوشہ تھا۔ یہ اشرافیہ اپنی روح میں غیر انقلابی اور غیر سیاسی ہے، ان کا مطمح نظر دوسرا ہے۔ اس لیے ان کا جشن ایسے ہی میلے ٹھیلے کے انداز میں بورژوائی حس کی تسکین کا سامان کرتا ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں یہ ہمارے تمدن و ثقافت کے خلاف کتنی بڑی سازش ہے۔ اسی لیے جس نے فیض کو ایک این جی او کہا ہے۔ یہ این جی اوز بھی تو ہمارے خلاف سامراج کی ایک سازش ہی تو ہیں جو پوسٹ ماڈرن ازم کی پیداوار ہیں۔
یہ سارے خیالات مجھے اس لیے آ رہے ہیں کہ آج کل سیاست کا بول بالا ہے۔ ہم یہ سیاست دان میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ میں نے بھی گزشتہ دنوں ایک کالم میں اپنے چند جید اہل سیاست کے بارے میں ایک طرح کا تبریٰ کہا تھا۔ صرف یہ بتانے کے لیے ہم آج جن کو بدنام کر رہے ہیں ایسی چھوٹی موٹی خرابیاں تو ان کے بڑوں میں بھی تھیں۔ وہ بڑے جنہیں ویسے ہم احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مگر وہ لوگ ایسے تھے کہ ان میں کسی پر آپ کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتے۔ پھر ان کے سیاسی نصب العین بھی اعلیٰ واضح تھے۔ سیاستدان کو بدنام کرنا ہمارے ہاں سکہ رائج الوقت بن چکا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ ان کے بصیرت ودیانت کی قسمیں کھائی جا سکتی تھیں۔ جواب میں ہم نے سول سوسائٹی کا ڈول ڈالا رکھا ہے۔ این جی او بنا بنا کر ملک میں ایک ایسا مفاد پرست طبقہ پیدا کر رہے ہیں جو غیروں کے سرمایے پر پلتا ہے اور ان کے رنگ میں رنگتا جاتا ہے۔ ان کا ایجنڈا بھی وہی ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی تہذیبی قدروں کے مقابلے میں ایک بورژوائی ثقافت کو ترجیح دی جائے، مگر یہ کہے بغیر۔ یہ فرانس کی وہی سوسائٹی ہے جو کسی مادام کے گرد گھوما کرتی تھی۔
ترا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
یہ سارا عمل سامراجی طاقتوں نے تیسری دنیا کے اندر اپنے اثرورسوخ کے لیے ترتیب دیا ہے۔ اس کے زہریلے اثرات کا اندازہ ہمیں تب ہوا جب ہماری حکومت نے بعض این جی اوز پر پابندی لگائی، غیر ملکی فنڈنگ کا جائزہ لیا، کئی ایک کے اجازت نامے منسوخ کئے، نئے جاری کرنے میں تامل کیا۔ معلوم ہوا مغرب میں ہاہوکار مچ گئی۔ ہم پر جس طرح حافظ سعید پر پابندی لگانے کے لیے دبائو تھا وہاں یہ دبائو پڑنے لگا کہ این جی اوز کو کھلی چھوٹ دی جائے۔ یہ انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ پہلی بار ملک میں سوچ پیدا ہوئی کہ آخر ان این جی اوز کا مسئلہ کیا ہے۔ آخر یہ مغرب والے ان کے لیے اتنے تڑپ کیوں رہے ہیں۔
ہم نے کبھی سوچا، انہیں فنڈز کیوں دیئے جاتے ہیں۔ میں نے صرف اتنا پوچھا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کا میلہ کہاں سے فنانس ہوا، یہ تو ابھی پوچھا ہی نہیں کہ ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کو بجٹ کہاں سے ملتا تھا۔ پھر ذرا ان فلاحی اداروں کا جائزہ لیجئے جو اپنی حکومت سے بھی امداد نہیں لیتے۔ عبدالستار ایدھی کے کام میں یہی برکت تھی کہ وہ اپنی حکومت سے بھی امداد لینے کے روادار نہیں تھے۔ اخوت کے ڈاکٹر ثاقب کے کام میں اللہ کی رحمت دیکھئے، 18، 20 ارب بانٹ چکے ہیں، بغیر سود کے، مگر اس میں حکومت کا پیسہ شامل نہیں ہے۔ حکومت اپنا کام کرانا چاہتی ہے تو وہ الگ کھاتا رکھتے ہیں۔ اس ملک میں سینکڑوں ہسپتال، کلینک، سکول، کالج باہمی امداد سے چلتے ہیں، مگر وہ کسی سرکاری مدد کے محتاج نہیں ہوتے، یہ سب رول ماڈل ہیں۔ یہ جس سیلانی لنگر کا افتتاحوزیر اعظم نے کیا ہے، یہ نجی ادارہ ہے۔ اس کا سرکار سے ویسے کچھ لینا دینا نہیں۔ کیسی برکت ہے ابھی تک اس کے کام میں، شوکت خانم کو تو سب جانتے ہیں، اس کی فنڈنگ کا مجھے اندازہ نہیں، کراچی میں ادیب الحسن رضوی ایک لیجنڈ ہیں، اللہ انہیں سلامت رکھے، گردوں کے امراض کے لیے ان کا ادارہ Siutعالمی شہرت رکھتا ہے۔ سب کا مفت علاج، فی سبیل اللہ، کتنی برکت ہے، اس میں۔
مشرف نے سیاست میں اس کا تجربہ کیا تھا، اس سے پہلے ضیاء الحق کے دور میں ملا ملٹری اتحاد یا منڈی ملٹری اتحاد مشہور کر دیا گیا تھا، مشرف این جی او کو چن کر لائے، عمر اصغر خان، زبیدہ جلال، نثار میمن اور بھی دو چار تھے۔ دیکھا کیسی بے برکتی ہوئی۔
مجھے ڈر لگتا ہے کہ ہم سیاست دانوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ پھرسہم جاتے ہیں کہیں ماضی کی طرح بوٹوں والے نہ آ جائیں۔ مگر مجھے اب نیا ڈر شروع ہو گیا ہے، یہ سول سوسائٹی والے نہ چلے آئیں۔ ان میں پھر ہوا بھری جا رہی ہے۔ ان کا کلچر اور ایجنڈا وہی ہے جو مشرف کا تھا۔ آپ کو آج کے عہد کی مشرف کے عہد سے کچھ کچھ مشابہت دکھائی نہیں دیتی، میں اس کلچر پر بڑا ظالمانہ تبصرہ کرتا رہا ہوں۔ اس کے ڈانڈے لکھنؤ کی زوال پذیر تہذیب سے جوڑتا تھا۔ پھر اسے ایک براسا نام بھی دیتا تھا۔ یہ زمانے میں تہذیب سیکھنے کے مراکز ایک جیسے تھے۔ فرانس ہو، لکھنو ہو یا ہماری اشرافیہ کابورژواپاکستان۔ سامراجیوں نے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ بظاہر ہر ایک کا مشن الگ بتایا جائے گا مگر اندر سے ایجنڈا ایک ہو گا۔ اس پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ برلن کی دیوار گرا کر جس ایجنڈے کو روس کے ملبے تلے دفن کر دیا گیا تھا، وہ پھر واشنگٹن سے نمودار ہو کر واپس پلٹ رہا ہے۔ راستے میں سکینڈے نیویابھی مال سمیٹ کر چلا آ رہا ہے۔ اب تو ہم نے ان ملکوں کو ریاست مدینہ کے فلاحی نمونے بھی قرار دے ڈالا ہے۔
اللہ ہم پر اپنا کرم کرے ہمیں اپنے سیاستدانوں ہی پر اکتفا کر لینا چاہئے، وگرنہ کئی بلائیں جوق در جوق چلی آ رہی ہیں۔ بس میں سمجھا رہا ہوں، سمجھ جائیے۔ این جی او کی سواری آ رہی ہے۔