نصف صدی بیت گئی۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کا یہ کالم پڑھ کر مجھے ان دنوں کا سارا ماحول یاد آ گیا۔ میں بھی انہی کے ادارے میں کام کرتا تھا۔ ایسے لگ رہا ہے کہ کل کی بات ہے۔ 2 اکتوبر 1970ء کو ایم اے کا آخری پرچہ دے کر میں دو بجے دوپہر زندگی کے دفتر اپنی ڈیوٹی سنبھالنے جا پہنچا تھا۔ ایسی سخت ڈیوٹی تھی کہ آج تک ختم نہیں ہوئی۔ یہ میری پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز تھا۔ وگرنہ لکھتے، چھپتے پانچ چھ برس ہو چکے تھے۔ ہاں تو میں اس سخت ڈیوٹی کا ذکر کر رہا ہوں جو مرے مولا نے میری لگا رکھی ہے۔ صرف چند روز بعد یکم جنوری سے سیاسی سرگرمیاں شروع ہو رہی تھیں۔ ہم جمہوریت کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ ایوب خاں کے خلاف جو جدوجہد شروع ہوئی تھی وہ یحییٰ خان کے ہاتھوں گویا پایہ تکمیل کو پہنچنے والی تھی مجھے یکم جنوری کا وہ دن یاد ہے کہ جب پہلے سیاسی جلسے کے طور پر لاہور کے موچی دروازے میں میاں ممتاز احمد دولتانہ میدان میں اترے۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ اعلان ہو رہا ہے کہ ملک کا آئندہ وزیر اعظم آ رہا ہے۔ یہ قوم ایک طویل عرصے کی فوجی آمریت کے ہاتھوں جمہوریت سے ترسی ہوئی تھی۔ 64ء میں انتخاب ہوئے، 65ء میں جنگ ہوئی 66ء میں تاشقند اور 68ء میں ایوب عشرہ ترقی منا رہے تھے اور طالب علم سڑکوں پر تھے۔ ان میں سے ایک یہ طالب علم بھی تھا۔ جسے فوراً ہی قلم سے کام لینے کا موقع مل گیا تھا اور ایسا ملا کہ اب یہ کل کی بات لگتی ہے۔
میں یہاں اپنی کہانی نہیں لکھ رہا وگرنہ اس دن سے شروع کر کے جب مجیب الرحمن شامی کی طرح ہم چند طالب علم مادر ملت کے راگ الاپتے میدان میں نکلے تھے۔ وہ تو صرف ان دنوں کو یاد کر رہا ہوں جب گویا ہمیں یوں لگا تھا کہ جمہوریت کا سورج گویا طلوع ہو چکا ہے۔ 70ء کا سارا سال انتخابی مہم میں گزرا۔ کس کس بات کو یاد کروں۔ پہلے سارا سال میں طالب علم تھا مگر آخری تین ماہ ایک بھر پور عملی صحافی پھر ایک پورا سال پاکستان کو بقا کی جنگ لڑتے دیکھا۔ یحییٰ خاں نے اقتدار دینے سے انکار کر دیا۔ ایک جعلی جمہوریت حکومت بنا دی گئی۔ سمجھایا جاتا ہے، ابھی اس احتیاط کی ضرورت ہے۔ آہستہ آہستہ یحییٰ خاں سے حکومت واپس لی جائے۔ بھٹو نے نعرہ لگایا۔ ادھر تم، ادھر ہم۔ جیالے کو چالیس برس بعد سمجھ آیا کہ یہ تو گھڑی ہوئی سرخی تھی۔ لیڈر نے تو ایسا نہیں کہا تھا۔ الفاظ کچھ اور تھے، کہا مگر یہی تھا۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی نہیں کہا گیا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ پھر لاڑکانہ میں اس وقت کے فوجی آمر اور آئندہ کے ممکنہ وزیر اعظم کے مذاکرات ہوئے تھے۔ مجیب گرفتار کر لیا گیا اور ہم یہ جنگ ہار گئے۔ بھٹو کو ہم نے غدار قرار دے کر جیل میں ڈال دیا۔ اس وقت الزام کرپشن کا بھی نہیں تھا۔ غداری کا تھا۔
وہ جو احوال الطاف صاحب نے لکھا ہے، وہ کل کی بات لگتی ہے۔ الطاف صاحب نے لکھا ہے کہ وہ جنگ کا اتا پتا جاننے اسلام آباد گئے۔ خبریں اچھی نہیں آ رہی تھیں۔ میجر جنرل امرائو خاں بھی ساتھ تھے۔ ابھی شاید 3دسمبر کو مغربی پاکستان سے بھی اعلان جنگ کرایا گیا تھا۔ میں نے 65ء کی جنگ میں فضائوں میں طیاروں کو اڑتے دیکھا ہے۔ تاہم اس وقت تو ایسا خوف نہ آتا تھا۔ واپڈا ہائوس کے ہال میں سات یا آٹھ دسمبر کو جلسہ ہوا۔ جنرل فضل مقیم، جنرل فرمان علی یا ایسے ہی دو چار جرنیل بھی موجود رہے تھے۔ آغا شورش کشمیری خوب گرج رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کیاجوشیلی تقریریں تھیں۔ مگر یہ جرنیل ہی بتا رہے تھے۔ بات بگڑ چکی ہے۔ معاملات قابو میں نہیں۔ یقین نہ آتا تھا۔ یہ پڑھے لکھے جرنیل ہیں۔ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ اسی افراتفری میں الطاف صاحب اسلام آباد چل دیے۔ پھر مجھے یاد ہے کہ ان کا فون آیا یہاں تو ہتھیار ڈالنے یا سیز فائز کی باتیں ہو رہی ہیں۔ الطاف صاحب کا فون سن کر شامی رونے لگے۔ یہ بات واضح ہو رہی تھی۔ اگلے روز ہم نے شام ایک پان والے کی دکان پر کھڑے ہو کر یہ خبر ریڈیو پاکستان سے سنی تو ہمارے سر جھکے ہوئے تھے، جیسے ہم قومی مجرم ہوں۔ ہمیں تو پتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور ہم قوم سے چھپا رہے تھے اور لوگ ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہوئے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ بھارتی فوجیں آج ایک معاہدے کے مطابق ڈھاکہ میں داخل ہو گئی ہیں۔ شاید ممتاز اقبال ملک میرے ساتھ تھے اور پاکستان ٹوٹ گیا تھا اور کسی کو پتا ہی نہ چلا تھا۔
اگلے روز مال روڈ پر ایک ازدحام تھا۔ ایک صفحے کی اپیل ایم انور بارایٹ لاء نے تیار کی تھی۔ مجھے حکم ملا تھا کہ میں اسے اردو میں منتقل کر کے تقسیم کے لئے تیار کروں۔ وہ ورقہ مال روڈ میں تقسیم ہو رہا تھا وہ لوگ آنسوبہانے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ وہ بھی جو سیاسی طور، چلیے نظریاتی طور پر، ایک دوسرے کے کھلے مخالف تھے۔ اس دن لگتا تھا ایک ہو گئے تھے۔ شکست نے قوم کو اکٹھا کر دیا تھا۔ لگتا تھا ابھی جنگ جاری ہے نظری پاکستان کا محازابھی زندہ ہے۔ مگر خبر آ گئی، حالات بدل چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کے دستے آگے بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے درخواست کی تھی کہ وہ ملک میں آ کر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیں۔ ہم نے اس عارضی وقت کے لئے انہیں وزیر خارجہ بنا رکھا تھا اور مشرقی پاکستان کے بزرگ لیڈرنور الامین کو وزیر اعظم۔ اب حالات بدل گئے تھے۔ نور الامین نہیں، اب ذوالفقار علی بھٹو چاہتے تھے۔ چند دنوں بعد ہم نے دیکھا کہ مشرقی پاکستان کا یہ آخری پاکستانی مزار قائد کی سیڑھی پر بیٹھ کر بلک بلک کر رو رہا ہے۔ انہیں نائب صدر بننے کی درخواست کی گئی جو انہوں نے ملک کی خاطر قبول کر لی تھی۔ قائد کے مزار پر شہید ملت لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب نشتر اور مادر ملت دفن تھیں۔ چوتھا کونا خالی تھا۔ یہ کونا ہمارے مشرقی پاکستان کے آخری پاکستان نے پر کر دیا۔ کسی کو یاد بھی ہے۔ ڈھاکہ میں شیر بنگال فضل الحق، حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین دفن ہوئے۔ ہم نے پاکستان تقسیم کر لیا۔ پاکستان تقسیم ہو گیا۔ آدھا پاکستان وہاں دفن کر دیا۔ آدھا یہاں دفن ہو گیا۔
معلوم نہیں ہم نے کچھ سبق سیکھا بھی۔ خود مشرقی پاکستان کی تاریخ بڑی دل خراش ہے۔ وہاں کیسے انقلاب آئے تھے۔ پہلے بنگلہ بندو رخصت کئے گئے۔ پھر ایک کے بعد دوسرا فوجی انقلاب۔ وہاں یہ حال بھی رہا کہ چند ماہ بعد ہی وہاں ایسا مناظر دیکھنے کو ملے کہ دنیا پوچھتی تھی یہ وہ ملک تھا جس نے پاکستان کو اس سرزمین سے ملک بدر کیا تھا۔ کئی برس تک مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی پاکستان کو ہرایا نہ جا سکا۔ پھر یہ حال ہوا کہ وہاں نیا ملک بننے لگا۔ پاکستان کا نام لینا جرم ٹھہرا۔ جن لوگوں پر شک بھی گزرتا تھا کہ انہوں نے پاکستان کا نام لیا تھا انہیں پھانسیاں دی جانے لگی۔ یہ سب کیسے ہوا۔ ہم اپنے دھندوں میں الجھے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس کی خبر تک ہی نہیں۔ ہم نے ہتھیار ڈال دیے۔ جب ڈھاکہ میں کرکٹ اور ہاکی کے میچ بھارت کے مقابلے میں کھیلے گئے تو دنیا سوال پوچھنے لگی یہ وہی میدان ہیں جہاں پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ جہاں مولوی فرید احمد کو ہجوم نے نوچ نوچ کر قتل کر ڈالا تھا۔ کچھ یاد ہے یہ فرید احمد کون تھے۔ اسے کس جرم کی سزا دی گئی۔ یہ یہاں مغربی پاکستان میں اتنے ہر دل عزیز کیوں تھے۔ ہم نے تاریخ مسخ کر دی ہے۔ یہ تو ہوا کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ہم نے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اسے اپنی انگلیوں کے اشاروں پر چلنے پر مجبور کرتے آ رہے ہیں۔ تاریخ اپنے ان گناہوں کو بھی کبھی معاف نہیں کرتی۔ مشرقی پاکستان پر بہت کچھ لکھا جانا چاہیے تھا۔ اس لئے نہیں کہ ہم سچے ثابت ہوئے۔ ہم ایسے سچے بھی نہیں ہیں اور ہاں ایسے جھوٹے بھی نہیں ہیں کہ تین ملین کا مطلب نہ سمجھتے ہوں۔
ایسی بہت سی غلطیاں ہیں جو ہم آج بھی کرتے جا رہے ہیں۔ ہم واقعات کی تاویلات آج بھی غلط کرتے ہیں۔ کبھی تو مروت مروت میں جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی جھوٹ جھوٹ میں مروت دکھاتے ہیں۔ ہمیں تو یہ اندازہ بھی نہ ہوا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تلخیاں بہت پہلے سے پیدا ہونے لگی تھیں۔ مگر ان کی تشریحیں ہم آج بھی غلط کرتے ہیں۔ یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں طرف کے قائدین نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ آیا علیحدگی مسئلے کا حل ہے۔ جواب یہی ملتا۔ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ابھی چند دن پہلے ایوب خاں کے ہاں دیکھا کہ اس اللہ کے بندے نے پوچھا کہ ان سے بات کرو اگر الگ ہی ہونا ہے تو اچھے طریقے سے ہوا جائے۔ نور الامین جب چیف منسٹر تھے تو اس وقت کچھ شکائتیں پیدا ہوئیں تو چودھری محمد علی نے پوچھا کہ آیا ہم مغربی پاکستان کے سارے بیورو کریٹ واپس لے لیں۔ نور الامین نے فوراً کہا کہ یہ تو ایڈمنسٹریشن ختم کرنے کی بات ہو گی شکایت کوئی ایک طرح کی نہیں تھی۔ ذمہ دار بھی کوئی ایک طبقہ نہ تھا۔ کسی نے کبھی تجزیہ کیا کہ اصل مسئلہ تھا کیا۔ لازمی نہیں کہ ہم درست ہوں مگر یہ بات تو سچ ہے کہ ہر ایک جو بیان کرتا ہے، وہ پورا سچ نہیں ہے اور پورا سچ بہت تلخ ہوتا ہے۔