تاریخ کی ایک فیصلہ کن جنگ اپنے عروج پر تھی۔ ایک طرف صلیبیوں کے بڑھتے ہوئے لشکر تھے اور دوسری طرف مسلمان سپاہ۔ غازی صلاح الدین کو اطلاع ملی کہ دشمن کا نامور جرنیل جسے مسلمان تاریخ دان بھی شیر دل کے لقب سے پکارتے ہیں۔ شدید علیل ہے۔ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے نہ صرف جنگ روک دی بلکہ اپنا شاہی طبیب بھجوانے کی پیشکش کی تاکہ رچرڈ شیردل کا علاج ہو سکے۔ ایک روایت ہے طبیب کو بھجوا دیا اور ایک خبر ہے کہ طبیب کے بھیس میں خود جا پہنچا کہ اس کے خیال میں وہ اس مرض کا علاج جانتا تھا۔
بہادر لوگ ایسے ہوا کرتے تھے اور تاریخ میں زندہ رہنے والے حکمرانوں کی شان اس طرح روشن ہوا کرتی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ اقبال نے کہا:
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ
جنہیں خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
اقبال کا یہ شعر اکثر یاد آتا رہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی صورت حال یہ قوم پیدا کر لیتی ہے کہ اقبال کی عظمت پر یقین کرنے پر انسان مجبور ہو جاتا ہے۔ آج مگر ہوا یہ کہ اس شعر کے علاوہ اس غزل کا مطلع بہت یاد آیا۔ شاید اس لئے کہ تاوان، خراج، بانڈ جیسے الفاظ ایک خاص پس منظر میں آج کل بہت استعمال ہو رہے ہیں :
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ آج ایک بیمار کے حوالے سے جو رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اسے دوسروں ہی نے نہیں اپنوں نے بھی رد کیا ہے۔ پھر بھی کچھ زبانیں یوں چل رہی ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ ہم ان عظیم روایات کے وارث ہیں جنہوں نے اپنے انداز حکمرانی سے دنیا کو مسخر کر رکھا تھا اور یہ انداز ہم اس زمانے میں اپنا رہے ہیں جب ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اس مملکت خداداد کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر استوار کر رہے ہیں۔ اس ریاست مدینہ میں ہر عہد کے عظیم ترین انسان کا رویہ شاید ہمیں یاد نہیں۔ ایک یہودی بڑھیا حضور ؐکے راستے پر کھڑی ہو جاتی اور ان پر گندگی پھینکتی ایک دن اس عورت کو راستے میں نہ پا کر ہادیؐ برحق نے پوچھا کہ وہ یہودیہ نظر نہیں آتی۔ پتا چلا وہ علیل ہے۔ حضور اس کی عیادت کے لئے اس کے گھر چلے گئے۔ اس کا جو اثر ہونا تھا۔ وہ یقینی طور پر وہ تھا جو ہونا چاہیے تھا۔ آج شاید ہم ریاست مدینہ کا نام تو لیتے ہیں مگر جانتے نہیں اس کے تقاضے کیا ہیں۔
میں ایک ہی طرح کی مثالیں نہیں دے رہا، صرف یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ریاست مدینہ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ ایک مہذب حکومت یا اس میں بسنے والے تہذیب یافتہ انسان کیسے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ خوف خدا کا یہ عالم ہوتا ہے کہ فاروق اعظم کہتے ہیں کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بلاوجہ مارا گیا تو قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا ہو گا۔ مارے جانے والا بھوک سے ہو یا بیماری سے یا ظلم و ستم سے، ہمارے حکمران اس کا بار اپنے کندھوں پر لیتے تھے۔ کیا خیال ہے ریاست مدینہ کا نام لینے والوں کے عہد حکمرانی میں اگر کوئی ایسا سانحہ ہو گیا کہ خلق خدا پر تین بار حکمراں مقرر کئے جانے والے شخص کو کسی ظلم و زیادتی کے نتیجے میں کچھ ہو گیا تو کیا خدا کا نظام عدل حرکت میں نہیں آئے گا۔ ہم ہر شخص پرکرپشن کے الزام لگاتے رہتے ہیں، وہ پوچھتا رہتا ہے کہ بتائو میں نے کہاں بددیانتی کی، کمشن کھایا، رشوت لی، کچھ تو بتائو۔ ہم کہتے ہیں تم بتائو جو ہم کہہ رہے ہیں۔ الزام لگا رہے ہیں، وہ کیسے غلط ہے۔
ایک شخص حضور نبی کریمؐ کے پاس آیا اور عرض کیا حضورؐ مجھے پاک کرو، سزادو۔ وہ جو جرم بتا رہا تھا اس کی سزا موت ہی نہیں، سنگساری تھی۔ حضورؐ نے منہ پھیر لیا یہ نہیں خوش ہوئے کہ لو پکڑا گیا۔ یہ تو خود مان رہا ہے اس نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو پھر حضورؐ نے منہ پھیر لیا وہ اپنے جرم کا اقرارکرتا ہے۔ بار بار کے اصرار پر حضورؐ نے اسے انصاف کے سپرد کیا۔ میں کوئی فقیہہ نہیں ہوں کہ اس میں چھپی باریکیوں کو بیان کروں۔ ابھی تک میں نے جو باتیں بیان کی ہیں، وہ صرف یہ بتانے کے لئے ہیں کہ اسلام کی معاشرت کیسی تھی۔ وہ دشمنوں سے بھی کیسا سلوک کرتے تھے، حکمران اپنی ذمہ داری کس طرح محسوس کرتے تھے اور عدل و انصاف میں مجرموں سے بھی نرمی کا کیسا رویہ اختیارکیا جاتا تھے۔ پر یہ بات درست ہے:
نااہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت
ہے خوار زمانے میں کبھی جو ہر ذاتی
شاید کوئی منطق ہونہاں اس کے عمل میں
تقدیر نہیں تابع منطق نظر آتی
ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی
ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی
براّں صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی
اصل معاملہ ان قدروں کا فروغ ہے جس کو ہم بھول چکے ہیں یہ صرف جمہوری قدریں نہیں۔ اسلامی قدریں بھی ہیں، انسانی قدریں بھی ہیں۔ ہم نے عجب شور و غوغا برپا کر رکھا ہے اور جو بھی منہ میں آتا ہے کہے جا رہے ہیں۔ اس سب کا بوجھ صرف حکمرانوں کے کندھوں پر نہیں ہو گا، بلکہ حکمرانی کی ذمہ داریاں نبھانے والی خودکار مشینری کے ہر کل پرزے پر بھی ہو گا۔ خدا ہم پر رحم کرے ہمیں رک کر اپنے رویوں کی اصلاح کرنا ہو گی وگرنہ ہم بہت دور نکلتے جا رہے ہیں۔ وہاں آ پہنچے ہیں کہ کوئی مہذب انسان اس رویے کی تائید نہیں کر رہا اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں بساط سیاست پر ہم بازی ہار نہ جائیں۔ کہیں ہماری اس رحم دلانہ پالیسی سے مخالفوں کو فائدہ نہ پہنچے۔ یہ سوچنا بھی جرم ہے۔ فطرت اتنی سنگ دل اور ظالم نہیں کہ رحم دل اور انصاف پر چلنے والوں سے بے انصافی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ کرے۔ ٹھیک تقدیر تابع منطق نہیں مگر ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی۔
اس وقت ہم یقینا اس مرحلے پر کھڑے ہیں جب آسمانوں سے ہمارے لئے بہت سے فیصلے ہونا ہیں۔ یہ فیصلے دعوئوں اور نعروں کی بنیاد پر نہیں ہوتے صرف اس اسوہ پر چلنے سے ہوتے ہیں جو اس امت کے لئے ہی نہیں تاریخ عالم کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔ دیکھئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تاریخ کی اس کرم فرمائی سے محروم رہ جائیں۔ اس کی سزا حکمرانوں ہی کو نہیں پوری قوم کو بھگتنا پڑے گی۔