سوچتا ہوں اس پر کیا لکھوں، مگر لکھنا ہے کہ یہ مجھ پر اس کا قرض ہے۔ کراچی میں ایک طارق روڈ ہے۔ یہ مرے گھر کا گویا آنگن ہوا کرتا تھا۔ اس سے ایک چوڑی سی سڑک نکلتی تھی جس کا نام محمود غزنوی روڈ تھا۔ شادی سے پہلے یہاں میرا بسیرا تھا۔ اس گھر کا نمبر 120-u-2تھا۔ ادبی حلقوں میں یہ یو ٹو(u-2)کے نام سے منسوب تھا۔ گویا جدیدیوں کا ایک دبستان ہو۔ یہاں میرے ساتھ بڑے بڑے لوگ رہے ہیں۔ سب اہم عہدوں پر فائز تھے۔ ان میں جانے کیسے یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بھی اپنی جگہ بنا لی تھی۔
گھنگھریالے بالوں والے اس لڑکے کا نام رحمان ملک تھا۔ وہ شاید کراچی یونیورسٹی میں شماریات میں ماسٹر کر رہا تھا۔ بڑا تیز طرار مگر مودّب۔ یہ اس کا مودبانہ انداز آخر تک قائم رہا۔ وہ جہاں ملتا، یا جس سے ملتا اس سے اگر مرے بارے میں ذکر ہوتا تو کہتا مرے بڑے بھائی ہیں۔ میں اس کے انداز حیات اور انداز سیاست سے کبھی ہم آہنگ نہ ہو سکا مگر وہ جہاں بھی ہواس نے اس احترام میں کبھی کمی نہ آنے دی۔
رہی اس کی تیز طرار ہونے کی بات، تو عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ دنیا نے دیکھا۔ ان دنوں ایک محکمہ تھا شاید اب بھی ہو گا جو بیرون ملک نوکری کے لئے جانے والوں کی غالباً تصدیق وغیرہ کیا کرتا تھا۔ وہ اس میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھرتی ہوا تھا۔ اس سے اس کے شہر کے نوجوان ملنے آتے ہیں جو اس کی مدد کا طلب گار ہوتے۔ وہ بھی دو چار روز اس سرائے نما گھر میں رہتے اور اس کے بارے میں طرح طرح کے انکشافات کرتے۔
مجھے تو خیر ان باتوں کے لئے فرصت نہ تھی مگر وہاں رہنے والے ان مہمانوں کو خوب انجوائے کرتے۔ ایک بار ان کے والد بھی آئے اور یہاں ٹھہرے۔ بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے اور بڑا عام سا پس منظر رکھتے تھے۔ جسے انگریزی میں ہمبل humbleپس منظر کہتے ہیں۔ بڑے اچھے دن تھے۔ پھر رحمن ملک نے اپنا الگ گھر لے لیا۔ پورا گھر، اسے سجایا اور ہمیں بلایا اور خوشی خوشی دکھایا کہ وہ اسے کیسے سنوار رہا ہے۔
پھر وہ نوکریوں میں کھو گیا۔ جانے کیسے چوہدری ظہور الٰہی، حاجی حنیف طیب کے ساتھ منسلک رہا۔ پھر شاید بیگم شفیقہ ضیاء الحق کا بھی اسے کرب حاصل ہو گیا۔ وہ جہاں ملتا، ضرور بھاگتا ہوا آتا اور محبت سے باتیں کرتا۔ ایک بار شاید لاہور ایئر پورٹ پر خاصا عرصہ بیٹھا اپنی زندگی کے ورق الٹتا رہا اور سناتا رہا۔
اس کی تیزی کی بھی ایک مزے دار مثال دیتا چلوں اس سے پتا چلے گا۔ وہ کس طرح راستہ ہموار کیا کرتا تھا۔ ایک دن سید منور حسن ملے، ان دنوں وہ غالباً جماعت اسلامی کے امیر تھے یا سیکرٹری جنرل۔ خبریں آ رہی تھیں کہ پیپلز پارٹی کے جماعت اسلامی سے رابطے ہو رہے ہیں اور یہ رحمن ملک منصورہ جا پہنچے ہیں۔ منور حسن نے مجھ سے چھوٹتے ہی پوچھا کہ بھئی یہ تم نے کیا رحمن ملک کو میرے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ جب ملتا ہے کہ منور صاحب آپ سے تو سجاد میر کے ساتھ پرانی ملاقاتیں رہی ہیں۔ دراصل منور صاحب دو چار بار ہمارے اسی گھر میں تشریف لائے ہونگے جہاں یہ نوجوان بھی تھا جو ابھی ایک طالب علم تھا۔ ان سے بھی آمنا سامنا ہوا ہو گا جو ان کو یاد نہ رہا ہو گا کہ اس وقت تو یہ بس ایک طالب علم تھے۔ مگر اس نے سیاسی مذاکرات میں بے تکلفی پیدا کرنے میں اس پس منظر کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا۔
مجھے لگتا ہے وہ اسی طرح منزلوں پر منزلیں مارتا آگے بڑھتا گیا۔ جانے وہ کن کن طریقوں سے ایم کیو ایم کو اپنی بے تکلفی سے رام کرتا رہا ہو گا۔ جانے وہ کیسے بے نظیر کے اتنا قریب ہو گیا ہو گا کہ میثاق جمہوریت لندن میں ان کے گھر پر ہوا۔ نواز شریف غالباً ان کی میزبانی قبول کرنے میں بوجوہ متذبذب تھے مگر بے نظیر کا اصرار تھا کہ میٹنگ یہیں ہو گی۔ اس سے دنیا کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ رحمن ملک بے نظیر کے کتنا قریب ہے۔ کیوں ہے، یہ سب کیسے ہوا۔
کم از کم مجھے تو اس کی خبر نہیں، مگر وہ اتنا اہم ہو چکا تھا کہ بے نظیر کے بعد بھی وہ آصف زرداری کا قریبی آدمی گنا جاتا تھا۔ اتنا قریبی کہ عدالت نے اسے سزا سنائی، نتیجہ یہ ہوتا کہ اسے وزارت چھوڑنا پڑتی مگر صدر زرداری نے اپنے صدارتی اختیارات کرتے ہوئے یہ سزا معاف کر دی۔ بلا شبہ زرداری بھی دوستوں کے دوست ہیں۔ رحمن ملک ان کے لئے اتنا ہی اہم تھا۔
ایک بار میرے چینل نے جانے کیوں خواہش ظاہر کی کہ رحمن ملک کا انٹرویو کیا جائے۔ وہ ان کے قابو نہیں آ رہا تھا۔ جب یہ کام مرے ذمے لگا تو مرے پروڈیوسر نے ان کے سیکرٹری کا فون کر کے پیام دیا۔ رحمان ملک اس وقت سنٹرل ایشیا کے کسی ملک میں تھے، جانے ازبکستان یا تاجکستان۔ ان کے سیکرٹری نے وہیں اطلاع دی ہو گی۔ رات گئے رحمن ملک کا وہیں سے فون آیا کہ سر، میں یہاں ہوں، پرسوں اسلام آباد ہوگا۔
مجھے وہاں سے بھی چند گھنٹوں کے بعد مڈل ایسٹ کے کسی ملک کا نام لیا کہ وہاں جانا ہے۔ آپ اگر اس عرصے میں چاہیں تو اسلام آباد تشریف لائیں، میرے ساتھ دوپہر کا کھانا کھائیں۔ رہا انٹرویو، تو یہ مرے لئے اعزاز ہو گا۔ پروگرام میں تاخیر ہوئی تو ہدایت کی ان کے تمام ساتھیوں کو فوٹو گرافر پروڈیوسر وغیرہ کے لئے بھی کھانے کا انتظام کیا جائے۔ انٹرویو کے درمیان بھی انکسار کا اظہار کرتا رہا۔
میں نے کہا میں ان کے اسلوب حیات اور طرز سیاست کا زیادہ قائل نہ تھا، مگر اس کے اس انداز نے کبھی موقع ہی نہ دیا کہ کچھ کہہ سکوں۔ پھر اس نے حسین حقانی کی طرح کوئی ایسا کام بھی نہ کیا کہ میں قومی مفاد میں اپنے ایک عزیز کے خلاف پھٹ پڑوں۔ حسین حقانی تو مجھے بچوں کی طرح عزیز تھا۔
ہاں، ایک وقت ایسا آیا کہ وہ جس منصب پر تھا، اس میں بیٹھا مجھے اچھا نہ لگا۔ وہ اسلام آباد میں ایک ایسی حساس ادارے کا سربراہ بن گیا تھا جس پر اس سے پہلے مرے بہت پیارے دوست میجر عامر فائز تھے۔ مگر اس پوزیشن میں بھی اس نے کمال کر دیا۔ وہ جنرل نصیراللہ بابر کا دست راست بن گیا اور کراچی میں فوجی آپریشن کے بعد جنرل بابر نے جو کارروائی کی، وہ اس کی روح رواں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی آیا تو جنرل صاحب کی صحافیوں سے ایک میٹنگ کا بندوبست تھا۔ میٹنگ سے پہلے مجھے دیکھا تو اٹھا کر اندر جنرل صاحب کے پاس لے گیا۔ بہت سے خبریں مجھے الگ سے مل گئیں۔ وہ رحمن ملک کی شان میں رطب اللسان تھے۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ اس نے کیا جادو کیا ہو گا۔
میری اس سے آخری ملاقات کو بھی کئی سال ہو گئے ہیں۔ دراصل یہی کوئی باضابطہ ملاقات تھی۔ شاید نواز شریف کا زمانہ تھا میں نے کسی وقت کہا ہو گا کہ آپ لاہور آتے ہو تو کبھی وقت نکالو میں بہت سی باتیں جاننا چاہتا تھا۔ رات کو فون آیا کہ آپ کہتے تھے تو میں اس وقت لاہور میں ہوں۔ آپ حکم دیں تو حاضر ہو جاتا ہوں مگر میں چاہوں گا آپ مرے ساتھ ناشتہ کریں۔ وہ بحریہ ٹائون کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ کہنے لگا یہاں تنہائی بھی ہو گی اور کوئی ڈسٹرب کرنے والا بھی نہیں۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ یہ گویا مری اس سے واحد ذاتی ملاقات تھی۔ خالص ذاتی۔
زندگی میں نہ مجھے اس سے کوئی کام پڑا۔ نہ اس نے مجھے کوئی کام کہا۔ صرف ایک بار جامعہ پنجاب کے ایک وفد کے ساتھ مجھے انڈونیشیا جانا تھا، پتا چلا مرا پاسپورٹ ختم ہوا چاہتا ہے۔ سب نے اصرار کیا کہ وزیر داخلہ رحمن ملک کو کہو۔ میں نے لاکھ کہا کہ یہ بھی کوئی کام ہے، یہیں سے کرا لیتے ہیں۔ مگر سب شرارت پر تلے ہوئے تھے۔ میں نے ایس ایم ایس کیا کہ پاسپورٹ میں توسیع درکار ہے، سنا ہے یہ محکمہ آپ کے انڈر آتا ہے۔ چند گھنٹے میں متعلقہ افسر مجھ سے رابطے میں تھے۔ بس یہ ایک کام میں نے اس سے لیا ہو گا۔ حق مغفرت کرے۔ زندگی بھر اس کے انداز کا مذاق اڑاتے رہے مگر آج بے ساختہ اس پر کالم لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ آخر کوئی بات ہو گی۔