ابھی ابھی ہم نے یوم یکجہتی کشمیر منایا ہے۔ اس موقع پر میں نے سردار عتیق الرحمن کی گفتگو ایک چینل پر سنی ہے، جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ مودی نے کہیں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ غالباً 2032ء تک آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان بھارت کا حصہ ہوں گے۔ سردار صاحب آزاد کشمیر کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، سردار عبدالقیوم جیسے مجاہد اول کے صاحبزادے ہیں، ان کا کہنا تھا، مودی نے آج تک جو کچھ کہا ہے اس پر عمل کر کے دکھایا ہے۔
اس نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا کر دکھائیں گے۔ اس نے ایسا کر کے دکھایا، آئین ہند میں وہ تبدیلی کی جس کا اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہم اسے صرف سیاسی نعرہ بازی یا گیدڑ بھبکی سمجھتے رہے، مگر اس نے کر دکھایا۔ وہ جو کہتا ہے وہ اس کے منصوبوں کا حصہ ہوتا ہے۔ اب ہمیں اس کی اس تقریر کو بھی محض سیاسی نعرہ سمجھنے کی بجائے ان کے عزائم کا حصہ سمجھنا چاہیے اور ہرگز غافل نہیں بیٹھنا چاہیے۔
اس موقع پر مجھے پاکستانی میڈیا میں کہیں رپورٹ ہونے والی ایک خبر یاد آئی، جس میں انڈیا میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے جو سکیورٹی پلان تیار کیا ہے، اس میں بھارت سے سو سال تک امن کی بات کی گئی ہے۔ اس پر کچھ لے دے بھی ہوئی۔ اس لئے کہ پاکستان نے جو اس پلان کے مندرجات جاری کئے ہیں، اس میں یہ بات نہیں تھی۔ اس پر ہمارے سکیورٹی کے مشیر نے کہا بھی کہ بعض باتیں خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ شاید ان میں یہ بات بھی ہے۔
پہلے بھی کئی بار ہوا ہے کہ جو بات پاکستانی عوام سے پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔ وہ بھارت میں شائع ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر حمود الرحمن کمشن رپورٹ کی خبر بھی ہمیں بھارتی میڈیا سے ملی تھی۔ بھارت میں اس پر تبصرے بھی ہوئے ہیں، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت اتنی کمزور ہے کہ وہ بھارت سے اپنے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ معیشت کو سنبھالا دے سکے۔
بات سے بات نکلتی ہے۔ اس پر مجھے پاکستان کے ممتاز صنعت کار میاں منشا کی وہ تقریر یاد آئی جو انہوں نے چند دن پہلے ہی کی ہے اور جس میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہمیں بھارت سے اپنے معاملات ٹھیک کر کے تجارت شروع کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں آپ دیکھیں گے کہ مودی ایک ماہ میں پاکستان پہنچے ہوں گے۔ ان تمام باتوں کو جوڑا جائے تو بہت سی باتیں سمجھ آتی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے افواج پاکستان کے ترجمان نے اس بات پر احتجاج کیا کہ بھارت کا آرمی چیف یہ کہتا پھرتا ہے کہ بھارت نے کشمیر پر فائر بندی مضبوط پوزیشن کے ساتھ کی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کا پلّہ بھاری ہے اور پاکستان اتنا کمزور ہے کہ وہ فائر بندی پر مجبور ہو گیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ ہم نے یہ سیز فائر اس لئے کی ہے کہ دونوں طرف کے کشمیریوں کی جانوں کا ضیاع ہو رہا تھا۔
کڑی سے کڑی ملاتے جائیے۔ یہاں میرانکتہ نظر یہ نہیں کہ سب غلط ہو گا مگر پاکستانی قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ میں نے اس پر اپنے تحفظات ظاہر کئے تھے، جب ہم نے اپنے سکیورٹی کی بنیاد معیشت کو قرار دیا تھا، یہ نہیں کہ یہ بات غلط ہے بلکہ اس وقت اس پر زور دینا کیوں ضروری محسوس کیا گیا۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ معیشت کی مضبوطی کے نام پر کہیں اپنی معیشت کو دوسروں کی غلامی میں تو نہیں دے رہے، جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمیں بری طرح جکڑ لیا ہے۔
ہم کچھ بھی ان سے پوچھے بغیر نہیں کر سکتے۔ چینی بنکوں نے ہمارے ایم ایل ون ریل منصوبے کے لئے قرضہ منظور کر رکھا ہے۔ مگر ہم وہ قرضہ بھی نہیں لے سکتے۔ ہم نے سی پیک کے تمام منصوبوں کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ میں اس پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ وزیر اعظم اہم دورے پر چین گئے ہوئے ہیں، بس آنے ہی والے ہیں، ان کی واپسی کا انتظار ہے تاکہ درست اندازہ لگایا جا سکے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔
اس دورے کی ابتدا پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا یہ بیان حیران کن ہے کہ پاکستانہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے اور یہ کہ کسی ملک کے چین سے تعلقات ہوتے ہیں تو اس سے اس ملک کے امریکہ سے تعلقات پر فرق نہیں پڑتا۔ یا شاید یہ کہ دونوں سے الگ الگ تعلقات رہ سکتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں میں پہلی بار ایسا بیان آیا ہے۔ وگرنہ یہی خبریں آ رہی تھیں کہ بھارت اب ہمارا اس خطے میں سٹریٹجک پارٹنر ہے۔
پاکستان اب ہمارا نان نیٹو حلیف بھی نہیں ہے اور یہ کہ پاکستان سے ہمارے معاملات اب افغانستان کی حد تک ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں کیا نقشہ بننے جا رہا ہے۔ البتہ یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جو ہونے والا ہے۔ خود کو کم از کم اس کے مطابق ڈھال سکوں۔ مادی فائدے تو دیکھ لیں گے، اتنا تو ہو کہ اپنی روح کو مطمئن کر سکوں۔ میں نے تمام عمر اس خیال کے ساتھ گزاری ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، میری آزادی مکمل نہیں ہوتی اور اس وقت تک بھارت سے تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ ہم نے اس خاطر تین جنگیں لڑی ہیں، آدھا ملک گنوا دیا ہے۔ بعد مدت کے اب آیا ہے ہوش۔ تو کم از کم ہم پاکستانیوں کو اس کی خبر ہونا چاہیے۔
ہم نے اس ملک کو سکیورٹی ریاست بنائے رکھا اور اس کی بڑی قیمت ادا کی۔ جانے کیا کیا نقصان کیا۔ اب چلئے ہم معیشت کو اہمیت دینے لگے ہیں تو معلوم ہو کہ کس قیمت پر۔ کیا ہم کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ معاف کیجیے، ایسی فکر رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ بتائیں کہ ہم اب کیا کرنے جا رہے ہیں تاکہ یہ قوم بھی اطمینان سے اس راہ پر چل نکلے۔ ایک اور یوٹرن سہی۔ کیا معلوم کل تاریخ دان ہمیں بتا رہا ہو کہ ہم نے نپولین اور ہٹلر کی طرح غلطیاں کی تھیں۔ اب ہم ہائوس ان آرڈر کر رہے ہیں، صرف افغانستان میں نہیں، بھارت کے حوالے سے بھی۔ چار پیسے ہی کما لیں، اب تک ہم گویا جہاد پر نکلے ہوئے تھے۔ ہمارے بڑوں نے بھی ہمارے دماغ خراب کئے ہوئے تھے۔
چلئے اب اپنی قسمت بنانے نکلتے ہیں معیشت سنوارتے ہیں، معیشت۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رہی اور اشرافیہ ہے کہ اس کھیل میں خوب کما رہی ہے۔ تو اب سب ٹھیک ہو جائے گا نا۔ پھر تو یوٹرن نہیں لینا پڑے گا۔ یہی سلامتی کا راستہ ہے تو پھر ٹھیک ہے۔