ویسے تو فوج کے ترجمان جنرل افتخار بابر نے ایسی پریس کانفرنس کی ہے کہ اس پر درجنوں مضمون باندھے جا سکتے ہیں۔ خیر اب روز ہی خبریں آیا کریں گی جو دلوں کو گرماتی اور رلاتی رہیں گی تاہم بعض باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں جن کا بیان ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں 4دن کے اندر میں نے دو سفر کئے جن کا الگ الگ سے تذکرہ اس لئے رہ گیا کہ ملک کی سیاست نے کچھ سوچنے سمجھنے سے بھی قاصر کر رکھا تھا۔
ایسے اعصاب شکن حالات تو بقول ایک مرد دانا کے سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ بہرحال یہ دو سفر سرگودھا اور ساہیوال کے تھے۔ ان میں دوسرا سفر اس لئے اہم نہیں تھا کہ ساہیوال وہ شہر ہے جہاں میرا بچپن گزرا ہے اور جہاں کے زعماء کے درمیان میری تربیت ہوئی، یہاں کے اساتذہ یہاں کے ادبا میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ مجید امجد جیسے شاعر یہاں کی شان تھے اور مجھے طالب علمی ہی کے زمانے سے ان سے قربت کا شرف حاصل تھا۔ پھر منیر نیازی گاہے گاہے یہاں اپنے گھر آیا کرتے تھے، اگرچہ وہ وہاں سے لاہور منتقل ہو چکے تھے۔
ہاں میں بتا رہا تھا کہ یہ سفر اس لئے اہم نہیں تھا مگر اس کے تذکروں میں کھو گیا۔ کہنا میں چاہتا تھا کہ یہاں مجھے تو یہ کہہ کر بلایا گیا کہ میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام ہے مگر اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ شام الخدمت والوں نے ایک عشائیہ کی شکل میں مرتب کی تھی، جو فنڈز جمع کرنے کے لئے تھا۔ شہر بہت ہی بدل چکا ہے کل جہاں دوستوں کے ساتھ چارپائی ڈال کر گپ شپ کیا کرتے تھے، اب وہاں پلازے کھڑے ہیں زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی، جب ہمارے میزبان لقمان صاحب رہنمائی کرتے ہوئے، ایک خوبصورت عمارت تک لے گئے۔
میں سمجھا کوئی کاروباری پلازہ ہو گا، مگر یہ جان کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ بڑے سلیقے اور کرینے سے بنی ہوئی یہ عمارت ایک ہسپتال ہے، جو الخدمت چلاتی ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ ادارہ بلا شبہ کامیابی کی ایک روشن مثال ہے۔ لاہور میں ان کی کارروائیوں اور کاموں سے تو واقفیت ہوں۔ ہر سال میں جب بھی ان کالموں میں ماہ رمضان میں اپنا فرض ادا کرتا ہوں اور ان اداروں کا تذکرہ کرتا ہوں، جنہیں بندگان خدا اپنی زکوٰۃ میں حصہ دار بنائیں، تو الخدمت ان میں سرفہرست ہوتا ہے نعمت اللہ خاں کے زمانے سے میں ان کی سرگرمیوں سے واقف ہوں۔
یہاں الخدمت کے مرکزی نائب صدر اور ہمارے دوست احسان اللہ وقاص بھی آئے ہوئے تھے۔ ایسی خوبصورتی سے انہوں نے الخدمت کی خدمات کا نقشہ کھینچا کہ ہر اہل دل کو گرما گیا۔ مجھے تو خوشی اس بات کی ہوئی کہ میں اپنے شہر کے حوالے سے کوئی ایسا تاثر نہیں رکھتا تھا کہ یہاں خدمت کا کام اتنے بڑے پیمانے پر ہو گا۔ ہسپتال دیکھ کر دنگ تھا، معلوم ہوا اسے مزید توسیع دینے کا منصوبہ ہے۔ رحمت وٹو صاحب جماعت کے انتہائی سلیقہ مند اور فعال امیر ہیں۔ انہوں نے تفصیل بتائی کہ کس طرح یتیموں کی کفالت کے پروگرام سے لے کر الخدمت دسترخوان تک کتنے ہی منصوبے ان لوگوں نے اس شہر بلکہ علاقے کا جھومر بنا رکھے ہیں۔
الخدمت پر تو میں الگ سے لکھوں گا۔ اخوت، الخدمت اور الغزالی ایسے کتنے ہی ادارے ہیں جو اس ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کی یاد دہانی میں نے عرض کیا ایک فریضہ ہے جو ہر سال ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ خصوصی تذکرہ تو میں اس لئے کر رہاہوں کہ مجھے اپنے شہر میں اس تنظیم کے شاندار کاموں کا اندازہ کر کے بہت مسرت ہوئی۔ اس میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ یہ لوگ خدمت کے جدید اسلوب سے بھی باخبر ہیں۔ یہی رحمت وٹو صاحب اس تقریب کا ذکر بھی کر رہے تھے جو کالج کی المنائی نے منعقد کی تھی اور اس سے پہلے گورنمنٹ سکول اور میں میری آمد کی بھی خبر تھی۔ گویا متحرک اور فعال شخص ہیں۔
یہ سب وجوہ ہیں جن کی وجہ سے میں نے ساہیوال کے سفر کا ذکر پہلے کیا، وگرنہ اس سے پہلے سرگودھا یونیورسٹی بھی جانا ہوا جہاں ہمارے دوست ممتاز علم پرور پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر آج کل وائس چانسلر ہیں۔ ایک تو ان کا حکم دوسرے ہمارے حسین احمد پراچہ کے فرزند سلمان پراچہ کا اصرار اس قدر تھا کہ میں وہاں جانے پر مجبور ہوا، یہ 23مارچ کے حوالے سے فنکشن تھا، جو اگرچہ 29مارچ کو منعقد کیا گیا۔
سرگودھا یونیورسٹی بھی میرے لئے نئی نہیں ہے۔ سات آٹھ بار گزشتہ چند برس میں جا چکا ہوں، اس بار اس میں محترم سلیم مظہر کی محبت بھی شامل تھی۔ اس حوالے سے مجھے ایک بات اچھی لگتی ہے، جب ایسے شہروں کی یونیورسٹیاں ان مسائل پر زیادہ توجہ دیتی ہیں، جن کا تعلق پاکستان کے بنیادی مقاصد سے ہوتا ہے، یہ تربیت کا ایک بہت خوبصورت انداز ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب طالب علمی کے زمانے میں ہمارے کالج سے کوئی باہر کا مہمان آیا کرتا تو یہ گویا ہمارے لئے ایک مسرت کا دن ہوتا۔ ہو سکتا وہ سب باتیں ہمارے اساتذہ نے بھی نہایت عمدگی سے بتا رکھی ہوں مگر جب انہیں اپنے کسی مہمان سے سنتے تھے تو یہ میں بیٹھ جاتی تھیں۔ یہ ڈاکٹر حسین پراچہ تو اسی شہر کے ہیں، پھر وہاں میں نے پروفیسر غلام عباس کو دوسری بار سنا۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس شہر میں ایسے نگینے بھی ہیں۔ اب سلیم مظہر یہاں آ گئے ہیں تو وہ یقینا مشرق کی روح اور اقبال کے مزاج کو یہاں کے طلبہ میں عام کرنا چاہیں گے سو وہ کر رہے ہیں۔
لاہور کے اردگرد کئی یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں۔ سیالکوٹ، گجرات، اوکاڑہ اور ساہیوال میں تو یونیورسٹی کے علاوہ پوسٹ گریجوایٹ کالج بھی ہے۔ یہ سب احوال اہل علم کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ علم کی روشنی اور تربیت کے اسلوب اسی طرح پھیلتے ہیں۔ خدا کرے یہ اسلوب اور پھیلیں کہ میرے وطن کو اس کی ضرورت ہے۔ جمہوریت سے زیادہ اس روح مشرق کی ضرورت ہے جو بقول ابھی بدل کی تلاش میں ہے۔
یہ سب تربیت کے ادارے اور خدمت کے ادارے ہیں اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان اپنی تمام اعصاب شکن سرگرمیوں کے باوجود زندہ ہے۔ میں جب بھی ایسے کسی ادارے میں جاتا ہوں یہاں ایسی کسی سرگرمی کو دیکھتا ہوں کہ یقین آ جاتا ہے کہ پاکستان کو کوئی نقصان نہیں نہیں پہنچا سکتا۔ وگرنہ ہمارے جسد سیاست پر جیسے کھائو لگائے گئے اب تک تو ہم اس سے لہولہان ہو چکے ہوتے۔ مگر خدمت اور تربیت کا یہ جذبہ ہی ہے جو اسے سلامت رکھے ہوئے ہے۔