پہلے تو میں افضال ریحان کا تعارف کرا دوں۔ وہ جو میں جانتا ہوں۔ اس کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں ایک پرانا واقعہ سنایا تھا۔ مرے پاس ایک نوجوان آیا کرتا تھا۔ بہت ہی پرانی بات ہے۔ وہ نوجوان کبھی ایک نکتہ نظر سے متاثر ہوتا کبھی دوسرے سے۔ مگر سچائی کی تلاش میں رہتا۔ ان دنوں وہ سو فسطائی تھا۔ کہنے لگا معلوم ہے، میں یہاں تک کیسے پہنچا۔ پھر بتایا کہ میں کراچی میں سو فسطائی کی ہال تک گیا تو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھاNo Religion is Higher Than truth یعنی کوئی مذہب سچائی سے بالاتر نہیں۔ پھر اس نے مری طرف داد طلب نظروں سے دیکھا اور پوچھا کہ کیسی لگی آپ کو یہ بات۔ اس کا لہجہ ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ اب دیکھتا ہوں، آپ کیسے سوفسطائی نہیں ہوتے۔ میں نے دھیرے سے کہا بات تو آپ کی اچھی ہے۔ مگر میرا عقیدہ ذرا دوسرا ہے۔ پوچھنے لگا وہ کیا ہے۔ عرض کیا No Truth is higher Than Relegion یعنی کوئی سچائی مذہب سے بالاتر نہیں ہوتی۔ یہ سن کر وہ تو چپ سا ہو گیا۔ ہمارے سلیم احمد کو یہ طریقہ استدلال اتنا پسند آیا کہ اگر کوئی اس طرح کی بلند بانگ کلیہ بازی کے دعوے کرتا تو وہ کہتے میر کو لے جائو۔ یعنی یہ طریقہ استعمال کرو ان دعوئوں کو الٹادو تو بھی ایک خوبصورت سچائی سامنے آتی ہے۔ وہ لڑکا آخری بار ملا تو داڑھی رکھے ایک نقشبندی بزرگ ہو چکا تھا۔
میں نے عرض کیا تھا کہ یہ افضال بھی اس نوجوان کی طرح متلاشی حق ہے۔ جانے کل کس روپ میں نظر آئے۔ مگر ہمیشہ سچ کی جستجو کرتا رہتا ہے۔ اب مگر لگتا ہے عمر کی پختگی کے ساتھ وہ بعض نظریات پر پکا ہو گیا ہے۔ ایک تنظیم لبرل ہیومن کی بنا رکھی ہے۔ جس پر میں مذاق سے اور محبت سے کبھی کبھی پھبتی کستا رہتا ہوں۔
اب کی بار اس نے صبح 8 بج کر 35منٹ پر پیغام دیا کہ دو بجے پنجاب یونیورسٹی پہنچ جائو جہاں سرسید پر ایک سیمینار ہے جس میں بڑے جید علماء خطاب کریں گے۔ موضوع ہو گا سرسید خرد مندوں کا امام غالباً اس کا خیال ہو گا کہ کم وقت اور جید مقررین کی موجودگی کی وجہ سے میں بھاگ جائوں گا۔ مگر سرسید پر گفتگو کرنے کے لئے بھی بھلا کسی تیاری کی ضرورت ہے۔ اور وہ بھی اس صورت میں جب خدشہ ہو کہ وہاں کوئی فسادی قسم کی گفتگو بھی ہو سکتی ہے۔ سو میں وہاں جا پہنچا وہ تو اللہ نے کرم کیا کہ ماحول اور شرکاء بہت ہی معقول تھے۔ اور افضال ریحان بیچارے کی سازش کامیاب نہ ہو پائی۔ وہ میزبان تھا بیچ میں شرارت کرتا رہا۔ ہم بھی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے۔ بہرحال سیمینار بہت عمدہ اور جاندار ہوا۔ آغاز تو صدر شعبہ نوشینہ افتخار نے کیا اور اپنے مقام و مرتبہ کے مطابق سرسید پر بڑی جچی تلی بات کی۔ سچ پوچھئے تو اس دن سب نے بہت عمدہ باتیں کیں۔ یاسرپیرزادہ سے افضال ریحان کو بہت امیدیں تھیں۔ مگر اس عزیز نے تو گویا اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ یاسر مضمون لکھ کر لائے تھے اور جم کر بولے۔ اس واقعے کی تفصیل بیان کی جو سرسید کی زندگی کا ایک اہم باب ہے۔ جب حضور ؐکی زندگی پر ولیم میور کی کتاب چھپی تو سرسید نے اس کا جواب دینے کا فیصلہ کر لیا۔ بیٹا سکالر شپ پر تعلیم کے لئے لندن روانہ ہوا تو ساتھ چل دیے۔ انگریزی زبان پر عبور نہ تھا۔ سیکھتے رہے اور پڑھتے رہے۔ اقتباسات کے ترجمے کراتے رہے۔ ضروری مواد دنیا بھر سے منگواتے رہے ایک وقت وہ آیا کہ سرمایہ کم پڑ گیا تو گھر خط لکھا کہ اس کام کے لئے گھر کے برتن بھی بک جائیں تو بیچ دو میں یہ کام ضرور پورا کروں گا۔
یہ وہ فقرہ ہے جس پر مری جان بھی فدا، میں نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ سرسید کے اس کام پر اور اس فقرے پر تو اس کے سارے گناہ معاف کئے جا سکتے ہیں۔ اس کی بخشش کے لئے یہ ہی کافی ہے۔ پھر عرض کیا کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر علی گڑھ نہ ہوتا تو شاید پاکستان اتنی آسانی سے بن نہ پاتا۔ وہ پاکستان کے بانیوں اور اسلامیان ہند کے محسنوں میں سے ہیں۔
پھر چند باتیں عرض کیں جو سخن گسترانہ ہو سکتی ہیں۔ عرض کیا یہ جو آپ انہیں خردمندوں کا امام کہتے ہیں تو اعتراض اس پر ہے کہ میں خرد مندی کی تحریک کا مخالف ہوں چاہے وہ مغرب میں Rationalist کی شکل میں ہو یا ہمارے ہاں معتزلہ کی شکل میں۔ میں عقل کا مخالف نہیں، مگر ایمان و وحی پر عقل کو کسوٹی بنانے کا قائل نہیں۔ پھر تجربیemperical اور عقل پرستی Rationalist کا فرق عرض کیا۔ ایک پرانا لطیفہ سنایا کہ یونانیوں کا کہنا تھا کہ عورت کے دانت مرد سے کم ہیں کیونکہ وہ کمزور ہے۔ یہ منطق کی بات ہوئی نا۔ کسی نے پھبتی کسی اتنا نہ ہوا کہ اپنی بیوی کا منہ کھلوا کر اس کے دانت ہی گن لیتے۔ یہ مشاہدہ کی بنیاد پر تجربی منہاج ہوتی۔
پھر ایک غلط فہمی کا ازالہ کیا۔ بعض لوگ اسلام میں معتزلہ کی ناکامی کو ایک بدقسمتی سمجھتے ہیں۔ یہی عقل پسند لوگ، پاکستان کے مشہور فلسفی ڈاکٹر منظور احمد نے جب بار بار یہ کہا کہ معتزلہ کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ وہ اقتدارسے باہر تھے اور مخالف اقتدار میں تھے۔ عرض کیا حضور غلط فہمی ہوئی ہے۔ تین عباسی خلیفہ تو باقاعدہ معتزلی ہو گئے تھے۔ اور ہمارے اماموں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ وہ اسی وجہ سے تھے کہ خلیفہ کے عقیدے کو مانتے نہ تھے۔ شاید غلط فہمی اس لئے ہوئی کہ قاضی یوسف نے عہدہ قضاقبول کر لیا تھا مگر یہ اشاعرہ یا ماتردیدیہ کی جیت نہ تھی۔ عرض کیا کہ عقل کا استعمال غلط نہیں۔ اسے معیار حق بنانا غلط ہے۔ معتزلہ کے جواب میں پہلے اشاعرہ نے پھر ماتردیدیہ نے بھی تو کہا تھا۔ یہاں ایک بات اور عرض کی جو میں نے 76ء میں لکھی تھی کہ خاندان ولی اللہ سے تینوں نے فیض پایا۔ سرسید احمد خان مولانا قاسم ناناتوی اورمولانا فضل الحق۔ ایک عقل کی علامت میں ایک علم کی اور ایک عشق کی۔ علی گڑھ، دیوبند اور بریلی۔۔۔۔۔۔۔
ایک غلطی کا اور ازالہ بھی ضروری ہے۔ سرسید کو اقبال کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ عرض کیا اقبال کا فکری پیش رو جمال الدین افغانی تھے۔ جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا اگر انہیں سیاست سے فرصت ملتی تو اپنے عہد کے مجدد ہوتے۔ سرسید کو اقبال نے مصلحین میں شمار کیا ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے مصلحین عموماً انتہا پسند ہوتے ہیں۔ تین مصلحین کا تذکرہ اکٹھا کیا ہے اتاترک، سرسید اور محمد بن عبدالوہاب اب ذرا دیکھیے۔ محمد بن عبدالوہاب اور اتاترک میں کتنا تفاوت ہے۔ مگر اقبال ان سب کو مصلحین میں شمار کرتے تھے۔ سرسید اقبال کے اس طرح پیش رو نہ تھے جس طرح بعض متشرقین جدیدیت کی تحریک کا مطالعہ کرتے ہوئے شمار کرتے ہیں۔ سرسید، اقبال اور غلام احمد پرویز کو ایک صف میں لکھ دیتے ہیں۔ مرے اقبال کے پیش رو افغانی تھے اور جاوید اقبال، افضال ریحان اور مغربی مشترقین کے اقبال کا پیش رو سرسید تھا۔
سرسید پر جتنے اعتراض ہیں وہ زیادہ تر اس عقل پرستی کی روشنی میں مذہب کی تعبیر کرنے پر ہیں یا انگریزی کا ساتھ دینے پر۔ دونوں ہاتھوں پر جمال الدین افغانی کے تبصرے میں جنہیں میں ہو بہو یہاں ازراہ احترام نقل نہیں کرنا چاہتا۔ معتزلہ کے بارے میں تو یہ کہا کہ وہ عالم لوگ تھے اور یہ بیچارہ سیداحمد۔۔۔۔۔۔ معافی چاہتا ہوں وہاں پورا فقرہ سنا دیا تھا یہاں نہیں لکھوں گا۔ افغانی چونکہ سامراج دشمن تھے اس لئے انہیں سرسید کی انگریز کے بارے میں نرمی بھی پسند نہ تھی اس سلسلے میں بہت سخت فقرہ ہے۔ تاہم سرسید کے کارنامے معمولی نہیں۔
مجاہد منصوری صاحب بھی مقررین میں شامل تھے۔ انہوں نے بہت عمدہ تجزیہ کیا۔ وہ چونکہ ابلاغیات کے استاد ہیں۔ اس لئے اس حوالے سے اکثر ایک خوبصورت بیانیہ مرتب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرسید کا کمال یہ تھا کہ ایک طرف انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے انگریز کی سوچ کو بدلا اور دوسرے جدید رجحانات کے تناظر میں مسلمان کی سوچ میں ایک انقلابی تبدیلی لائے۔ سچ کہیں تو انہوں نے یہ بڑے پتے کی بات کہی اور اس کے لئے جو زبان استعمال کی ایک میڈیا کے طالب علم کے طور پر میں اس کا مدح خواں ہوں اور تعلیم کو جس طرح ضروری سمجھا وہ بھی اس ابلاغی سوچ کا نتیجہ ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ سرسید کی عظمت کا خلاصہ ہے۔ یوں سمجھیے سارا پیراڈائم ہی بدل کر رکھ دیا۔
آخر میں خطبہ صدارت مجیب شامی صاحب کا تھا کہنے کی ضرورت نہیں کہ اتنے مشکل حالات میں انہوں نے بڑے سلیقے سے بحث کا نچوڑ بیان کر دیا۔ ساری باتیں جو کہی گئی تھیں۔ ان کا خلاصہ اور آج کے حالات میں ان سے رہنمائی کا طریقہ۔ کوئی شک نہیں یہ ایک کامیاب اور زور دار سیمینار تھا۔