کئی دن سے سوچ رہا ہوں کہ چند ایسے مسائل پر بات کر سکوں جو زندگی سے بہت قریب ہیں مگر پاکستان کی موجودہ صورت حال سے بہت دور ہیں۔ پاکستانی معاملات پر جو دو دن کے بعد قلم اٹھانے بیٹھتا ہوں تو سوچنا پڑتا ہے کہ کون سی بات پرانی ہو گئی ہے اور کون سی نئی ہے۔ اب یہی دیکھیے عمران خاں کے اس بیان پر ایک دُنیا تڑپ بیٹھی تھی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے غلط فیصلے کئے تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ پھر سب سے بڑا نقصان اسٹیبلشمنٹ ہی کو پہنچے گا یعنی فوج نہیں رہے گی۔
پھر پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہاتھ سے نکل جائے گا اور آخر میں پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ بہت سے تجزیہ نگار برسوں سے لکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اغیار کے دلوں میں یہی نقشہ ہوتا ہے۔ مگر اغیار کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ اصل خطرے کی بات اس وقت ہوتی ہے جب ملک کا کوئی اپنا سیاستدان خبردار کرتے ہوئے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگراسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کئے تو ایسا ہو گا۔
یہ درست فیصلے کیا نہیں ہیں؟ خود اسے اس قائد کی گفتگوکے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اسی تناظر میں بے شمار ایسے اقوال زریں ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ قائد محترم کی نظر میں درست فیصلہ صرف یہ ہے کہ اسے اقتدار سونپا جائے۔ وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ جب درندہ درندے کو کھا رہا ہو تو جنگل کے قانون میں نیوٹرل کھڑا دیکھتا ہے۔ انسان ایسا نہیں کرتا۔ سب کو معلوم ہے کہ نیوٹرل وہ کسے کہہ رہا ہے۔
وہ اپنی اس بات کو چھپاتا بھی نہیں۔ خود مذکورہ بالا فقروں کے مجموعے کی بافت یہ بتاتی ہے کہ روئے سخن پاکستانی فوج کی طرف ہے۔ پہلے صاف صاف کہا جا رہا ہے کہ انہیں فوج نے نکالا ہے۔ اس کے ساتھی تو صاف کہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات فوج سے خراب نہ ہوتے تو ہم اقتدار میں ہوتے۔ رہی یہ بات کہ ملک تین حصوں میں بٹ جائے گا۔ تھیوری کہاں سے آئی تو یہ الگ بحث ہے۔
قطع نظر اس کے کہ موصوف اور کیا کچھ کہتے ہیں اور ان کی پارٹی کے ممبران کیا سوچتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اس کے صرف دو مطلب ہوتے ہیں۔ فوجی آمریت یا سول آمریت۔ فوجی آمریت تو ہم سب جانتے ہیں کہ اسے مارشل لاء کہا جاتا ہے اور اس کی گنجائش فی زمانہ ہمارے دیس میں کم ہے۔ وجوہ بے شمار ہیں۔ رہی سول آمریت تو اس کو عرف عام میں فاشزم یا فسطائیت کہا جاتا ہے اور جب یہ معلوم ہو جائے کہ سول آمریت ہے کیا تو اسے روکنے کے لئے جو ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جائیں وہ ہولناک ہیں۔
صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ملک کو جمہوریت کی راہ پر ڈال کر حالات سے نکالا جائے۔ ہم نے مشرقی پاکستان میں ایسا کرنا چاہا مگر ناکام رہے۔ بنگلہ دیش نے اس راہ سے نکلنے کے لئے ایک ماڈل کا انتخاب کیا مگر وہ کوئی اچھا ماڈل نہیں ہے۔ عارضی طور پر تو ملک بحرانوں سے نکل آیا مگر ابھی راستے میں بہت سے کانٹے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ملک کو کم از کم بھارت کی برتری (Hegemony) قبول کرنا پڑی اور اپنے ہاں جھوٹ کی عدالتیں لگانا پڑیں۔
ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی کہ معیشت کی بحث اس طرح سر اٹھا لیتی ہے کہ لگتا ہے سب کچھ ڈوب رہا ہے۔ اس بحث سے ہٹ کر ہمیں تیل کی قیمتیں کیوں بڑھانا پڑ رہی ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس راستے میں بھی بے شمار کانٹے ہیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ انتخابات کے لئے جائیں مگر کیسے!
میں ایک عامیانہ انداز سے بات کر رہا ہوں، کیونکہ فلسفہ چھاننے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ عمران خان کا مطالبہ کہ الیکشن کا اعلان کر دیا جائے۔ وگرنہ میں اسلام آباد آئوں گا۔ میری حفاظت عدلیہ کو کرنا ہے، ایک ایسی بات ہے جیسے مریم نواز نے ازراہ تمسخر کہا تھا کہ ستر برس کا ایک بچہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر انقلاب لانے نکلا تھا مگر ابھی گھر تک نہیں پہنچا۔
آپ ضمانتیں مانگتے ہیں کبھی کہتے ہیں رانا ثناء اللہ کو ہٹائو، کبھی کہتے ہیں عدلیہ ضمانت دے۔ کبھی کہتے ہو نیوٹرل ہمارا ساتھ دیں، آپ صوبہ خیبر پختونخوا سے نکلنے سے کنی کتراتے تھے کہ کہیں حراست میں نہ لے لیا جائوں۔ دوسری طرف اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیتے ہیں کہ مجھے پکڑ لیا گیا، یا انتخابات میں دھاندلی کی گئی تو آپ نے آزادی کی اس تحریک کو روکنا نہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے اسمبلی میں جانے کے لئے آپ تیار نہیں، اگرچہ آپ کی پارٹی کے بعض افراد پرتول رہے ہیں مگر وہ آپ سے خوفزدہ ہیں۔
یہ کرشمہ سازی آپ کے ساتھ ہی نہیں، بھٹو بھی اس کا ایک مظہر تھا۔ نواز شریف کا بھی ایسا ہی جادو تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آج کے تجزیے یا سروے کیا کہتے ہیں۔ نہ میں جانتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی رائے کیا بنے گی۔ مجھے نہیں معلوم آپ برسر اقتدار آ گئے تو کیا ہو گا اور آپ شکست کھا گئے تو کیا طوفان تھمے گا یا تنکا بھی نہیں ہلے گا۔ دونوں باتیں ممکن ہیں، بھٹو کی پھانسی پر ایسا ہوا تھا۔ جب کوڑوں کی داستانیں یا آگ لگانے کی باتیں ہوتی ہیں وہ بعد کی ہیں اور فوری اور فطری نہیں ہیں۔ تاریخ کو درست رہنا چاہیے۔ میں بھٹو کا مخالف تھا مگر جب میں نے ایک ہفتے تک کوئی پروٹسٹ نہ دیکھا تو بہت اداس ہوا۔
یہ میں انشائیے کے انداز میں دل کے طوفان کو ہچکولے دے رہا ہوں وگرنہ ملک بہت خطرے میں ہے۔ یہ جو معاشی بحران کا تذکرہ ہو رہا ہے تو ایسا تو سقوط ڈھاکہ کے وقت نہیں ہوا تھا نہ اس وقت ایسی سیاسی قیامت تھی جو آج ہے۔ کتنی درد ناک بات ہے کہ جانے والوں نے ترقیاتی بجٹ میں ایک پیسہ نہیں چھوڑا۔ شاہد خاقان عباسی معیشت کے بارے میں جس طرح سچ بول رہے ہیں وہ تشویشناک ہے۔
آپ کے پاس بجلی پیدا کرنے کے لئے ایندھن خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اس میں تو اپنے بھی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ اب ہم کشکول لے کر نہیں پھر رہے ہوں گے مگر اپنوں کے آگے تو جھولی پھیلا رہے ہیں۔ ایک ایٹمی ملک اس حال میں ہو تو کیا تجزیہ ہو سکتا ہے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کیا صرف اپنی شہرت سے چلے گی۔ اگلے وقتوں میں بھی جب لشکر تیار ہوتے تھے تو سرمایہ درکار ہوتا تھا۔ اشرفیاں کہہ لیجیے۔
ہمیشہ ٹیکنالوجی اور اسباب جنگیں جیتنے کے لئے ضروری ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ بہادری اور شجاعت آتی تھی۔ خوامخواہ بھڑکیں مارنے سے ملک نہیں چلا کرتے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھئے۔ آپ کے ہاتھ پہلے ہی کچھ نہیں ہے صرف جذبہ ہے اور صرف جذبہ کہاں تک کام آئے گا۔