مجھے اپنے پرانے کرم فرما پروفیسر حسن رضوی کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ یہ جو نئی سکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ کوئی سکیورٹی پالیسی پڑھانے والا پروفیسر ایک یا دو تین لیکچر دے سکتا ہے، ایک بات انہوں نے اس ذیل میں اور بھی بڑے مزے کی کی کہ امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والا کوئی طالب علم بھی جو اس مضمون میں تعلیم حاصل کر رہا ہو یا کر چکا ہو ایسی دستاویز تیار کرسکتا ہے۔ یہ کہنا کہ ہماری کوئی سکیورٹی پالیسی نہ تھی، قطعاً غلط ہے بس اسے خوبصورت الفاظ کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ ویسے ان کے مطابق ن لیگ نے اپنی روانگی سے دو دن پہلے ہی ایک اس قسم کی پالیسی کا اعلان کیا تھا جو چار سال کے لیے تھی مگر ظاہر ہے کہ اس حکومت کے ختم ہوتے ہی یہ پالیسی دو دن میں اپنی موت مر گئی۔ اچھا کیا کہ ہم نے ایک دستاویز تیار کرلی۔
دستاویزات تو ہم نے بہت سی تیار کی ہیں قومی پلان بھی تو بنایا تھا ہم نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد، کیا بنا اس کا۔ کہتے ہیں کچھ شقوں پر عمل ہوا، کچھ پر نہیں مگر اس کی روح باقی رہی۔ یہ پالیسی قوم کے استصواب رائے سے بنی تھی۔ کوئی اوپر سے ہم پر نازل نہیں کی گئی تھی۔ اس حکومت کو دو خبط ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہر بات کو انہیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بات یہ ان سے سرزد ہورہی ہے اور دوسرے یہ کہ اس سے پہلے ستر سال تک اس ملک پر احمقوں اور بددیانت لوگوں کی حکومت رہی۔ ساری دیانت، پارسائی اور عقل و دانش تک بس ان کی رسائی ہے۔
انہیں یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ جو کچھ عقل و دانش یا دیانت داری ہے وہ صرف موجودہ حکمران ٹولے کے پاس ہے وگرنہ حزب اختلاف تو اس قابل بھی نہیں کہ ان سے ہاتھ ملایا جائے چہ جائیکہ قومی سلامتی کے معاملات پر ان کی رائے لی جائے، تاہم انہیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ پالیسی نہ کوئی معید یوسف دے سکتا ہے نہ سول اینڈ ملٹری اتحاد کے نام پر وجود میں لائی جا سکتی ہے اس لیے اس کے لیے وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اس لیے انہوں نے یہ اعتراف کرنا شروع کردیا کہ اس پر 2014ء سے کام ہورہا تھا۔ یعنی اس سال جب عمران خان کنٹینر پر سوار تھے اور نوازشریف اس ملک کا حکمران تھا کچھ بھی کہہ لیجے تاہم یہ دستاویز تیار کرنے والوں کا اصرار ہے کہ یہ دستاویز بہت حساس ہے اور اسے مکمل طور پر عام کرنے کی ضرورت نہیں۔
ان حالات میں بتائیے کہ یہ دستاویز اس ملک کی سلامتی پر کیا قابل قدر کردار ادا کرسکتی ہے۔ جب میثاق معیشت یا میثاق پاکستان کی بات ہوتی تھی تو اس کا مطلب تھا کہ چند بنیادی باتوں پر اتفاق پیدا کیا جائے۔ ایسا اتفاق تو میثاق جمہوریت میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس کی روح کے مطابق کبھی پوری طرح عمل نہ ہوسکا لیکن اس کی وجہ سے بہت سے سیاسی تنازعے طے ہوئے، اور ہاں پیدا بھی ہوئے۔ یاد کیجئے کن لوگوں نے دستخط نہیں کئے تھے۔ وہ بروئے کار آئے۔
عمران خان اس وقت اس معاہدے سے الگ ر ہے تھے۔ پھر اس میں عدلیہ اور فوج کے حوالے سے جو فیصلے ہوئے تھے ان پر شاید اس لیے عملدرآمد نہ ہو سکا کہ وہ اس معاہدے کا حصہ نہ تھے۔ انہیں ہونا بھی نہیں چاہیے تھا کیونکہ اس معاہدے کا تعلق سیاسی حرکیات سے تھا جسے ناکام کر دیا گیا یا چلئے یوں کہہ لیجئے کہ ناکام ہوگیا تاہم اس کی بازگشت سنی جاتی رہتی ہے اور یاد دلاتی رہتی ہے کہ چند باتوں پر چند لوگوں میں اتفاق ہوگیا تھا۔ اس وقت بعض لوگوں نے اسے قرارداد مقاصد کے بعد سب سے اہم دستاویز قرار دیا تھا۔ اعتزاز احسن جیسے ماہرین قانون نے اسے البتہ 73 کے دستور کے بعد اہم ترین دستاویز کہا تھا مگر یہ سب خواب بن گیا۔ اسے وہ پشت پناہی حاصل نہ تھی جو استصواب رائے کے بعد بننے والی ایک دستاویز کو حاصل ہوتی ہے۔
قرارداد مقاصد البتہ ایک ایسی دستاویز تھی، اسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے بہت بحث کے تمحیص کے بعد پاس کیا تھا۔ بہت اختلاف ہوا تھا مگر کھل کر بحث ہوئی تھی۔ غلام محمد وغیرہ جسے لوگ اس قرارداد مقاصد کا چربہ پیش کرنا چاہتے تھے جو 46 میں ہندوستان کی اسمبلی نے پاس کیا تھا بالکل ایک سیکولر قسم کی دستاویز پوری ایک کہانی ہے کہ پھر کون کون بروئے کار ہے، کیا کیا بحث ہوئی، کس کس نہ حصہ لیا اور کہیے یہ دستاویز تیار ہوئی۔ سیکولر لابی آج بھی اس کے خلاف بولتی رہتی ہے مگر چونکہ یہ آسمانوں سے نازل نہ ہوئی تھی، اس لیے کسی کی مجال نہیں ہو سکی کہ اس کے بنیادی اصولوں سے انحراف کر سکے۔ اگرچہ اسے اس کی رائے کے مطابق اپنا لیا جاتا تو آج میرے دیس کا چہرہ بہت ہی دل فریب ہوتا۔
اب بھلا بتائیے ایسے میں اس دستاویز کا کیا کروں جو کسی امریکی تھنک ٹینک میں بھی تیار ہو سکتی تھی اور جسے قومی اتفاق رائے میسر نہیں ہے۔ مجھے تو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ اس وقت اس پالیسی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بہت سی باتیں ہیں جو ہمیں اچانک یاد آ رہی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس پالیسی میں کہاگیا ہے کہ قومی سلامتی کی بنیاد معیشت پر ہے۔ انہی دنوں ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے سٹیٹ بینک کی خودمختاری ضروری ہے۔ اس خودمختاری کو بعض لوگ بینک کی غلامی قراردیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ سٹیٹ بینک کے گورنر کو آئی ایم ایف کی طرف سے ملک کا اقتصادی وائسرائے بنانے کے مترادف ہے۔
خدا نہ کر ے ایسا ہو مگر اب جو یہ بحث ہورہی ہے ہمارے عسکری اکائونٹ صرف اور صرف سٹیٹ بینک میں رکھے جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی یہ خواہش کیوں ہے۔ ویسے تو اس ملک میں بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ہمارے فوجی اخراجات ایسے خفیہ نہ ہو کہ کسی قومی ادارے کو اس تک رسائی نہ ہو مگر جب یہ خواہش باہر سے آئی ہے تو کسی طور قومی مفادات یا خواہشات کا ترجمان نہیں کہا جا سکتا۔ وزیراعظم کا یہ فرمانا کہ جب ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو قومی سلامتی پر حرف آتا ہے۔ یاد نہیں کہ وزیراعظم کے اصل لفظ کیا استعمال کیا تھا مگر مطلب یہی تھا۔ ادھر کچھ لوگ چیخ رہے ہیں کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو خطرہ ہے۔ یہ سب باتیں جوڑ کر دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ تشویش کس بات کی ہے۔
خدا میرے ملک کوسلامت رکھے اور اس کی سلامتی کا ضامن بھی وہی ہے مگر یہ جو بحث ہورہی ہے یہ یونہی نہیں ہے۔ ہمیں اسے خوامخواہ کا تنازع نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب بھلا بتائیے کہ ایسے میں اس پالیسی کو میں قومی کیسے سمجھ لوں۔ اگر یہ اچھی دستاویز ہے بھی تو جس انداز میں سامنے آئی ہے اس نے شکوک پیدا کردیئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اس کا کچھ حصہ خفیہ رکھا جائے گا کہ و ہخفیہ ہے تو کوئی بات نہیں۔ حمود الرحمن کمشن کی طرح جب یہ بھی کسی بھارتی جریدے میں چھپ جائے گی تو ہم اسے تب پڑھ لیں گے۔ اتنی جلدی کیا ہے۔