Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Khabrain/
  3. Mere Khan e Azam Kuch Arz Karna Chahti Hoon

Mere Khan e Azam Kuch Arz Karna Chahti Hoon

میرے پیارے وزیر اعظم Seeds of Hope کے دنوں والی سرگرمیوں کے بعد میں آج ایک بار پھر تمہیں دیکھ رہی ہوں۔ یہ اکادمی ادبیات اسلام آباد کا فیض احمد فیض ہال ہے۔ جہاں 4نومبر کی اس سہ پہر جو لوگ موجود ہیں۔ انہیں قسموں اور خانوں میں بانٹوں تو پہلے نمبر پر70 ستر سال سے اوپر میری طرح کے لوگوں کی ایک بھاری اکثریت ہے۔ دوسرے نمبر پر 50سے اوپر کی اقلیت نظر آتی ہے۔ بیس سے اوپر کے ٹانواں ٹانواں دانے بھی کہیں کہیں جلوہ دکھا جاتے ہیں۔ پاکستان بھر سے آنے والے یہ اہل قلم یہاں ایوان اعزاز کی تقریب میں شرکت کے لیے جمع ہیں۔

اب ذرا دیکھو نا خان اعظم ہم جیسے عمر رسیدہ لوگوں کو دو بجے پہنچنے کا کہا تھا۔ مگر ڈیڑھ بجے ہی ہمارا داخلہ شروع ہوگیا۔ پرس کی ممانعت، موبائل فون نہیں، پانی کی بوتل نہیں۔ سکرینگ کے لیے جب خیمے کی طرف دھکیلا جارہا تھا۔ طاہرہ اقبال ہماری ممتاز لکھاری نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"میں نے اندر نہیں جانا۔ باہر کھڑے کچھ ادیب تلاشی کے خلاف احتجاج کی بات کرتے تھے۔ ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔"

"طاہرہ مجھے تو کوئی احتجاج کرنے والے نظر نہیں آرہے ہیں۔ جنہوں نے احتجاج کرناہے وہ تقریب میں آئیں گے ہی نہیں۔ دیکھ لینا۔ حرف کی عظمت کے سچے عاشقوں کو اپنے وقار کا بہت احساس ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ ہم تو دوستوں کی دید سے پیاس بجھانے آگئے ہیں۔

سامنے ٹنگی بڑی سکرین پر لکھاریوں کے چہرے دیکھتے دیکھتے دفعتاً ایک موہنی سی انتہائی دلکش خاتون نے کبھی کبھی سٹیج پر آکر تمہارے جلد آنے کا مژدہ سنانا بھی شروع کردیا۔ کہیں سے سرگوشیوں میں رقص کرتی آواز کانوں میں پڑی۔ چیرمین صاحب کی اہلیہ محترمہ۔ بھئی مزے۔"

میں نے پورے ہال پر نظریں دوڑاتے ہوئے سوچا۔

اکادمی ادبیات پر بڑی مٹی پڑی ہوئی تھی چلو اس کی کچھ تو گرد جھڑی۔ ہال گو پہلے کا بنا ہوا تھامگر اس کی کچھ صورت گری ہوئی۔ اس بے حال ملک کے اداروں کے چہرے سنوارنے بہت ضرور ی ہیں اب۔ باہر شگفتہ اور اندر مرجھائے ہوئے پھولوں کی کثرت ہے۔ ایسے میں ایک نظر نواز مسکراتا چہرہ آکر کچھ تو مسرور کرتا ہے۔ نہیں بھئی پروگرام کو جاندار بنانے کی سائنسی اپروچ مجھے بہت پسند آئی ہے۔ بیوی ہے تو پڑی ہو۔

بالاخر طویل اور تھکا دینے والے وقفوں میں تمہارا دیدار نصیب ہوا۔ ادارے کے سربراہ کے بعد تمہارا خطاب تھا۔ میرے پیارے قدرت نے بلاشبہ تمہیں کرشماتی شخصیت سے نوازا ہے۔ اب کوئی بات ہے بھلاکہ ایک شریں سی آواز نے ادارے کے سربراہ کو اس کے نام کے ساتھ جب بلایا تھا۔ کاغذ پینسل تو تمہارے اے ڈی سی کے پاس ہوتا ہی ہوگا۔ نوٹ کرنے کی ضرورت تھی ادارے کے سربراہ کو اُس کے نام سے مخاطب کرنا بھی تمہارے لیے بے حد ضروری تھا۔ جو بہرحال اپنے عملے کے ساتھ گذشتہ چند ہفتوں سے اِس تقریب کے انعقاد کے لیے سرتاپا سرگرم تھا۔

کاش تم ذرا اس سے بات کرکے کچھ پوچھ لیتے کہ ملک کے کِس کِس حصّے سے لوگ آئے ہیں۔ کچھ انہیں سراہ دیتے۔ سامنے کی پوری نشست تو تمہارے لوگوں نے سنبھال رکھی تھی۔ ایک جانب ملک کا بہت بڑا شاعر، ڈرامہ نگار، کالم نگارامجد اسلام امجد بھی بیٹھا تھا جسے ترکی جیسے دوست ملک کے حکمران طیب اردگان نے باقاعدہ سٹیج پر چڑھا کر اپنے ہاتھوں سے انعام سے نوازا تھا۔ ہمارا سربراہ مملکت آگاہ ہی نہیں۔ میرے خان ایسی ناواقفیت کیا پسندیدہ ہے؟

ریاست مدینہ کا ذکر، مغرب کو بہت جاننے جیسے جملوں کی دہرائی اور بار بار دہرائی، اسلامی تاریخ اور جنگوں کا ذکر، عالموں کی اہمیت، ابن بطوطہ اور البیرونی کا ذکر بہت اچھی بات۔ ہاں اپنے ملک کے صاحب علم و قلم و فکرسے تھوڑی سی شناسائی کو بھی تو ضروری سمجھو۔

شفقت محمود سے دو تین بار مخاطب ہونا پسندیدہ۔ مگرادارے کے سربراہ کو بھی تو مخاطب کرنا اخلاقیات، محبت اور اپنایت کے زمرے میں آتا ہے۔ سوشل میڈیا نئی نسل کو خراب کررہا ہے۔ غصہ نہیں کرنا۔ کئی چیزیں تو تمہارے اپنوں کی ایجاد کردہ ہیں۔

ہاں اب میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ تھوڑا سا اگر اپنے اردگر د کسی صاحب علم سے بھی مشورہ کرلیا کرو تو اس کا فائدہ ہی ہوگا۔ منصور آفاق تمہارا سچا عاشق صادق بھی ہے اور صاحب علم بھی۔

میرے خان اعظم تم ہم غریبوں کو کتنی خوش خبریاں دیتے ہو۔ اب کیا کہوں کہ جب لاہور سے چلی تھی تو پیٹرول 138روپے لڑ ڈلوایا تھا اور جب اگلے دن پیٹرول پمپ پر رکی تو ماشاء اللہ سے 8روپے اضافے کی خوش خبری سنی۔

تم نے فیتہ کاٹا۔ چلو اکیڈیمی آف لیٹرز کی شان میں اضافہ ہوا۔ ہم خوش ہوئے۔ پر ایک درخواست تو ادارے کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک سے بھی کرنی ہے۔

ہال میں بہت سارے نامی گرامی لوگ موجود نہیں۔ بانو قدسیہ ہیں تو اشفاق احمد نہیں۔ ممتاز مفتی نہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نہیں اور ایسے بہت سے نام ہیں۔ زندہ لوگوں میں اگر افتخار عارف، امجد اسلام امجد شامل ہوئے تو پھر ڈاکٹر خورشید رضوری، عطاالحق قاسمی اور بہت سے دیگران کے نام شامل ہونے بھی ضروری تھے۔ ادیبوں کی کہیں نہ کہیں سیاسی وابستگیاں بلاشبہ ہوتی ہیں۔ مگر صاحب اقتدار انہیں اپنا اثاثہ جان کر تفریق مٹانے کی کوشش کریں تو اس کے مثبت نتایج ظاہر ہوں گے۔

ایک فارمولا ایک لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کہ ابھی آغاز میں پاکستانی بننے سے لے کر اب تک کے مرحومین کو ہی شامل کرنا ہے۔ گو یا یہ دور ایک طرح پون صدی کے دورانیے پر محیط ہوگا۔

تاہم ایک خوشی سی تھی کہ چلو کچھ ہوا تو سہی۔