Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Khabrain/
  3. Maa

Maa

چنبیلی کی پھولوں جیسی رنگت والی میری اماں جن کے تیکھے خدوخال انہیں بہت دلکش بنائی ہوئی تھے، بیاہ کر جس کی لڑ لگیں وہ نہایت اکھڑ مزاج شخص تھا۔ اُسکی موٹی موٹی باہر کو اُبلتی ہوئی آنکھوں میں شاید کبھی نرمی اور حلاوت گھُلی ہوئی نظر آئی ہو۔ سدا غصہ اور تناؤ ہی موجیں مارتا رہتا۔ کنوار پنے میں جب وہ ابھی اپنی میکے گھر میں قاری صاحب سے گلستان و بوستان پڑھ رہی ہوتیں، میری ابا اپنی گھر کی چھت کی منڈیر پر بیٹھے کبوتروں کے غول اُڑانے میں مصروف ہوتی۔ جونہی گلی میں سک سُرمی والی پا گامے کی آواز گونجتی، ابا منڈیر سی آدھا دھڑ گلی میں لڑھکا دیتی اور آواز لگانا نہ بھولتے۔

"پا گامیاں ! میری ووہٹی نوں سک (دنداسہ) دیندا جائیں۔"

اور پا گاما زور سی ہنستی ہوئے کہتا۔

" پیسے توں دیویں گا یا تیرا پیو۔"

اور وہ سینے پر زور سے اپنا ہاتھ مارتے ہوئی کہتا۔

"میں دیواں گا، میں!"

ارد گرد کے گھروں میں بسنی والیاں شریکے کی چچیاں تائیاں یہ مکالمے سنتیں، ہنستیں اور اماں تک سب کچھ پہنچا دیتیں۔ بیچاری اماں شرم سی سر نہ اُٹھا پاتیں۔

مزاج کی تند، ہنر سے عاری اور تعلیم سی بے بہرہ انسان کی ساتھ اماں نے کیسے گزارہ کیا میرے مشاہدوں کی تلخ یادیں ہمیشہ میرے ذہن میں ہلچل مچائے رکھتی ہیں۔ بڑی صابر عورت تھیں۔ قدرت نے جب ماں کا شرف بخشا اور بیٹا بیٹی سی نوازا۔ دونوں بچی گہری سانولی رنگت لی کر دنیا میں آئے تھے۔ شریکے کی کم وبیش سبھی عورتوں نی طنزاً کہا۔"اری ساری خانوادے میں ایسا کوئی نہیں۔ یہ کالی میراثی کس پر گئی ہیں۔"

تقسیم کی بعد لٹ لٹا کر پاکستان آئی تو اماں کے میکے والوں نے ایک کمرہ جس کی ساتھ ایک چھوٹا سا باورچی خانہ تھا، اماں کو سر چھپانے کو دے دیا۔ چھوٹے موٹے کام پر ابا کو بھی لگا دیا۔ اب لاکھ اماں، ابا کی حُلیے کو اچھا رکھنی پر زور دیتیں، وہاں وہی خستہ حال لنڈے کی پینٹ اور بی ڈھنگی سی قمیض، کندھے پر چار خانے لینن کا انگوچھا اور پاؤں میں پھٹا پرانا جوتا۔ پتہ نہیں انہیں ابا کو اچھے کپڑے پہنانے کا شوق تھا یا وہ اپنی میکے والوں سی شرمندہ رہتی تھیں۔ ان کے بھائی افسر آدمی تھے۔ کلیدی ملازمتوں پر بیٹھے تھے، محل نما گھر میں رہتے تھے۔ ایسے میں شاید وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ابا ان کی لیے شرمندگی اور خفت کا باعث بنے۔ وہ ابا کی کپڑوں کو سوڈے کے کھاری پانیوں میں غوطے دے دے کر ان پر ڈنڈوں کی بارش کر کی صاف کرتیں، نیل لگاتیں اور جب وہ کپڑے ہاتھوں میں پکڑ کر پہنانے کی لیے شوہر کی آگے کھڑی ہوتیں وہ انہیں ہاتھ مار کر جھٹک دیتا۔ اماں مسکینی سی کہتیں: "اے ہے لوگ کیا کہیں گی ان کا داماد کیسا فجا سودائی ہے۔"

بس اماں کی اتنی بات کہنے کی دیر ہوتی کہ ابا کی لال لال آنکھیں یوں لگتا جیسی ابھی فرش پر گر پڑیں گی۔ ہونہہ کا ہنکارا ایسا طنزیہ اور زور دار ہوتا کہ بی چاری اماں سہم کر پیچھی ہٹ جاتیں۔ میرا باپ کیسا آتش مزاج تھا۔ ہنڈیا میں نمک تیز ہوجاتا وہ ہنڈیا اُٹھا کر زمین پر مارتا۔ ذرا بات مزاج کی خلاف ہوئی اُس نے گھونسوں سی اماں کا منہ سُجا دیا۔ کہیں اماں سے جواب دینی کی غلطی ہوگئی اُس نے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔ جب بھی ایسی صورت حال ہوئی اماں بہت ضبط سے اسے برداشت کرتیں اور ہونٹوں کو سی لیتیں۔ نہیں چاہتی تھیں کہ اس لڑائی جھگڑی کی بھنک اس کی میکے والوں کی کانوں میں پڑی۔ اپنے آپ کو کمرے میں قید کر لیتیں۔ کمرے سے باہر نکلتیں تو یوں ظاہر کرتیں جیسی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

چالیس برس کی ازدواجی زندگی میں ایک بار ایسا نہیں ہوا کہ ابا نے اماں کی ہتھیلی پر تنخواہ رکھی ہو۔ ہفتے کا خرچ ملتا اسی میں وہ تھوڑی سی بچت کر لیتیں۔ کبھی کبھی ابا کے اچھے موڈ کا فائدہ اُٹھا کر اس سی کچھ پیسی بٹور لیتیں۔ عجیب بات تھی کہ اماں کی کنواری بہنیں جب ابا کی لیے ناپسندیدہ الفاظ استعمال کرتیں تو اماں بہت برا مناتیں۔ باقاعدہ ان کی مقابلے پر جی داری سی صف آرا ہوتیں۔ پر اماں کی پسپائی ہمیشہ راجہ پورس کی ہاتھیوں جیسی ہوتی کہ جو اپنی ہی فوجوں کو روندتی ہوئی بھاگ جاتی۔ تب اماں اپنی کمرے میں آنسوؤں کی کھارے پانیوں میں غوطے کھاتی ہوئی گلستان، بوستان کی حکایتیں یاد کرتیں۔ مولانا غلام رسول کی یوسف زلیخا پڑھتیں اور اپنی بہنوں کو جی بھر کر کوستیں جو پڑھ لکھ کر بہت تیز طرار بن گئی تھیں۔

عمر بھر وہ بہنوں کی مقابلے میں نندوں سی زیادہ قریب رہیں۔ وہ نندوں کے بچوں کی لیے بہت محبت کرنی والی ممانی تھیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر نندوں کو عید شبراتیں بھیجتیں۔ ان کی بچوں کی شادیوں پر دھوم دھڑکے سے جاتیں۔ بڑی پریت سے نانکی شک تیار کرتیں۔

ابا چھ سال بیمار رہے۔ ایک کریلا دوسری نیم چڑھا والی بات ہو گئی تھی۔ اماں ان کا کمرہ صاف کرتیں، اُلٹیوں اور بخار کی پسینے سے تر کپڑے دھوتیں، جسم کو اسفنج سے صاف کرتیں، دھلے کپڑے پہناتیں، سوپ بنا کر پلاتیں اور سارا دن بھاگی بھاگی پھرتیں اور اس کی ساتھ ساتھ ابا کی گھرکیاں اور گالیاں بھی سُنتیں اور سہتیں۔

ابا کو فالج کا اٹیک ہوا۔ ہسپتال میں داخل ہوئے دس دن تک وہ مسلسل بے ہوش رہے۔ ڈاکٹروں نے غذا کی لیے نالی لگانی چاہی، اماں نہیں مانیں۔ اصرار ہوا تو بولیں۔"میں غذا خود کھلاؤں گی۔" اور پھر پتہ نہیں کہ وہ کن کن جتنوں سی انہیں غذا کھلاتی رہیں۔ ڈاکٹر ریاض قدیر مرحوم ابا کی ہوش آنے پر حیران تھے۔ ان کی یہ خدمت صرف ابا تک محدود نہیں تھی، وہ وارڈ کی ہر اس مریض کی لیے دل وجان سی حاضر رہتیں جس کا کوئی تیمار دار نہ ہوتا۔ کسی کے کپڑی دھو رہی ہیں۔ کسی عورت کی بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں۔ اورجب ابا اپنے پاؤں پر چل کر ہسپتال سی گھر آئی، پتہ نہیں اماں کتنی لوگوں کی دعائیں اپنی ساتھ لائی تھیں۔

کیسی محبت بھری تھیں کہ سارے بوجھ خود ہی اُٹھاتیں اور کبھی بیٹی بیٹے سے یہ نہ چاہتیں کہ وہ کسی دن ہسپتال رہ جائیں اور وہ گھر جا کر آرام کر لیں۔ خدا گواہ ہے کہ ہمیں ایک ڈیڑھ گھنٹے سی زیادہ ہسپتال میں رُکنی نہ دیتیں۔

"بس اب جاؤ۔ بچے چھوٹے ہیں تم لوگوں کی میں جو ہوں۔"

اماں جب ساس بنیں تو بہت اچھی ساس نہیں تھیں۔ شاید انہیں اپنی اکلوتی بیٹی سی بہت پیار تھا۔ مگر گزرتی وقت میں جب انہیں احساس ہوا تو سب کچھ بہو کی حوالے کر کے خود اپنی شوہر کو لے کر ایک چھوٹی سے گھر میں منتقل ہو گئیں۔ کسی نے کہا۔

"تم ابھی سے کنارہ کش ہو گئی ہو۔ اپنی گدی نہیں چھوڑتے۔"

تو بڑی طمانیت سی بولیں۔

"میں نے بہتیرا راج کر لیا۔ اب جن کی کام ہیں وہ سنبھالیں۔"

بچیوں کو قرآن پاک پڑھانے سی انہیں عشق رہا۔ گھر میں جونہی شام کی سائے ڈھلنے لگتے "ماسی جی سلاماں علیکم" کی صدائیں گونجنی لگتیں۔ انگنائی لڑکیوں سی بھر جاتی۔ ہر ایک کو سبق خود دیتیں۔ پتہ نہیں کتنی سینکڑوں لڑکیوں لڑکوں کو پڑھایا۔

ہم ماں بیٹی میں بہت دوستانہ تھا۔ ہر بات ایک دوسری سے کرتی۔ شادی کی اوائل میں سسرال کی سختی کی باتیں مجھ سی سنتیں تو کہتیں۔

"گھبراتے نہیں صبر کرو، اﷲ اچھے دن لے آئیگا۔"

مجھے ہمیشہ دو ملال رہے۔ پہلا یہ کہ میری خوبصورت ماں کو میرے باپ کی بیماری نے ادھ موا کر دیا۔ کبھی کبھی جی چاہنے لگتا کاش! وہ اس بوجھ سی نجات حاصل کر لیں، مگر وہ تو ان خوش نصیب عورتوں میں شامل ہونا چاہتی تھیں جو شوہروں کی زندگی میں ہی وداع ہو جاتی ہیں۔

اور میری دوسرے ملال نے بھی مجھی ہمیشہ مضطرب رکھا۔ وقت اور حالات نے مجھی جس قدر عزت اور دولت دی اپنی بیٹی کا یہ عروج وہ نہ دیکھ سکیں۔

پتہ بھی نہیں چلا کہ کب انہیں موت آگئی دوڑتی بھاگتی وہ چلی گئیں۔ ان کی چارپائی آنگن میں پڑی تھی اور عورتوں کی غول اندر آ رہی تھی۔ میں نے ایسے ایسے چہرے دیکھے جو میں نے اس سی پہلی کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ہر عورت جو دہلیز سی اندر آتی، ضرور کہتی تھی۔

"بڑی اخلاق والی عورت تھی۔"

ہمارے محلے میں یو پی کی طرف کا ایک بہت معزز گھرانہ تھا۔ جن کا بیٹا ڈاکٹر تھا۔ نماز جنازہ میں شرکت کی بعد جب وہ گھر گیا اُس نے اپنی ماں سی کہا۔

"آپ کو پتہ ہی آج کون فوت ہوا ہی؟ "

ماں نی حیرت سے اُسی دیکھا۔

"اس محلے کی بہت نیک اور با اخلاق عورت آج خدا کی مہمان ہوئی ہے۔"

وہ لوگ تعزیت کی لیے جب آئیں تو آنسوؤں بھری آنکھوں سے یہ واقعہ مجھے سُنایا۔

اپنے صدر علاقے کے بازار میں میں جب بھی خریداری کے لیے نکلتی تو ایک مدت تک ریڑھیوں والوں اور دوکانداروں نے مجھ سی اس انداز میں تعزیت کی۔

آپ کی والدہ جیسی اخلاق اور محبت والی عورتیں بہت کم ہوں گی۔

اگر شوہر کی وفاداری اور خدمت پر جنت مل سکتی ہی تو یقیناً میری ماں جنت کی سب سی زیادہ حقدار ہے۔