سیاست اور جمہوری اقدار کو اگر مثبت انداز یا اس کی سیاسی ساکھ کو مثبت انداز میں قائم کرنا ہے تو اس کی بڑی ذمے داری بھی سیاست سے جڑے تمام فریقین کی بنیادی ذمے داری کے زمرے میں آتی ہے۔ کیونکہ سیاست او رجمہوریت کی بنیادی کنجی سیاسی جماعتیں، قیادت، سیاسی کارکن اور پارلیمانی ارکان ہوتے ہیں۔
لیکن اگر یہ ہی سیاسی فریق جمہوریت کو تماشہ بنادیں تو نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ وہ اپنی ساکھ بھی قائم نہیں رکھ سکتی۔ عمومی طور پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اہل سیاست ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن یہاں عجیب تماشہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے بڑی ڈھٹائی سے پرانی غلطیوں میں اور زیادہ رنگ بھر کر اس کو مزید بدنما بناتے ہیں۔ ایک مشہور قول ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
پاکستان کی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی، مارکٹائی، کردار کشی، گالم گلوچ ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ 90کی دہائی میں جو کچھ ہم نے اینٹی پیپلز پارٹی اور پرو پیپلز پارٹی کے تناظر میں دیکھا ہے، وہ ہماری سیاسی تاریخ کے بدنما پہلو ہیں۔ لیکن آج جو کچھ ہم اینٹی عمران خان اور پرو عمران خان کے درمیان سیاست دیکھ رہے ہیں اسے دیکھ کر بھی سوائے دکھ کے او رکچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگرچہ بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پارلیمانی سیاست میں ایسے ہنگاموں کا ہونا فطری امر ہے۔ لیکن کیا اہل سیاست کے معیارات یہ ہی ہیں۔
اس لیے سیاسی جواز تلاش کرنے کے بجائے ہمیں کھل کر ان تمام اقدام کی حوصلہ شکنی یا مذمت کرنی چاہیے۔ ہماری سیاست یا جمہوریت آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہی ہے۔ اس کی ذمے داری تمام اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کہ رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان، مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر اور علی گوہر نے جو زبان استعمال کی ہے، وہ قابل افسوس ہے۔ حزب اختلاف کے مقابلے میں حکومت کا کردار زیادہ ذمے دارانہ ہونا چاہیے، لیکن یہاں حزب اختلاف اور حکومت بلاوجہ کی محاذ آرائی اور پارلیمانی ماحول کو خراب کرنے کی برابر ذمے دار ہے۔
بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت اس کھیل کو پسند کرتی ہے تاکہ قومی سیاست کے معاملات کو کسی سنجید ہ فکر میں لانے کے بجائے سیاست کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔ جب وزیر اعظم تقریر کرے تو پوری حزب اختلاف باجماعت ہوکر ان کو بات نہ کرنے دے اورایوان کو مچھلی منڈی بنادے اور اسی طرح قائد حزب اختلاف کی تقریر پر بھی وہی ردعمل حکومت دکھائے تو ماتم کس پر کیا جائے۔
یہ جو کچھ پارلیمنٹ میں ہورہا ہے، اس کی پہلی بڑی ذمے داری اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پر عائد ہوتی ہے اور دوسری ذمے داری قائد ایوان، قائد حزب اختلاف سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈر ز پر عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے کسی ایک واقعہ پر بھی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے کوئی بڑا نوٹس یا بڑی سزا یا بڑا فیصلہ ان ارکان پارلیمنٹ کے خلاف نہیں دیا جو طوفان بدتمیزی میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد کا نہ ہونا بھی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر ز کی ناکامی ہے۔
اگر کسی ایک واقعہ پر بھی اسپیکر نے سخت نوٹس بلاتفریق لیا ہوتا تو آج کی یہ ہنگامہ آرائی نہ دیکھنے کو ملتی۔ جب تک ایسے لوگوں کو جو پارلیمنٹ کے ماحول کو خراب کرنے کے ذمے دار ہیں سزا نہیں دی جائے گی، حالات درست نہیں ہوں گے۔
ان کی ایک خا ص مدت تک رکنیت بھی ختم ہونی چاہیے اور تمام مراعات بھی۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف ہاوس میں اپنی اپنی پارٹی کے ارکان کے طرز عمل پر خودبھی معافی مانگیں اور ارکان کو بھی پابند کریں کہ وہ اسمبلی کے فلور پر معافی مانگیں۔ تمام پارلیمانی جماعتوں کے راہنماوں کا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر خصوصی اجلاس طلب کرے اور باقاعدہ سب کی مشاورت کے ساتھ حتمی ضابطہ اخلاق بنایا جائے اور جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف بلاتفریق سخت طرز کا ایکشن لیاجائے۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف اور دیگر پارلیمانی لیڈر کی تقریر پر کوئی شور شرابا نہ ہواور اپنی اپنی تقریر کرکے مخالف کی تقریر نہ سننے کا عمل یا بائیکاٹ کی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی جائے۔
اہل سیاست سے جڑے تمام فریقین کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہاں جمہوریت اور سیاست بدستور ایک ارتقائی عمل سے گزررہی ہے اور سیاست سمیت جمہوریت کے بارے میں عوامی رائے کوئی بڑی مثبت نہیں۔ بہت سے لوگ پارلیمنٹ کو ایک تقریری مقابلہ یا محاذ آرائی کے ادارے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ان کے بقول پارلیمنٹ وقت کا ضیاع ہے اور عوامی ٹیکس سے چلنے والے یہ ادارے عوامی مفادات کے برعکس کام کررہے ہیں۔
اس لیے سیاسی قیادت، سیاسی جماعتوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاست اور جمہوریت کے نظام کا مزید تماشہ نہ بنائیں اور خود ایسے اقدامات سے گریز کریں جو جمہوریت یا سیاست کو دیوار سے لگا دے۔ جس انداز سے قومی خزانے سے بننے والی بجٹ کاپیوں کو عملاً ہنگامہ آرائی کے طور پر استعمال کیا گیا وہ مذاق ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ان کاپیوں کو چھاپنے کے بجائے محض دیجیٹل کاپی کے استعمال کو ہی بڑھایا جائے۔ اس کھیل میں تمام سیاسی او رمذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں اور سب کو اپنی اپنی سطح پر تجزیہ کرنا ہوگا کہ ہم سیاست و جمہوریت کی کیا خدمت کررہے ہیں۔ کیونکہ پارلیمانی سیاست کا یہ منفی کھیل عملی طور پر ان قوتوں کو تقویت دیتا ہے جو ملک میں جمہوری نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
میڈیا پر بھی جو کچھ سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد ٹاک شوز یا میڈیا ٹاک کے نام پر مخالفین پر کیچڑ اچھالتے ہیں یا ان کی کردار کشی کرتے ہیں یا بات مارکٹائی تک پہنچ جائے تو خود میڈیا میں بھی محض ریٹنک کو بنیاد بنانے کے بجائے ایسے نام نہاد سیاست دانوں کا ہر سطح پر بائیکاٹ کیا جانا چاہیے جو بلاوجہ پر تشدد، انتہاپسندی اور محاذ آرائی کو سیاسی ہتھیار بناکر خود کو قیادت کے سامنے نمایاں کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی سمیت اچھی جمہوری روایات قائم کرنا اوران کو آگے بڑھانا ہے، لیکن کیا ہماری پارلیمنٹ یہ سب کچھ کرسکے گی، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔