میرے دوست، کلاس فیلو اور ہمدم دیرینہ قاری مغیث جسے علمی اور فکری دنیا پروفیسر ڈاکٹر مغیث کے نام سے یاد کرتی ہے، ہم سب کو چھوڑ کر 24جون کو راہی ملک عدم ہوئے۔ میں اور مغیث نصف صدی سے زائد عرصے تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ شاید ہی ہماری شعوری زندگی کا کوئی مرحلہ ایسا ہو جب ہم نے ایک دوسرے سے مشاورت نہ کی ہو۔ ان کی رحلت سے ایک رات پہلے جب ان کے بیٹے علی طاہر شیخ سے فون پر بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ابو کو چند گھنٹے پہلے وینٹی لیٹرلگا دیا گیا ہے۔
میرا دل پکڑا گیا، میں نے علی طاہر کو تسلی دی اور کہا اﷲ کے حضور فضل اور عافیت کی دعا کرو، ہم سب بھی دعا گو ہیں۔ اسپتال داخل ہونے سے پہلے مغیث نے ایک ٹیکسٹ میسج کیا کہ "میں کورونا کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہو رہا ہوں، اب فون پر بات نہ ہو سکے گی، میرے لیے دعا کیجیے گا تاہم ای میل اور میسج پر رابطہ رہے گا "۔ اس رات میں نے رؤف طاہر، تاثیر مصطفی، شعیب بن عزیز اور مجاہد منصوری سے مغیث کی صحت کے حوالے سے خاصی دیر تک بات کی۔ سب دعاگو اور پر امید تھے لیکن صبح سویرے پیغام ملا کہ وہ ہم سب کو چھوڑ کر ابدی دنیا کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔
مغیث کی زندگی محنت، صبر اور ہمت کی قابل رشک تفسیر ہے۔ زمانہ طالب علمی میں، میں جب دھرمپورہ لاہور میں ان کے چھوٹے سے گھر کے کمرے یا باہر گلی میں ان کے ساتھ بیٹھتا تو وہ گھنٹوں اس موضوع پر گفتگو کرتے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کی فکری اور نظریاتی تربیت کے لیے ریاستی سطح پر کوئی اہتمام کیوں نہ ہے۔
ان کا ہمیشہ یہ خیال رہا کہ ابلاغیات کے طالب علموں میں اگر نظریاتی پختگی ہوگی تو قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول میں بڑی کامیابی حاصل ہوگی۔ وقت کا دھارا بہتا رہا، یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوکر مغیث اسکالرشپ پر امریکا پی ایچ ڈی کے لیے چلے گئے اور مجھے پاکستان ٹیلی ویژن نیوز میں رپورٹر اور نیوز پروڈیوسر کی ملازمت مل گئی۔ ہم مسلسل رابطے میں رہے، وہ تدریس کے شعبے میں منزلیں طے کرتے کرتے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے چیئرمین اور پھر ڈین بن گئے۔ میں پی ٹی وی میں کنٹرولر نیوز اور پھر ڈائریکٹر نیوز کی ذمے داری ادا کرنے لگا۔
بعدازاں جب میں نے دنیا ٹی وی کے پہلے ڈائریکٹر نیوز آن کرنٹ افیئر کا چارج لیا تو ڈاکٹر مغیث بھی دنیا ٹی وی میں ایڈوائزر کی پوزیشن پر آ گئے۔ ہم دونوں نے اشرف عظیم کے ساتھ مل کر دنیا ٹی وی کی ابتدائی نرسری کا انتخاب کیا اور بعد ازاں رپورٹرز، پروڈیوسرز اور ٹیکنیکل اسٹاف کی تربیت کا اہتمام بھی کیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پاکستان ٹیلی ویژن میں کنٹرولر رپورٹنگ تھا اور امریکا عراق جنگ کی لائیو رپورٹنگ کے لیے میں بغداد اور دمشق گیا اور جب میں واپس وطن پہنچا تو ڈاکٹر مغیث اپنی فیملی کے ہمراہ مجھے ملنے اسلام آباد آئے، انھوں نے مجھے ایک ترغیب دی کہ میں اپنے مشاہدات کو قلم بند کروں۔ میں نے کہا کہ میں تو خبر بنا سکتا ہوں لیکن کالم اور کتاب لکھنے کے ڈھب سے عاری ہوں۔ انھوں نے ایک طویل گفتگو میں میری رہنمائی کی اور قائل کرلیا۔ جب میں نے اپنی پہلی تحریر ا نہیں بھیجی تو انھوں نے کہا کہ اسے مجید نظامی صاحب کو بھیج دو۔ میں نے نظامی صاحب کو ارسال کردی۔
اگلے ہی روز مجھے نظامی صاحب اور ارشاد عارف صاحب کا فون آیا کہ راؤ صاحب آپ امریکا عراق جنگ کے مشاہدات بات پر مبنی باقاعدہ کالم لکھ کر ہمیں بھیجتے رہیں، ہم نے ترتیب وار شایع کریں گے۔ اس طرح مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مغیث نے مجھے کالم نگار بنا دیا۔ کچھ عرصہ بعد انھی کے کہنے پر میں نے اپنی کتاب "میں نے بغداد جلتے دیکھا" تحریر کی جسے نیشنل بک فانڈیشن نے شایع کیا (اس کتاب کے اب تک چار ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں بعد ازاں اس کتاب کا انگلش ایڈیشن بھی مارکیٹ میں آگیا)اس طرح مجھے مصنف بنانے کا سہرا بھی مرحوم مغیث الدین شیخ کے سر ہے۔
ان کی رحلت کی خبر جب میں نے اپنے سینئر ساتھی اور مشترکہ دوست شکور طاہر صاحب کو دی تو انھوں نے تاریخی الفاظ لکھے، "ڈاکٹر مغیث ابلاغیات کی تعلیم کے شعبے میں محض ایک فرد نہیں تھے بلکہ ان کی ذات ایک ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔
بڑے نامی گرامی اساتذہ پی ایچ ڈی کی سطح پر، اور تحقیق کے میدان میں، ان کے شاگرد تھے۔ مغیث کی زندگی مسلسل محنت سے عبارت تھی۔ بے پناہ کام کرنے والا شخص، منظم، منضبط اور وقت کی قدر کرنے والا، علم کی عطربیز پھوار میں بھیگا ہوا، طلبہ کے لیے روشنی کا مینار۔ ڈاکٹر مغیث سے جب بھی ملاقات ہوتی، ابلاغیات ہی کے مختلف پہلوں کا ذکر رہتا۔ ابلاغیات کے ماڈلز، تصورات، تھیوریز اور ان کے عملی اطلاق، یا پھر کتابوں، جرائد اور مقالہ جات کی بات ہوتی۔ سماجی مسائل اور حالات حاضرہ پہ بھی گفتگو رہتی۔ کیا گہرائی اور وسعت تھی ان کے مطالعے کی اور کیا خوبصورت اظہار تھا، ان کا"۔
ڈاکٹر مغیث پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے رگ ریشے سے واقف تھے اور اسے درپیش چیلنجز، مواقع اور تحدیدات کا بھرپور ادراک رکھتے تھے، اور انھی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے طلبہ کی رہنمائی کرتے اور عملی زندگی میں بھی ان کی سرپرستی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ طلبہ ان سے عقیدت رکھتے تھے۔ مغیث مرنجاں مرنج، لیکن دو ٹوک بات کرنے والی شخصیت تھے۔
مزاح کی لطیف چاشنی تھی، ان کے مزاج میں، مگر بہت حساس اور قدرے زودرنج بھی تھے۔ دوستوں کی خوشیوں میں شریک ہونے والے، اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھنے والے۔ پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین کا نام ایک نامور بین الاقوامی اسکالر، ماہرتعلیم، تجزیہ نگار اور محقق کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ کی تدریس اور تحقیق میں نئی جہتوں کو متعارف کرایا۔ انھوں نے تمام عمر اور دلجمعی سے کام کیا اور یہی پیغام طالب علموں کو بھی دیا۔
وہ ایک اچھے انسان، بہترین صحافی جو قلم کی حرمت سے نہ صرف یہ کہ آشنا تھے بلکہ پاکستان اور اسلام پر ہمہ وقت اپنی فکر اور جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے، اس حوالے سے ان کی بے باکی اور استدلال بڑا موثرہوتا تھا، بقول سجاد میر "مغیث کے مزاج کی سختی اور اصول پسندی بڑی بڑی لڑائیوں کا باعث بنی لیکن اس پارہ صفت انسان نے کبھی ہار نہ مانی"۔
پاکستان کی تمام یونیورسٹیاں جن میں علم ابلاغیات کی تعلیم دی جاتی ہے انھوں نے ڈاکٹر مغیث الدین سے رہنمائی حاصل کی، ایچ ای سی نے ابلاغیات کے سلیبس کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان سے خصوصی خدمات لی۔ میرے دوست مغیث کی رحلت کی خبر ملک کے تمام ٹی وی چینلز نے نمایاں طور پر نشر کی ان کی خدمات پر کالم نگاری کا عمل اب بھی جاری ہے۔
کورونا کے باعث رحلت کے باوجود ان کا جنازہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد نے پڑھایا ان کے عزیز و اقارب یونیورسٹی اساتذہ اور صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ مغیث الدین شیخ اپنی اہلیہ، اپنے بیٹے علی طاہر شیخ، دو بیٹیوں اور ہم سب کو غمزدہ چھوڑ کر منوں مٹی تلے چلے گئے لیکن اس دنیا میں ایسے خوش رنگ پھولوں کی آبیاری کر گئے کہ جن کی خوشبو اور رنگ ہزار ہا طالب علموں کی شکل میں ان کی نمایندگی کرتے رہیں گے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں