مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ کس کا دھڑھن تختہ کرے گا؟ عمران خان کا؟ پوری حکومت کا؟ قومی اسمبلی کا؟ موجودہ سیاسی نظام کا؟ یا پاکستانی سیاست سے نادیدہ قوتوں کی مداخلت کا؟ یا پھر مولانا فضل الرحمان اور اس کی سیاست کا؟
یہ ہیں وہ سوالات جن کا جواب ہر ذی شعور پاکستانی شہری ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی پس منظر میں ان سب سوالوں کا جواب حتمی طور پر شاید ہی کوئی تجزیہ نگار دے سکے، تاہم قیاس آرائیوں اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ان سوالات کے جوابات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ان سوالات کے جواب تک پہنچنے سے پہلے ایک مسلمہ حقیقت کا اظہار بہرحال کرنا پڑتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے جس انداز میں میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس دھرنے کو پرامن طور پر وفاقی دارالحکومت پہنچایا ہے وہ ان کی شخصیت، تنظیم اور صلاحیتوں کے لوہے کو منوانے کے مترادف ہے۔
ایک ایسی حکومت جس کے بارے میں بالعموم یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اسے مقتدر حلقوں کی کھلی اور چھپی دونوں طرح کی حمایت حاصل ہے اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی عملی شرکت کے بغیر فضل الرحمان ریکارڈ افراد کو اسلام آباد لانے میں کیسے کامیاب ہوئے۔ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن پر ہر خاص و عام تبصرے کر رہا ہے۔ ایک خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی گیلی جگہ پاؤں نہ رکھا، ان کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں کہ مولانا کا دھرنا Scripted نہ ہو۔
ان کا خیال ہے کہ عمران کو لانے والے چند ماہ بعد ہی اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ یہ کھیل عمران خان کے بس کا نہ ہے اور انھوں نے(Contingency) پلان کے تحت اس دھرنے کے نتیجے میں عمران خان کو وزارت عظمی سے ہٹا کر شاہ محمود قریشی یا شہباز شریف کو متبادل وزیر اعظم کے طور پر شارٹ لسٹ کر لیا ہے۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو اس دلیل میں وزن دکھائی دیتا ہے۔ شہباز شریف نواز شریف کے "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے کی عملی تصویر نہ بنے۔ دوسری طرف شاہ محمود قریشی عمران خان کے دفاع کے لیے نہ تو ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف کے سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہیں۔ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ "ہم ہیں نا" کا یقین دلارہے ہیں۔
رہا سوال یہ کہ سارے کھیل میں فضل الرحمن کو کیا ملے گا؟ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان گئے تو صدر علوی کو بھی جانا ہوگا اور ان کی جگہ فضل الرحمان متمکن ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
اور اب سوال کی طرف کہ یہ دھرنا اور کس کا دھڑن تختہ کرے گا۔ عمران خان کے حوالے سے اس ایک سال کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ فضل الرحمن کو اس نہج تک لانے میں عمران خان کے تضحیک آمیز رویے اور سیاسی بلوغت کی کمی نے ان کو اس بحران کے گرداب میں پھنسایا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بعد کافی حد تک Non entity تھے وہ اب حزب اختلاف کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی نون لیگ اور رہبر کمیٹی سے بالا بالا فیصلے کر کے دھرنے کو اپنے شیڈول یا اسکرپٹ کے مطابق مخصوص جگہ لا بٹھایا۔ مولانا صاحب کے دھرنے میں شریک اکثریت ان پیروکاروں کی ہے جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پر یقین رکھنے کی بجائے اپنے قائد محترم کے اشارے پر سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔
مولانا کے شرکاء روبوٹ کی طرح عمل کر کے مولانا طاہر القادری کے دھرنے کے شرکاء کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں ایسے فنکاروں کو ڈھونڈنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے! کاش ہمارے سیاستدان بھی اتنے ہی زیر ک ہوتے اور اپنی اپنی سیاسی جماعت کو شخصی اور خاندانی حکمرانی سے نکال کر حقیقی سیاسی جماعت بنا دیتے۔ فی الحقیقت ان حالات میں مجھے عمران خان کی سیاست پھلتے پھولتے نظر نہیں آ رہی۔ اگر وہ اس "ہلے" میں بچ بھی گئے تو پھر انھیں اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا جس پر نواز شریف اور زرداری سالہا سال کام کرتے رہے۔ عمران خان اگر اقتدار میں آتے ہی بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط برقرار رکھتے تو وہ گرداب میں پھنسنے سے بچ سکتے تھے۔ لیکن "اب کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"۔
مولانا فضل الرحمن نے جس س کمال مہارت سے اپنے لوگوں کو یہاں تک پہنچایا ہے اس کے پس منظر میں مولانا اور عمران خان کے درمیان ہونے والی نفسیاتی جنگ مولانا بخوبی اور باآسانی جیت چکے ہیں۔ تاھم ان دونوں کے درمیان ہونے والی سیاسی جنگ کا حتمی راونڈ ابھی باقی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے جمعہ کے دن اپنے خطاب میں عمران خان کو جس طرح دو دن کی مہلت دی ہے، اور اس کے بعد جس ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے وہ بظاہر ملکی سیاسی منظر نامے کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ پاکستان اب ایک نوزائیدہ ملک نہ ہے، ہم ہر طرح کے تجربات سے گزر چکے ہیں۔ سیاسی تجربے نے سیاستدانوں اور دیگر قوتوں کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ فریقین اس صورتحال کا دیرپا حل تلاش کریں۔ عہدے اور مرتبے آتے اور جاتے رہتے ہیں ملک اور قوم قائم رہتے ہیں بشرطیکہ نیتیں درست ہوں۔
میرے وطن کے ساتھ سیاست اور حکمرانی کے نام پر بہت کھیل کھیلے جا چکے ہیں، ہمارے سیاسی نظام کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔ کہ ہماری سیاسی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز پاکستان اور اس کے عوام کو مقدم سمجھتے ہوئے Rules of game طے کر لیں تاکہ کبھی ٹکراو نہ ہو۔
خدارا ملک میں عوام کی سماجی اور معاشی صورتحال کی خاطر ہی کچھ سوچیں، بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر ہم کہاں ہیں ذرا دیکھیں تو سہی ایف اے ٹی ایف، کشمیر کی صورتحال اور سفارتی تنہائی، کیا یہ سب کچھ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی یا مارشل لا ہمارے سیاسی نظام کا حل نہیں، اس نظام کو اگر بچانا ہے تو غیرجانبدارانہ طریقے سے صورتحال کو ٹھیک کیا جائے۔
زمینی صورت حال کے پس منظر میں یا تو پارلیمنٹ کے اندر بغیر کسی مداخلت کے تبدیلی ہوجائے، انتخابی اصلاحات اور ضروری آئینی ترامیم کی جائیں تاکہ غیر جانبدارانہ انتخابات کی راہ ہموار ہوسکے۔ دوسرا راستہ آئین سے بالاتر ہے کہ پورا نظام اور آئین لپیٹ کر حکم نامہ جاری کیا جائے اور پھر ہماری آئندہ نسلیں جمہوریت کو کتابوں میں پڑھتی رہیں اور ہم ایک گول دائرے میں سفر جاری رکھیں۔ اس وقت دونوں راستے کھلے ہیں، ہمیں ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اگر کوئی تیسرا راستہ ہے تو۔
صلاح عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے