وزیراعظم عمران خان نے بہت اچھا کیا کے اپنے ساتھ کام کرنے والے اہم عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے کہا کے اپنے اثاثے اور شہریت کا اعلان کریں۔ ایسا پہلے کبھی کسی سیاسی لیڈر نے نہیں کیا تھا۔ جب سب لوگوں نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تو بھائی لوگوں نے ایک نئی کہانی شروع کر دی اور اب جھگڑا دوہری شہریت کا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اسکے بارے میں آخری فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ شاید قانون تو واضح ہے لیکن لوگ ہر ایک پر شک کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ریاست پاکستان لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کو ملک سے باہربھیجتی ہے تاکے وہ ڈالر بھیج کر ملک کی مدد کریں۔ اربوں ڈالر ہر سال آتے ہیں اور برسوں سے ملک کی معیشت کو سنبھالا ہوا ہے در حقیقت انکے ڈالر حکومت، ریاست اور عوام کو بہت اچھے لگتے ہیں۔ جب ملک پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ملک سے باہر پاکستانیوں سے خاص اپیل کی جاتی ہے اور وہ دل کھول کر مدد بھی کرتے ہیں۔ پھر کئی برسوں سے شور مچ رہا ہے کے ملک سے باہر رہنے والوں کو ووٹ کا حق دیا جائے اور کئی دفعہ احکام بھی جاری ہوئے اور شاید کہیں کام بھی ہو رہا ہے۔ انکو اسمبلی میں نمائندگی دینے کی بھی بات ہوتی ہے۔ قانون تو یہ ہے کہ کوئی دوہری شہریت والا کسی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا اور ہارون اختر اور سعدیہ عباسی کو اسی بنیاد پر نا اہل بھی کیا گیا۔ مگر دوہری شہریت والے صرف اسمبلیوں کے ممبر نہیں بن سکتے مگر دیگر تمام عہدوں پر وہ کام کر سکتے ہیں۔ اب عمران خان کے ساتھ جو لوگ ہیں ان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ جن لوگوں کو انہوں نے اپنا معاون بنایا ہے وہ کابینہ کے اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ انہوں نے حلف نہیں اٹھایا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہر معاون ہر کابینہ کے جلسے میں از خود نہیں بیٹھ سکتا مگر وزیر اعظم کسی بھی معاون کو خاص دعوت دے کر کابینہ میں بلا سکتے ہیں۔ تو یہ سب باتیں طے شدہ ہیں۔ پھر مسئلہ کیا ہے۔ یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کے جب گدھے کو باپ بنانا ہوتا ہے تو سب فورا تیار ہو جاتے ہیں اور شامل باجا ہو جاتے ہیں۔ کیا سب نے معین قریشی اور شوکت عزیز کے ڈرامے بھلا دیے ہیں۔ قریشی صاحب کا تو شاختی کارڈ بھی نہیں تھا اور پاکستان آ کر بنا تھا۔ دنیا بھر میں ملک سے باہرکام کرنے والوں کو لایا جاتا ہے تاکہ انکے تجّربے اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ خود پاکستان میں کیا پی آئی اے میں یا کراچی الیکٹرک میں ایک جرمن کو چیف نہیں لگایا گیا تھا یا آجکل اسٹیٹ بینک کے گورنر کہاں سے آئے ہیں۔ کیا خود مشیر خزانہ پاکستان میں مستقل رہتے ہیں۔ ہاں جب انھیں وزیر یا مشیر بنایا جائے تو آ جاتے ہیں ورنہ پھر واپس ڈالر کی دنیا میں۔
کیا امریکا میں دوہری شہریت رکھنے والوں سے یہی سلوک ہوتا ہے۔ ذرا غور کریں دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ایمیزون اور ایپل (Amazon and Apple) سر فہرست ہیں۔ کتنے لوگوں کو معلوم ہوگا کے ایپل کس نے بنائی۔ ایپل سٹیو جابز نے بنائی مگر اسکے باپ کا نام عبدالفتاح جنڈالی تھا جی ہاں عبدالفتاح جنڈالی جو شام کے شہر ہومس سے امریکا آیا تھا۔ ایمیزون کا مالک جیف بیزوز کیوبا کے ایک شہری کا بیٹا تھا۔ Tesla، Yahoo، Ebay، Pfizer، اور کئی دوسری اربوں ڈالر کی کمپنیاں امریکا میں باہر سے آئے ہوئے مہاجروں نے شروع کیں۔ دنیا کیFortune500 کی لسٹ میں 216 کمپنیاں دوہری شہریت والوں کی ہیں گوگل کو شروع ایک روسی نے کیا اور اب اس کا چیف ایک بھارتی ہے اور بھارت کے ہی لوگMicrosoft اور Mastercard جیسی بڑی کمپنیوں کے مالک ہیں۔
آجکل یو ٹیوب کا بڑا شور ہے اور ہر ایک کوشش میں ہے کہ پاکستان میں اسکو بند کر دیا جائے مگر کتنے لوگ جانتے ہیں کے یو ٹیوب کو ایک بنگالی نوجوان جاوید کریم نے دو دوستوں کے ساتھ مل کر شروع کیا تھا اور پھر گوگل نے اسے خرید لیا اور آجکل گوگل کا چیف بھارتی نژاد 48 سالہ سندر راجن پچائی ہے۔ تو کیا گوگل اور یو ٹیوب کو اسلئے بند کر دینا چاہیے کے ان کمپنیوں کو پاکستان دشمن شہری چلاتے ہیں تو دراصل مسئلہ شہریت کا نہیں مسئلہ سیاست کا ہے۔ لوگ کہتے ہیں زلفی بخاری کس چیز کے ماہر ہیں جو انھیں عمران خان اپنی کابینہ میں بلاتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ زلفی بخاری کی دوستی صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سے ہے اور انہی کی وجہ سے عمران خان صدر ٹرمپ اور امریکا کے نزدیک آ گئے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت بہتری آئی۔ اگر ایسا ہے جو لگتا ہے کہ ٹھیک ہے تو شاید زلفی بخاری نے وہ بڑا کام کر دکھایا جو بڑے بڑے افلاطون سیاستدان اور سفارتکار نہیں کر سکے۔ تو کیا زلفی بخاری کو پاکستان کے لئے ایک خطرہ سمجھا جائے۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی پاکستانی نے جو کہیں بھی رہتا ہے اورپاکستان کے لئے کوئی اچھا کام کیا ہے یا اپنی دوستی یا ماہرانہ صلاحیت کا نا جائز فائدہ اٹھا کر ملک اور قوم کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی لوگوں نے تو سیاست ہی کرنی ہے اور اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتا۔
اگر کوئی بیروزگار پاکستانی امریکا دبئی سعودی عرب یا کسی بھی ملک میں جا کر کوئی کام کرے اور وہاں کی رہائش لے لے یا شہریت لے لے تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ خود پاکستان کی ریاست سب لوگوں کو روزگار اور کام نہیں دے سکتی اور خود ہی لوگوں کودوسرے ملکوں سے منّت سماجت کرکے باہر بھیجتی ہے لیکن اگر امیر ترین لوگ بڑے بڑے صنعتکار اور جاگیردار یا بڑے بڑے سیاستدان اور انکے بچے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے اقامے اور گھریلو خادموں کے ویزے لینا شروع کر دیں تو سوال تو اٹھے گا کہ کیا دوہری شہریت صرف عام آدمیوں کے ہی گلے کا پھندا ہے۔ کوئی دو سال پہلے مارچ 2018 میں سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سےFIA کے جناب بشیر میمن نے اعداد شمار جمع کرائے جن کے مطابق ملک کے تمام سرکاری نوکروں میں سے 758 بڑے بڑے افسروں کے پاس دہری شہریت تھی۔ 611 افسروں نے یہ بات قبول کر لی تھی۔ اسی طرح 824 افسروں کی بیگمات یا شوہروں کے پاس کسی اور ملک کی شہریت تھی اور ان میں سے 614 نے قبول بھی کیا۔ مگر ہوا کیا؟ صفر جمع صفر برابر صفر۔
اب اگر سیاست کو اس بحث سے نکال دیا جائے تو کیا 758 اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسروں کی وطن سے محبت مشکوک ہو گئی اور کیا گریڈ 21 اور گریڈ 22 کے افسروں کے پاس سرکاری راز نہیں ہوتے اور کیا وہ کابینہ کے جلسوں میں نہیں بیٹھتے۔ آج تک کسی افسر کو شاید ہی اس وجہ سے روکا گیا ہو کہ اسکے پاس دوہری شہریت ہے۔ اسلئے اس مسئلہ پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ہر پاکستانی کو حق ہے کے وہ کسی بھی ملک میں جا کر کام کرے اور جن ملکوں کے ساتھ دوہری شہریت کے با قاعدہ معاہدے موجود ہیں انکا احترام ضروری ہے۔ اگر کوئی باہر کی شہریت لے لے تو کیا وہ اچھوت ہو جاتا ہے۔ ہم امریکی اور برطانوی پاکستانی شہریوں کے ڈالر اور پونڈ تو بڑے مزے سے ہڑپ کر جاتے ہیں لیکن اگر کوئی حکومت یا کوئی ادارہ انکی ماہرانہ خدمات حاصل کرنا چاہے تو اعتراض اور سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری ہماری عدلیہ کی ہے کہ وہ اس موضوع کو سنجیدگی کے ساتھ لے کیونکہ جب 2018ء میں سپریم کورٹ میں اعداد شمار جمع کرائے گئے تھے تو کچھ جج صاحبان کے نام بھی آئے تھے۔ اب جب کہ ملک کے سیاستدان، سرکاری افسر، جج، صنعتکار اور جاگیردار سب اس مسئلہ کی لپیٹ میں ہیں تو ضروری ہے کے کچھ اصول طے کر دیئے جائیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کے کسی دوہری شہریت والے کو اگر پاکستان میں اہم عہدہ دیا جائے تو دیکھا جائے کے اسکے ذاتی مفادات کہیں ملک کے مفاد سے ٹکراتے تو نہیں Conflict of Interestکے اصول کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر پاکستانی پر شک اور شبہ کرنا ٹھیک نہیں۔